میرے نبی پیارے پیارے نبیﷺ

میرے نبی پیارے پیارے نبیﷺ

چودہ سو سال پیچھے کی مقدس گھڑیاں ہیں۔ رب ذوالجلال مسکرا رہے ہیں، آسمان کے بارہ برج روشنی سے معمور جگمگا رہے ہیں،

جنت الماوی کی تمام تر نعمتیں جھانک جھانک کر اس مقام اوج کو تک رہی ہیں، جہاں سرور کونین ﷺ کا جھولا ایستادہ ہے اور زمین رہ رہ کر مضطرب ہے کہ کب اسے اللہ کے محبوب ﷺ کی میزبانی سونپی جائے گی۔ ملائکہ قطار میں ہاتھ باندھے مستعد کھڑے حکم ربی کے منتظر ہیں۔ نور ہستی تو کائنات بننے سے قبل ہی ٹھہر گیا تھا۔ بس اب تخلیق مطہرہ کی تکمیل تھی۔ خلقت پر ازل سے اترنے والے خدا کے احسانوں میں سب سے بڑا احسان نازل ہونے والا تھا۔ انسانیت کی معراج کا دن تھا۔ بنی نوع آدم کی تاریخ کے سب سے قیمتی لمحے تھے۔ ازل سے ابد تک مقرر کردہ وقت کا سب سے درخشان مقام تھا، کیوں نہ منایا جاتا؟ کیوں زمین و آسمان کی شان و شوکت نہ اترتی؟
اُدھر تخت عرش سے اِذن ملا، ادھر ہر جہت درود و سلام گونجنے لگا۔ پانیوں کے تلاطم نے ابلیس کا تخت الٹادیا۔ فارس کے آتش کدے منہدم ہوئے۔ سیارے اپنے مدار میں ٹھہر گئے۔ نجومیوں کی جنتریاں جل کر خاکستر ہوگیءں۔ وید و اوستا کے اوراق مٹی بن گئے۔ ساسانیوں، بازنطینیوں کی سلطنتیں کانپ گئیں۔ مندروں، گرجوں کی گھنٹیاں تھم گئیں۔ کلیسا کا استغراق ٹوٹ گیا۔ جوگیوں کے مراقبے منقطع ہوئے۔ عبادت گاہوں میں سناٹا چھا گیا۔ کائنات کی گردشیں ہی ساکت ہوگئیں۔ ادب کا تقاضا ہی یہی تھا کہ وقت ہر چیز کو ساکن کردیتا۔ مادہ اور توانائی چند لحظوں کے لیے مفقود ہوجاتے۔
اور پھر متبرک فرشتوں کے دوش پہ خوبصورت پنگھوڑا مکھڑا اطہر لے کر اُم القریٰ مکہ معظمہ کے ایک کچے مکان میں اترا۔ مولائے کلﷺ، فخر موجوداتﷺ، محسن انسانیتﷺ، درِّ یتیمﷺ، رحمت العالمینﷺ، نہایت احترام کے ساتھ پہلوئے آمنہ میں لٹائے گئے۔ قیامت تک ہونے والی مدحت و تعریف آپﷺ کے لیے امر ہوئی اور درود کا وظیفہ رطب اللسان جن و انس اور فرشتوں کے نام تا حیات لگ گیا۔ جس روز محمدﷺ پیدا ہوئے، اس روز ہر سو آسانیاں ہی آسانیاں تقسیم ہوتی چلی گئیں۔
بیسیوں اہل قلم کی طرح یہ خاکسار راقمہ بھی خود کو مجبور پاتی ہے کہ سیرت النبیﷺ کے کون کون سے موتی چن کر، صفحہ قرطاس پہ لفظ بنا کر بکھیرے جائیں۔ میرے الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوجائے گا، میری سوچ تھک ہار جائے گی، صلاحیت ماند پڑ جائے گی، تخیل ناکافی ہوگا۔ فریادی ہوں کہ دل کی الکھ نگری میں کوئی القا ہو، کاش میرے شعور کو وسعت ملے، تخیل کو بیان کی قوت عطا ہو، قلم کو روشنی ودیعت ہو اور درود و سلام پڑھتی دھڑکنوں کا نپتے ہاتھوں کے ساتھ جو حروف لکھوں، وہ میرا ورقِ زندگی بھی سنواردیں۔ اے کراما کاتبین، گواہ رہنا کہ آج میرا قلم بھی معتبر ہوگیا!
قرآن تو بذات خود آپﷺ کی دلیل ہے کہ (ترجمہ) بیشک تمھارے لیے رسول اللہ ﷺ میں عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے قبل اناجیل اربعہ، زبور اور تورات نے بھی آپ ﷺ کی شان اور بعثت کی تصدیق کی، الہامی صحیفوں نے بھی اقرار کیا اور آسمانی گواہیوں کے بعد زمین پہ کوئی ایسا کتب خانہ نہیں جہاں مصنفوں کے لکھے سیرت طیبہﷺ کے قصیدے موجود نہ ہوں۔ لوح و قلم پہ شان کندہ ہے، زبان و دل پہ محبت نقش!
وہ واحد شاہ عربﷺ جن کے آگے تمام شاہان عجم ہیج ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر دور مثالِ درخشان ہے۔ بچپن ایسا کہ یتیمی میں پرورش پائی مگر اخلاق کریمانہ اور کردار عارفانہ ۔ کمسنی میں چچا کی بکریاں چرانے نکلتے تو عرب کے ریگزاروں کا ذرہ ذرہ قدم چومتا۔ بے زبان جانور بھی سایہ شفقت سے مستفید ہوتے۔ چلتے تو ہوائیں سلام پیش کرتیں ، بیٹھتے تو زمین کو فخر ہوتا، سوتے تو نیند رشک کرتی، بولتے تو پھول جھڑتے، مسکراتے تو حُسن کو خود پہ ناز ہوتا۔ واللہ کوئی اس ہستی کا ہمسر نہیں ثانی نہیں! مسند نبوت پہ فائز ہوئے تو دنیا میں اوتاد و اتار کی منزلت نے اپنی قدر و قیمت گنوادی۔
ٹیلی سکوپ اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کائنات کے دور دراز گوشوں میں جھانکنے والے آج بھی انگشت بدنداں ہیں کہ صدیوں پہلے ایک انگشت شہادت کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے کیسے ہوگیا؟اکیسویوں صدی کی میڈیکل سائنس دم بخود ہے کہ کس طرح کلیجہ انور شق ہوا اور دل پاک آب زم زم سے دھویا گیا۔ یورپ کے میکنا کارٹا ریفارمز کو انسانیت کا چارٹر سمجھنے والے اس امر سے بے خبر ہیں کہ میرے آقاﷺ نے میکنا کارٹا سے بہت پہلے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمادیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی، گورے کو کالے یا کالے کو گورے پہ کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر تقویٰ کے سبب۔
مغرب زدہ Feminism کا علم بلند کرنے والے شاید نہیں جانتے کہ ہادی اکبرﷺ نے خواتین کو سب سے زیادہ معتبر کیا۔ بیوی، بیٹی، ماں کے روپ کے تمام تر حقوق عنایت کیے۔ غیر عورت کا بھی یہ اکرام تھا کہ حاتم طائی کی بیٹی دربار اقدس ﷺ میں حاضر ہوئیں تو اپنی چادر انھیں دے دی۔
دور حاضر کے مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والی طاقتیں انجان ہیں کہ ہم چھٹی صدی کے اس نبی کے امتی ہیں جنھوں نے عرب کے جنگ و جدال میں سب سے پہلے حلف الفضول (امن کا معاہدہ) اٹھایا، میثاق مدینہ قائم کیا، بیعت رضوان کی پاسداری کی۔
آپ ﷺ کی برکت سے صحرا نخلستان بن جاتے تھے، سوکھے چشمے جاری ہوجاتے، سورج کا احتراق کم ہوجاتا، پتھروں کو قوت گویائی مل جاتی، پہاڑ جھک جاتے، شجر دیدار و قرب کی تمنا میں جڑوں سمیت چل پڑتے، زمین کا رواں رواں، قلزم کا قطرہ قطرہ، آسمان کا گوشہ گوشہ ہم آواز ہوکر پکارتا: صلی اللہ علیہ وسلم!
کرہ باد سے کرہ ارض تک نور ہی نور، رحمت ہی رحمت، برکت ہی برکت۔
لعاب دہن اتنا شیریں کہ شہد بن گیا، پسینے کی خوشبو کے آگے کستوری و کُسمُھ بھی ماند ہیں۔ کشادہ چہرہ، کھلے گلاب سے بھی پیارا اور ماہتاب سے زیادہ روشن۔ فداہوں کہ کسوت و کفش سادہ ہے، آب و خورش بھی سادہ۔ رہن سہن فقیرانہ، چال چلن عاجزانہ۔ الفقر فخری (فقر میرا فخر ہے)۔
راست گفتاری، زہد و قناعت، عفو و حلم، حسن خلق، حسن معاملہ، لطف طبع، رقیق القلمی، رحمت و محبت، جود و سخا، الحق یہ کہ میرے نبی ﷺ ان سب اوصاف کا عالیشان پیکر تھے اور سمندر جتنی روشنائی بھی میسر ہو تو بھی ان کی شان کی تشریح و تفسیر ممکن نہیں۔
آج تک اپنے الفاظ کے نذرانوں کے ساتھ جس جس نے اس دیار عشق میں حاضری دی، اللہ انھیں قبول فرمائے، درود کثیر الوقوع ہو، ہمارا پور پور محمدیت ہو!

بقلم امینہ بتول
بشکریہ ’’خواتین کا اسلام‘‘ میگزین (۱۱؍ربیع الاول ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۳ دسمبر ۲۰۱۵ء)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں