آہ۔۔۔ بچوں کا اسلام کے دادا جان چلے گئے

آہ۔۔۔ بچوں کا اسلام کے دادا جان چلے گئے

آج بدھ کا دن اور تاریخ ۱۸ نومبر ہے۔ معمول کا دن طلوع ہوا ہے۔ وہی نومبر کا سورج اور اس کی نرم گرم دھوپ، ہوا میں ہلکی سی خنکی اور وہی زندگی کی مانوس سی ریل پیل۔۔۔ دور مشرقی افق پر دھیرے دھیرے نمودار ہوتا بڑا سا نارنجی گولا۔۔۔ اور فضا میں رس گھولتی معصوم چڑیوں کی چہچہاہٹ! منظر مکمل تھا۔۔۔ ایک خوش کن منظر۔۔۔ دل کو مسرت، فرحت اور امید سے بھردینے والا صبح کا سحرانگیز منظر۔۔۔ لیکن سر کی آنکھوں سے تو بظاہر سب کچھ ویسا ہی نظر آرہا تھا جو ایک دن پہلے تھا۔۔۔ مگر کچھ تو تھا جو آج صبح کے سارے رنگ پھیکے سے، فضائیں اداس سی اور سرِ دیوار چنبیلی کی بیل مرجھائی سے لگ رہی تھی۔۔۔ سر کو جھکا کر اندرون جھانکا تو معاملہ کچھ سمجھ میں آیا۔۔۔ بھلا اندر خزاں کا موسم ہو تو باہر کتنی ہی بہاریں رقصاں ہوں، دل کیسے خوشی کے نغمے الاپ سکتا ہے؟۔۔۔ ہاں خوشی اور فرحت کا تعلق تو دل کے ساتھ ہے جیسے راحت کا تعلق بدن سے۔۔۔ جب دل ہی افسردہ اور غم سے بوجھل ہو تو کیسی فرحت اور کیسی مسرت؟
اچانک چھم سے گزری رات آنکھوں میں اتر آئی۔ جامعۃ الرشید کا خوبصورت سبزہ زار اور اللہ اکبر کی صدائیں!۔۔۔ وہ چھاٹا سا تابوت اور اس میں موجود چچا جان مرحوم کا جسد خاکی!۔۔۔ نماز جنازہ کی کیفیت تازہ ہوگئی اور آنکھیں بے اختیار بھیگ گئیں!
وہ بے شک ایک عظیم ادیب ہی نہیں، ایک عظیم باپ بلکہ کہنا چاہیے کہ عظیم انسان تھے۔۔۔ ایک مکمل سیلف میڈ انسان۔۔۔ جنہوں نے اپنی نیک نیتی، دیانت اور محنت سے کم نصابی تعلیم کے باوجود معاشرے میں وہ بلند اور محبانہ مقام حاصل کیا کہ کروڑوں لوگ اس مقام پر رشک کریں۔ آپ چچا جان کی آپ بیتی ’میری کہانی‘ پڑھیے اور ورق ورق حیران ہوتے جایئے۔ ایک میڑک پاس سعادت مند نوجوان جس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بڑی مشکلات سے کیا۔ ریڑھی لگائی، کھوکھا بھی لگایا۔۔۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص کام کے لیے گویا منتخب فرمالیا۔ آپ نے لکھنا شروع کیا اور پھر لکھتے ہی چلے گئے۔ اتنا لکھا اور ایسا لکھا کہ ایک ریکارڈ قائم کردیا۔
ان کی دو باتیں پڑھتے، مسکراتے ہی ہم لڑکپن سے جوانی کی سرحد میں داخل ہوئے۔ اس وقت کبھی تصور بھی نہ تھا کہ انسپکٹر جمشید اور ان کے ہونہار بچوں جیسے محب الوطن کرداروں کی تخلیق کرنے والے ایسے عظیم ادیب سے کبھی ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوپائے گا، چہ جائیکہ ان سے بے تکلف باتیں کرنے، ان کے ساتھ کھانا کھانے اور سب سے بڑھ کر ان کی مشہور زمانہ ’دوباتیں‘ میں اس ناکارہ کے ذکر کی سعادت نصیب ہوجائے۔۔۔ یہ محض اللہ تعالی کا ہی کرم تھا!
ایک ڈیڑھ سال قبل قاریات کو یاد ہوگا کہ خواتین کا اسلام میں ہم نے ایک اداریہ چچا جان مرحوم کی ایک بہت اچھی اور دل کو چھولینے والی عادت پر لکھاتھا کہ حضرت بزرگی و تقویٰ، علم و عمل ہر لحاظ سے بڑے ہونے کے باوجود اپنے چھوٹوں کو ہر خوشی کے موقع پر خود سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ اس اداریے کے شایع ہونے کے بعد خود فون کیا اور ایسے پیارے الفاظ عنایت فرمائے کہ شرم سے ہم کافی دیر کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہے۔
پچھلے دو برسوں سے توان کی ’دو باتیں‘ سب سے پہلے ہمیں ہی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔۔۔ مگر پھر بھی اپنی نالائقی کی وجہ سے اب رہ رہ کر دل سے ہوک اٹھ رہی ہے کہ اے کاش! ان سے زیادہ ملاقات ہوتی، وہ کہتے، ہم سنا کرتے اور جھولی بھر بھر ان سے استفادہ کرتے۔ خاص طور پر انتقال سے ایک دن پہلے، حضرت کی ملاقات و زیارت کی ایک دعوت کو آیندہ زندگی کی امید پر جوہم نے موخر کردیا، اس کا ملال تو آج دو دن بعد بھی کسی پل چین ہی نہیں لینے دے رہا اور شاید ہمیشہ رہے۔
وہ جو کہتے ہیں ناں کہ اکثر بڑوں کے گزرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے اور یکایک یہ احساس ہوتا ہے کہ ارے! مرحوم تو ہمارے شعوری احساس سے زیادہ ہمارے لیے اہمیت رکھتے تھے۔۔۔ ایسا ہی شعوری انکشاف ان کے انتقال کی خبر سن کر اگلے لمحے ہوا۔۔۔ جب دل میں بہت کچھ چھن سے ٹوٹ گیا!
ان کے انتقال پر ان کے حلقہ احباب ہی نے نہیں بلکہ جس طرح پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے غم کا اظہار کیا اور تعزیت و دعائے مغفرت فرمائی۔۔۔ وہ ان کی عنداللہ مقبولیت اور عندالناس محبوبیت کی بڑی دلیل ہے۔
حضرت اشتیاق احمد رحمہ اللہ کے انتقال کا غم یہ صرف ان کے اہل خانہ کا غم ہی نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔۔۔ ہم کسی سے کیا تعزیت کریں کہ ہم سب کو ہی تعزیت کی ضرورت ہے۔۔۔ آج ان کے اپنے بچے ہی نہیں، سارے قارئین بلکہ ان کے معروف کردار انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا بھی یتیم ہوگئے۔
ایک بڑی پر لطف بات آپ سے شیئر کرکے اجازت چاہتے ہیں، جو محترم قاری عبدالرحمن صاحب نے بتائی کہ چچا جان مرحوم نے جس طرح ساری زندگی ننھے بچوں کے لیے لکھا، اسی طرح خدا کا کرنادیکھیے کہ آخری آرام گاہ بھی ۷ ننھے منے بچوں کی قبروں کے ساتھ پائی۔ کیا خوب فرمایا کہ کل قیامت کے روز جب سب اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر کو چلیں گے تو ان شاء اللہ اشتیاق احمد بچوں کے جھرمٹ میں ہوں گے اور کیا عجب کہ یہ منظر دیکھ کر فرشتے ایک دوسرے کہ کہہ رہے ہوں: ’’ارے وہ دیکھو! بچے اپنے اشتیاق کو لیے جارہے ہیں۔‘‘
آخر میں بس اتنا ہی کہیں گے کہ: اناللہ و انا الیہ راجعون۔۔۔
بے شک ہم سخت غمزدہ ہیں مگر اللہ کی رضا پر راضی ہیں!
والسلام

محمد فیصل شهزاد

خواتین کا اسلام 19 صفر 1437ھ مطابق 2 دسمبر 2015ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں