آہ! حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ المدنیؒ

آہ! حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ المدنیؒ

60 سال سے زاید عرصہ قال اللہ اور قال رسول اللہ کے مبارک ترین مشغلہ میں صرف کرکے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب المدنی بھی خلد آشیاں ہوگئے۔ خوش خلق، شیریں دہن، ہر دم فعال اور متحرک رہنے والے اور اب گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک بھر میں ختم بخاری کے حوالے سے سب سے زیادہ سفر کرنے والے حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحب فقط ایک جید مدرس اور صاحبِ قلم ادب نہ تھے بلکہ تحریکات، تنظیمات اور جوش و ولولہ کی دنیا کے بھی سرخیل تھے۔ افغان جہاد اور افغان طالبان سے غیرمعمولی محبت و عقیدت تھی اور افغانستان کے دینی حلقوں میں ’’استاذ الکل‘‘ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ افغانستان میں جب طالبان کا دور تھا تو مولانا کو ’’دورہ تفسیر‘‘ کے لیے خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا اور طالبان کی مرکزی قیادت کے حضرات بھی ذوق و شوق سے مولانا کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔

زندگی کا ایک بڑا حصہ مدینہ منورہ میں گزارا تھا، اس لیے عربی میں اہلِ زبان کی سی فصاحت و بلاغت تھی۔ فی البدیہہ عربی تقریر کرتے تھے اور خوب کرتے تھے۔
قدیم طرز کے پڑھے ہوئے تھے جب فارسی بھی ہمارے دینی نصاب کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھی، اس لیے فارسی تحریر و تقریر پر بھی عبور تھا۔ مولانا کی ایک خاص خصوصیت ان کا مشہور زمانہ خوبصورت اور پاکیزہ خط تھا۔ اس قدر خوبصورت لکھتے تھے کہ یوں لگتا تھا جیسا موتی پروئے ہوئے ہوں۔ غضب کے مہمان نواز تھے۔ سارا دن مہمانوں، شاگردوں اور علماء کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ہر کسی کو اکرام کے ساتھ بٹھاتے، کھلاتے اور رخصت کرتے۔ اگر کوئی مہمان کسی عجلت کی بنا پر کھانے کے لیے نہ ٹھہرسکتا ہو تو نقد رقم عنایت فرماتے کہ راستے میں میری طرف سے کھالینا۔

اس عاجز کے خاندان کے ساتھ اپنے قریبی مراسم کا ہمیشہ تذکرہ کرتے اور ان قدیمی تعلقات کا انتہائی پاس رکھتے۔ اس بات کا ہمیشہ ذکر کرتے کہ میرا مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ تمہارے والد مولانا عبداللہ کاکاخیلؒ نے کرایا تھا۔ جس زمانے میں والد صاحب مرحوم، مولانا حسن جاں شہید اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب دامت برکاتہم مدینہ یونیورسٹی سے پڑھ کر فارغ ہوچکے تھے، اس کے بعد حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحبؒ پڑھنے کے لیے مدینہ یونیورسٹی تشریف لے گئے تھے۔ا پنے زمانۂ طالب علمی میں سلفی علماء کے ساتھ اپنے مناظروں کی دلچسپ داستانیں بہت مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ حضرت والد صاحب مرحوم، حضرت مولانا شیر علی شاہ، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب، حضرت مولانا حسن جان شہید اور حضرت مولانا قاری سعید الرحمن صاحب ان پانچ حضرات کا مشہور و معروف گروپ تھا جس نے بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے تک اپنی دوستی و محبت کو خوب نبھایا۔ اب اس جماعت میں سے فقط حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔

راقم الحروف نے اپنی رسمی تعلیم کے زمانے میں موقوف علیہ یعنی درجہ سابعہ کے سال حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے پاس جامعہ حقانیہ میں دورہ تفسیر کیا تھا۔ حضرت نے کمال شفقت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے رہائش کے لیے جامعہ کے اساتذہ کو الاٹ شدہ اپنا کوارٹر عنایت فرمایا۔ حضرت کی نشست کے قریب ہی بیٹھنے کی جگہ متعین فرمائی اور پورے دورئہ تفسیر میں خصوصی محبت کا معاملہ فرماتے رہے۔

ہم نے کچھ عرصہ سے اپنے آبائی علاقے زیارت کاکا صاحب میں ایک سیرت کانفرنس کرانے کا معمول شروع کیا ہے۔ حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحبؒ کو اس کی صدارت کے لیے مدعو کیا تو ان دنوں شدید بیمار تھے اور آمد و رفت مکمل طور پر بند تھی، بڑے شوق سے تشریف لائے اور بھرپور بیان فرمایا اور مجھ سے کہا صرف تیری وجہ سے آیا ہوں ورنہ آج کل کہیں آجا نہیں رہا۔

اسی طرح ایک معاملہ میں ہمیں مولانا شیر علی شاہ صاحب کے بیان کی ضرورت پڑگئی۔ استاذ محترم حضرت مفتی ابولبابہ شاہ منصورؔ صاحب دامت برکاتہم نے اس عاجز کے ذمے لگایا کہ مولانا کا بیان لینا ہے۔ مولانا نے بلاتامل بیان لکھ کر دے دیا۔ بندہ نے عرض کیا کہ حضرت ہوسکتا ہے کہ ایک اور بیان کی ضرورت بھی پڑجائے اور تو دوبارہ کراچی سے کیسے آئوں گا؟ تو اپنے لیٹرپیڈ سے دو صفحے نکال کر سادہ کاغذ پر اپنے دستخط ثبت فرمائے اور کہا میری طرف سے تم کو اجازت ہے جو بیان لکھنا چاہو لکھ کر اخبار میں دے دینا۔ شاید وہ دستخط شدہ سادہ کاغذ اب بھی میری کتابوں میں کہیں پڑا ہوگا۔

حضرت کی ایک ایک شفقت یاد آتی ہے تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ والد صاحب مرحوم سے اپنی دوستی اور تعلق کی جس طرح لاج رکھی، آج کے زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی میں اکوڑہ خٹک میں ان دو حضرات یعنی حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحبؒ اور حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کی اکھٹی مجلس میں موجود ہوتا تو کئی بار دونوں حضرات نے آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ تم کو دیکھ کر مولانا عبداللہ کاکاخیل صاحبؒ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی اولاد کو مدرسوں اور تعلیم تعلّم کے رستہ پر چلتا ہوا دکھادیا۔ اس پر دونوں حصرات اپنی بے پایاں مسرت کا اظہار فرماتے۔

اللہ تعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین یا ربّ العالمین بجاہ سیّد الاولین والآخرین۔

تحریر سیّد عدنان کاکاخیل
ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں