ازبکستان میں حجاب کے حق میں شاعرانہ جنگ

ازبکستان میں حجاب کے حق میں شاعرانہ جنگ

’میں دوسروں کو اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرنے دوں گی، جو حجاب خود نہیں پہنتے انھیں اپنے حجاب کے بارے میں بات نہیں کرنے دوں گی۔‘
یہ اشعار ہیں اُزبکستان میں انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی ایک نظم کے ہیں۔
اُزبکستان میں خواتین کے حجاب پہننے یا سکارف کے خلاف جاری کارروائیوں کے خلاف مہم چلانے والے احتجاج کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لے رہے ہیں۔
اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی کئی نظموں کونہ صرف سینکڑوں لائیکس ملی ہیں بلکہ انھیں بڑی تعداد میں شیئر بھی کیا گیا ہے۔
ایک نظم میں کہا گیا ہے ’مجھ پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے چہرے پر فوٹوشاپ کے ذریعے حجاب پہن کر دیکھیے، اور یہ جان لیں کہ خواتین کا حجاب پہننا ایک عام روایت ہے، اگر آپ خود نہیں پہنتیں تو میرے حجاب کے بارے میں بھی سوال نہ کریں۔‘
ایک اور نظم میں خواتین کے جینز پہننے اور میک اپ کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’اسلامی لباس‘ کومغربی طرز لباس پر ترجیح دینے کے لیے کہا گیا ہے۔
اُزبکستان میں اگرچہ قانونی طور پر حجاب پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس حجاب پہننے والی خواتین کو حراست میں لے کران سے اُس وقت تک پوچھ گچھ کرتی ہے جب تک کہ وہ حجاب اتارنے پر رضامند نہیں ہوجاتیں۔
ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگراموں اور سرکاری سرپرستی میں بننے والی فلموں میں مسلمان خواتین کے حجاب کو ’غیر ملکی‘ عرب طرز لباس کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
وسط ایشیائی ممالک میں حجاب پہننے پر رسمی اور غیر رسمی پابندیاں عام ہیں۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑی آبادی والی آمرانہ ریاستیں بھی شامل ہیں۔
وسط ایشیائی ممالک کی حکومتیں پروان چڑھتے ہوئے اسلامی اثرورسوخ اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے خطرات کے حوالے سے پریشان ہیں۔
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے تقریباً چار ہزار افراد نام نہاد دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
اُزبکستان میں اگرچہ بی بی سی سمیت مغربی ذرائع ابلاغ اور اختلاف رائے کرنے والے مقامی میڈیا کو اکثر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اتنی سختیاں نہیں ہیں۔
ملک میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بُک، ٹویٹر، اور روسی زبان کی ویب سائٹ وکون تاکٹیا کے صارفین کی تعداد کم ہونے کے باوجود اختلاف رائے کے اظہار کے لیے ان کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔
رواں سال کے اوائل میں لگائے جانے والے ایک تخمینے کے مطابق ملک میں فیس بُک کے صارفین کی تعداد تقریباً ساڑے تین لاکھ سے زائد ہے جو کہ کُل آبادی کا محض ایک فیصد ہے۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں