مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے ملی افکار

مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے ملی افکار

قومی ضمیر پر موت طاری
۱۹۶۷ء کے افسوس ناک المیہ سے مولانا پر جو اثر ہوا، اس نے ان کی زبان حق ترجمان سے بہت کچھ کہلوایا، اس وقت مولانا رحمہ اللہ کی زبان سے جو جملے ادا ہوئے، آج ان کی معنویت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، اس وقت عالم عربی ہی نہیں خود ہندوستان کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ گویا قومی ضمیر خواب خرگوش میں مبتلا ہے یا پھر حس نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے، اس پر طرہ و طرفہ یہ ہے کہ اگر کسی نے حالات کی سنگینی پر زبان کھول دی اور حقائق بیان کردیے تو لوگ اس کے در پہ ملامت و استہزاء ہوگئے، قومی مسائل اور اہم مسائل کی تنقید کو شخصی مسئلہ بنادیا، اس طرح کا دفاعی انداز اور مصلحت پسندی یا خاموشی کس طرح زیب ہے کہ مصر میں اسلامی تحریک (خواہ کسی کا اس سے نظریاتی اختلاف ہی کیوں نہ ہو) کو اکھاڑ پھینکا گیا، اور سعودی عرب نے اس پر خوشی کے شادیانے بجائے، غیرت اسلامی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا اور ہمارے قلم و زبان نے احتساب کے لئے حرکت بھی نہ کی، احتساب تو دور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کہ ہمت بھی نہ ہوئی۔ مولانا رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں ان جیسے المیوں سے کوئی خطرہ نہیں محسوس کرتا بلکہ مجھے اصل خطرہ اس ضمیر سے ہے جس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے، ضمیر کا کام ہے احتساب اور غلطیوں کی گرفت، خواہ وہ اپنے باپ اور بھائی سے سرزد ہوئی ہو یا کسی ذی وقار پیشوا اور رہنما سے، اگر یہ ضمیر مردہ ہوجائے اپنا فطری عمل چھوڑ دے، اپنی افادیت کھو بیٹھے، اور اس میں حقائق کے اعتراف کی صلاحیت باقی نہ رہ جائے، تو یہ سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ انسانیت کی موت ہے، ایک انسان مرتا ہے تو ہزاروں انسان پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن جب ضمیر مردہ ہوجائے، اجتماعی اور قومی ضمیر سے زندگی کے آثار ناپید ہوجائیں، جب قوم سے محاسبہ کی صلاحیت اور جرأت ختم ہوجائے، جب تنقید و احتساب کی جگہ شاباشی، اور داد و تحسین کے پھول برسنے لگیں تو یہ ایسا المیہ ہوگا جس کے بعد کسی المیہ کا تصور ہی ممکن نہیں‘‘۔ (عالم عربی کا المیہ ۱۱۸۔۱۱۹)
یہی نہیں، آگے اور وضاحت سے فرماتے ہیں:
’’سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے کہ یہ ضمیر اپنا کام کرنا بند کردے، اور یہ صرف عرب کے لئے یا صرف مسلمانوں کے لئے خطرہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے خطرہ ہے کیونکہ اللہ نے اسی مسلم ضمیر ہی کو اپنے رازوں کا امین بنایا ہے اس نے ہر مسلمان کو دنیا کا متولی اور ہمیشہ کے لئے عدل و انصاف کا میزان بنایا ہے، جو کامل احتیاط اور ایمانداری کے ساتھ اور پوری جرأت و بے باکی کے ساتھ فیصلہ کرے کسی فرد کی رعایت نہ کرے اور نہ کسی کو کسی پر ترجیح دے، لیکن جب یہ میزان ہی اپنا کام چھوڑ دے تو پھر عدل و انصاف کی توقع کس سے کی جائے، جب نمک اپنی نمکینی ضائع کردے تو آپ ہی بتلائیں کھانا کس چیز سے نمکین کیا جائے؟ یہاں یہ مصیبت نہیں کہ کھانا نمکین نہیں ہے بلکہ مصیبت یہ ہے کہ نمک کی نمکینی جاتی رہی، مصیبت یہ ہے کہ عدل و انصاف کی میزان سے کارکردگی کی صلاحیت ختم ہوگئی، وہ غیر جانبدار نہیں رہی کسی کی دوست ہوگئی تو کسی کی دشمن۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ۱۲۱۔۱۲۲)

قیادت کا محاسبہ کیجیے
حقیقت یہ ہے کہ جب قومی و ملی مسائل میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کا احتساب کرنا قوم بند کردیتی ہے تو وہ مطلق العنان ہوجاتے ہیں، شاہی نظام تو نام ہی ہے مطلق العنانیت کا، اگر چہ اس پر اسلامیت اور مصنوعی و برائے نام شوری کی خوبصورت چادر ڈالی جائے لیکن دور رہ کر، آزاد ملک میں رہ کر، ایک ملت کے فرد کی حیثیت سے جب کچھ لوگوں نے موجودہ کشمکش میں بعض عرب ممالک کا احتساب کرنا چاہا تو بہت سے لوگ چیں یہ جبیں ہوگئے، جب کہ ان کا جرم ایسا تھا کہ ان سے مجرموں کا سا معاملہ کیا جاتا، انھوں نے اسلام کی تاریخ کو داغدار کرنے کا کام کیا تھا، ملت اسلامیہ کا سر شرم سے جھکا دیا تھا، لیکن اب بھی ان کی عقیدت ان کا احترام سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اگر قیادتوں کا احتساب نہ کیا گیا تو حالات کا یہ رخ خراب تر ہوتا جائے گا، حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت پیدا کرنی پڑے گی، کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق ملت کا ادنیٰ سا مسئلہ بھی کسی فرد کا نہیں ملت کا ہوتا ہے اور اہم ہوتا ہے چہ جائے کہ قائدین کو باعزت بری ان معاملات میں کیا جائے جو ملت کی تاریخ میں ایک اور داغ کا اضافہ کریں اور اہل حق کے مقابلہ یہود و نصاریٰ کے مفاد میں کام کریں:۔
’’ہم رومیوں کی تاریخ میں پڑھتے کہ وہ بہت سے دیوتاؤں پر اعتقاد رکھتے تھے، بحر و بر اور جنگ و امن ہر ایک کے لئے ان کا ایک الگ دیوتا تھا، لیکن ان دیوتاؤں کی پرستش کے با وجود کبھی کبھی ان پر بھی جھنجلا جاتے تھے، اگر ان کو کسی مہم میں کامیابی نہ ہوتی یا ان کی امیدیں برنہ آتیں تو دیوتاؤں پر بھی ان کا غصہ بھڑک اٹھتا تھا، تاریخ کا واقعہ ہے کہ رومی شہنشاہ آگسٹس (AUGSTUS) کا بحری بیڑہ سمندر میں غرق ہوگیا تو وہ غصہ سے اتنا مشتعل ہوا کہ سمندر کے دیوتا نیپچون (NEPTUNE) کی مورتی چور چور کردی، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، ناکامی اور جھنجھلاہٹ انسان کی فطرت ہے، اور ہم تو مؤمن و مؤحد ہیں، اور ایک اللہ کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں، ہمارے لئے تو یہ کسی صورت میں جائز نہیں کہ کسی قیادت پر اللہ و رسول پر ایمان کی طرح کامل ایمان لے آئیں، ہمارا فرض ہے کہ اپنا قائدین کا محاسبہ کریں اور خود اپنے آپ کا محسابہ کریں اور اپنے سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی حالات کا غائر نظر سے جائزہ لیں اور انھیں میں مصائب کے اسباب تلاش کریں، کسی فرد یا جماعت کی اندھی اطاعت و گمراہی کے ایسے غار میں پہونچادے گی جہاں ہدایت کی روشنی نہیں پہنچ سکے گی، اور نہ اس سے نجات آسان ہوگی اور قیادت کا محاسبہ نہ کرنا اور اس کی غلطیوں کا مؤاخذہ نہ کرنا اور اس سے وضاحت نہ طلب کرنا، یہ ایسی اطاعت ہے، جس کے بارہ میں قرآن کا فیصلہ ہے: ’’‘إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُواْ أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ* يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ* وَأُتْبِعُواْ فِي هَذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ ‘ (سورہ ہود ۹۷۔۹۹) پھر وہ فرعون کے کہنے میں چلے اور فرعون کی بات درست نہیں تھی، وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا پس ان اکو آگ پر پہونچادے گا اور یہ پہونچنے کی بری جگہ ہے، اور پیچھے سے اس دنیا میں اس کو لعنت ملی، اور قیامت کے دن، یہ برا انعام ہے جو ملا۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص۱۲۳۔۱۲۴)
آگے مزید صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’اگر ہمارے اور آپ کے درمیان اسلامی عقیدہ کا اشتراک نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ ہمارا اور آپ کا انجام ایک ہے، اور ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے اور یہاں جو کچھ ہو رہاہے اس کا جواب ہم سے بلط کیا جاتا ہے تو شاید مجھے محاسبہ کا حق نہ ہو تا اور حقیقت تو یہ ہے کہ قومیں اسی محاسبہ ہی کے سہارے زندہ رہتی ہیں، یوروپی اقوام میں اگر اتنی بیداری اور مخلصانہ تنقید ان کی زندگی کا ایک اہم سبب ہے، وہ اپنے کسی رہنما کو یہ موقع نہیں دیتیں کہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہے، اور اس کی تعظیم و تکریم ہوتی رہے، یہ صرف یوروپی اقوام ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ مسلمانوں کے سربراہ اور قائدین کی بھی یہی حالت تھی۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص ۱۲۶۔۱۲۷)

احتساب اور محاسبہ: ہمارا امتیاز
اس میں کیا شک کہ احتساب سے ہی قومیں زندہ رہا کرتی ہیں، ان کا ضمیر بیدار رہتا ہے اور اپنا کام کرتا رہتا ہے، اور اگر محاسبہ نہ ہو تو پھر من مانیوں کا راج ہوتا ہے، اور رفتہ رفتہ بے ضمیری عام ہوتی ہے، آج حکومتوں کے سربراہوں کو کچھ کہنے اور ان سے کچھ پوچھنے کی بات در کنار! ادنی سے اداروں اور جماعت کے سربراہان کا حال یہ ہے کہ ان کے محاسبہ پر یا کسی خطا کی نشاندہی ہر نہ صرف وہ بلکہ بے شمار لوگ چراغ پا ہوجایا کرتے ہیں، حتی کہ کسی معاملہ میں واضح طور پر استفسار گستاخی تصور کی جاتی ہے، کیا ضروری ہے کہ جو بھی صاحب منصب ہو، وہ صائب ہی ہو اور اس کا فیصلہ درست ہی ہو، ذخیرہ احادیث و سیر صحابہ میں واضح اشارات و واقعات موجود ہیں کہ ایک عام صحابی خلیفہ وقت سے استفسار کر لیا کرتے تھے، اور بر سر منبر ٹوک دیا کرتے تھے بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کسی بھی واقعہ کے ظہور کے متصلا بعد وضاحت کی درخواست کرتے تھے، اور آپ سوال کی مناسبت سے جواب مرحمت فرمادیا کرتے تھے۔
مصر کا المیہ اور اس میں بعض عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے کردار پر جب بعض حلقوں نے آواز اٹھائی تو ان آوازوں کو دیوانے کی بڑا اور شدت پسندی سے تعبیر کیا گیا، تائید حق کی جگہ حق بات کہنے والوں کو خاموش رہنے کی تلقین کی گئی اور مصلحت بے جا کو درست و صائب موقف سمجھا گیا، اس میں کیا شک کہ حرمین پر اہل تشیع کے غلبہ کا خطرہ ہے لیکن اس خطرہ کا حل بھی امریکہ پیش کرے گا؟ اور کیا اس خطرہ کو آڑ بنا کر بڑے سے بڑے جرم کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسی مصلحت کے سبب موقع پرستوں نے مجرمین کی مداحی کی اور وقتی ور کیک فائدے اٹھا کر جرم و ظلم کو مدح و توصیف کا رنگ دے دیا، حضرت مولانا رحمہ اللہ نے کیسا زبردست استشہاد کیا ہے اور کیسی طاقتور بات کہی ہے:
’’جب ایک بڑھیا خلیفہ ثانی کو ٹوک سکتی ہے تو ایک مسلمان یا مؤرخ کو یہ حق کیوں حاصل نہ ہو کہ وہ اپنے قائدین کا محاسبہ کرے۔۔۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر مسلمان کو یہ حق حاصل تھا کہ ان سے جواب طلب کرے، ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور کہا کہ سنو لوگو! اور اطاعت کرو، ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم نہیں سنتے، خلیفہ نے کہا کیوں؟ لوگوں نے کہا آپ کے جسم پر مال غنیمت کی دو چادریں نظر آرہی ہیں، جبکہ ہم لوگوں کے حصہ میں ایک ہی ایک آئی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا یہاں عبداللہ بن عمر موجود ہیں؟ وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ایک چادر میرے حصہ کی ہے۔ جو میں نے انھیں دے دی ہے، صحابی نے کہا ٹھیک ہے، اب ہم ہر حکم کی اطاعت کے لئے تیار ہیں۔
اسی ضمیر اور اسی جرأت و ہمت کے ساتھ یہ امت زندہ رہی اور حادثات و مصائب کا سامنا کرتی رہی اور اپنی طویل تاریخ میں ترقی یافتہ اور بیدار شعور کا ثبوت دیتی رہی ہے اس نے ہمیشہ حق و انصاف کا ساتھ دیا ہے، اور غلطیوں اور کوتاہیوں کے ارتکاب پر گرفت کی ہے، اور انہی اوصاف کے ساتھ مستقبل میں بھی زندہ سکتی ہے۔‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص۱۲۸)

کمزوریوں پر آزادانہ تنقید
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے ہمیشہ کمزوریوں پر بھرپور اور آزادانہ تنقید کی، اس سلسلہ میں وہ کبھی لومۃ و لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے، ہندوستان میں جب فکر و مطالعہ سے عاری بعض حضرات نے جمال عبدالناصر کی مخالفت پر مولانا پر تنقیدیں کیں تو باوجود اس کے کہ مولانا اپنی ذات پر کی گئی کسی تنقید کا جواب دینے کا مزاج نہیں رکھتے تھے، لیکن اس پر مولانا سے رہا نہ گیا، پھر انھوں نے ایک بھر پور مضمون لکھ کر ’’ندائے ملت‘‘ میں شائع کیا، اس کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’۲۳ جولائی ۱۹۵۱ء کو میں نے دمشق یونیورسٹی کے ہال میں ممبران پارلیمنٹ، اساتذہ جامعہ، علماء اور عمائدین شہر کے جلسہ میں جس کی صدارت یونیورسٹی کے عیسائی وائس چانسلر مشہور عرب فاضل قسطنطین زریق کر رہے تھے، فلسطین کے مسئلہ اور اس کے حل پر اپنا مقالہ ہرھا جو ’’فلسطین کے المیے کے بنیادی اسباب‘‘ کے نام سے دمشق، بیروت سے اور بغداد میں ہار ہار چھپا ہے، میں نے اس مقالہ میں موجودہ عربوں کی بنیادی کمزوریوں، ان کے رہنماؤں کی خامیوں، اور کوتاہیوں پر آزادانہ تنقید کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کا حل پیش کیا تھا، عربوں نے اس مشورے کو جو ایک مسافر اور غیر ملکی کی زبان سے پیش ہوا تھا، اور جس میں تاریخ کی تلخی بھی تھی، نہ یہ کہہ کر رد کردیا کہ ’’یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے‘‘ باہر کے کسی آدمی کے مشورہ دینے کا کیا حق ہے؟‘‘ اور نہ وہ اس صاف گوئی اور احتساب پر چیں بی جبیں ہوئے، اسی طرح ۵۶ء میں مؤتمر اسلامی دمشق کے جلسہ میں ’’مسئلہ فلسطین کا تعلق عالم اسلام کے دینی شعور کی بیداری سے‘‘ کے عنوان سے میں نے پھر ایک مقالہ پڑھا اور اس کی اسی طرح پذیدارئی ہوئی، اسی طرح دمشق، بیروت، عمان، بغداد اور مکہ معظمہ میں عرب دوستوں کے سامنے اپنے ناقدانہ خیالات، اپنے مخلصانہ مشورے اور اپنے تأثرات و جذبات پیش کرنے کا بار بار اتفاق ہوا، اور انھوں نے ہمیشہ فراخ دلی اور عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا‘‘ْ (عالم عربی کا المیہ ص۱۵۸)

سیاسی ہلچل پر مومنانہ اور مفکرانہ تبصرہ
۱۹۸۶ء میں مولانا کراچی پہنچے تو وہاں موجودہ حکومت کے خلاف عوام موشگافیاں کررہے تھے اور بے نظیر کے پاکستان آنے پر اس کا ایسا استقبال ہو رہا تھا مولانا کے الفاظ میں ’’جیسے آسمان سے کوئی نجات دہندہ فرشتہ نازل ہوا ہے‘‘ اس صورت حال سے مولانا کی طبیعت پر اثر پڑا، لیکن پھر مولانا خاموش نہ رہ سکے اور ذاتی ملاقاتوں نہیں بلکہ مجمع میں احقاق حق کیا اور فرمایا:
’’جس معاشرہ کا حال یہ ہو کہ کوئی سریلی صدا لگا دے، کوئی بازیگر آکر سبز باغ دکھائے، کوئی شخص بھی قیادت کا جھنڈا بلند کردے تو اس کا ایسا استقبال کیا جائے کہ جیسے دیر سے اس کا انتظار تھا، اور یہی ایک خلا تھا، جو پر نہیں ہوا تھا، وہ آواز لگائے تو یہ معلوم ہو کہ جیسے دل سینوں سے نکل پڑیں گے اور سارے حدود و قیود پیچھے رہ جائیں گے، سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو مخاطب کر کے کہا تھا، انتم اتباع کل ناعق تم ہر آواز لگانے والے اور زور سے بولنے والے کے پیچھے لگ جاتے ہو‘‘ پھر میں نے بتایا کہ قرآن شریف میں عہد موسوی کا ایک بڑا عبرت انگیز قصہ آتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْاْ عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُواْ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ* إِنَّ هَؤُلاء مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ‘‘ (الأعراف 138-139)
ترجمہ: ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پارا تار دیا پھر وہ ایسے لوگوں پر گذرے جو اپنے بتوں کو لئے بیٹھے تھے (اس پر بنی اسرائیل) کہنے لگے! اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک دیوتا ایسا ہی بنادیجئے جیسے ان کے (یہ) دیوتا ہیں (موسیٰ) نے کہا واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ ہو کر رہے گا اور یہ جو کچھ کررہے ہیں ہے بھی (بالکل) باطل۔‘‘
(کاروان زندگی ج۳ ص۱۷۳)
۱۹۸۶ء میں پاکستان کے حالات بے نظیر کی آمد، سیاسی گلیاروں میں ہلچل بیرونی دنیا کی سازش اور پاکستان میں اس کے والہانہ استقبال کو ذہن میں رکھتے ہوئے مولانا کی گفتگو کا یہ انداز اور یہ رخ بھی دیکھیے اور مومنانہ فراست و جرأت کو محسوس کیجئے:
’’یہاں آپ کتنی کتنی دشواریوں، نگرانیوں، بدگمانیوں، خوردی گیریوں اور کسی دوسرے فرقہ یا اکثریت کے منافرت و مخالفت سے محفوظ ہیں، حدیث میں نسوانی فطرت کی یہ کمزوری بیان کی گئی ہے، اس سے آپ کو دور رہنا چاہیے، حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت کی فطری کمزوری یہ ہے کہ عمر بھر شوہر اس پر احسان کرے پھر کسی وقت اس کی کسی خواہش یا فرمائش کی تعمیل میں تھوڑی سے کمی رہ جائے تو کہے کہ ہم نے تو اس گھر میں آکر کبھی آرام کا منہ نہیں دیکھا، ہم نے اس گھر میں کبھی سکھ نہیں پایا، ھل من مزید کا نعرہ تو خیر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن ھل من جدید کا نعرہ خطرناک ہے، جو بہت سے مسلم معاشروں اور آزاد مسلم حکومتوں کا شعار بن گیا ہے، پھر میں نے بتایا کہ کتنے مسلم و عرب ممالک میں اسلام اور دیندار، اسلامی قوانین کے نفاذ کے مطالبہ اور اسلامی تحریکوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جارہا ہے، آپ کا طریقہ فکر اور طرز عمل حقیقت پسندانہ، ایجابی و تعمیری ہونا چاہیے، اپنے ملک کے حالات کا دوسرے ملکوں کے حالات سے تقابل کرنا چاہیے، پھر جو کچھ حاصل ہو، اس پر ثبات و دوام اور اس کی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی مزید توفیق عطا فرمائے، جلد ہر چیز کا جواب مایوسی و محاذ آرائی سے نہیں دینا چاہیے، ذمہ دارانِ حکومت کے خلاف پہلے ہی لمحہ پر صف آرائی کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لینا اور ان کو اس مسئلہ میں مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص۱۷۶)

احقاق حق اور ابطال باطل
ایران میں انقلاب کے بعد مولانا نے جہاں نقد کیا اور ’’دو متضاد تصویریں‘‘ تصنیف کی اور ہندوستان جیسے ملک میں ملت کی متنوع ذمہ داریوں کا بوجھ کاندھوں پر ہونے کا باوجود جس طرح احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا وہ چشم کشا اور رہنما ہے، اسی سلسلہ کا ایک اقتباس پیش ہے:
’’………لیکن یہ دیکھ کر صدمہ بھی ہوا اور خیرت بھی کہ مسلمانوں کے ایک حلقہ میں ان سے ایسی عقیدت و محبت کا اظہار کیا جارہا ہے، جو اس عصبیت کی حد تک پہنچ گئی ہے، جو تنقید کا ایک لفظ سننے کی رودار نہیں ہوتی، مدح و ذم اور تاریخ و تنقید کا معیار کتاب و سنت، اسوۂ سلف اور عقائد و مسلک کی صحت نہیں، بلکہ اسلام کے نام مطلق حکومت کے قیام کا نعرہ، طاقت کا حصول، کسی مغربی طاقت کو للکار دینا، اور اس کے لیء (خواہ عارضی و ظاہری طور پر) مشکلات پیدا کرنا، اس کو محبوب اور مثالی قائد بنالینے کے لئے کافی ہے، آیت اللہ خمینی کی اس کامیابی سے (جس کی مدت عمر معلوم نہیں) اور اس انقلاب سے جو ایک مخصوص شکل میں ایران کے معاشرے میں رونما ہوا، ایرانی نوجوانوں کے جذبہ قربانی اور اس کے ستاھ متعدد مسلم ممالک کی دینی و اخلاقی کمزوریوں و خامیوں اور وہان کی ناپسندیدہ صورت حال سے برصغیر کے مسلمان نوجوان کے اس حلقہ میں جو موجودہ حالات سے بے زار تھا، اور جو ہراس حوصلہ مندی اور مہم جوئی سے مسحور ہوتا ہے جس میں اسلامی حکومت کا نام شامل ہوجائے، خمینی صاحب اس طرح بلکہ اس سے زیادہ مقبول ہو رہے ہیں، جیسے کسی زمانے میں کمال اتاترک اور عرب قوم پرستوں کے حلقہ میں جمال عبدالناصر تھے،۔۔۔۔۔‘‘
تاریخ کی شہادت اور انسانی نفسیات کا بار بار تجربہ ہے کہ جب بھی بڑے سے بڑے فساد عقیدہ، ضلالت اور کج روی کے ساتھ حوصلہ مندی، مہم جوئی اور تقشّف و جفاکشی کے مظاہر جمع ہوجاتے ہیں تو اس تحریک و دعوت میں ایسی دل کشی اور ساحری پیدا ہوجاتی ہے کہ اچھے اچھے عاقل و ذکی، دین پسند اور صاحب مطالعہ و نظر اشخاص کو اس کے اثر سے محفوظ رکھنا اور اس کی ثناخوانی اور مداحی سے روکنا مشکل ہوجاتا ہے، قرن اول کے خوارج کی تحریک، چھٹی ساتویں صدی میں باطنیوں کی تحریک، اور حسن بن صباح اور قلعۃ الموت کے فدائیوں کے کارنامے اور خود ہندوستان کی بعض نیم عسکری تحریکوں اور تنظیموں کے بارہ میں حوصلہ مند نوجوانوں اور اقتدار و سیاسی طاقت کی شمع کے پروانوں کی والہانہ و خود فراموشانہ کیفیات (جن کو زیادہ زمانہ نہیں گذرا) اس کی گواہ ہیں، اور یہی مرحلہ حق و ہدایت کو معیار سمجھنے والوں اور عقیدہ صحیحہ اور منصوصات قرآنی کے بارہ میں حمیت و غیرت رکھنے والوں کے لئے امتحان کا موقعہ ہوتا ہے، اور ان کو اس اعلان حق کی دعوت دیتا ہے جو سحر انگریزی کی اس فضا میں ’’کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ کا ثواب و مقام دلانے کا ضامن ہوتی ہے‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص۲۵۵۔۲۵۶)

تفاخر بالاسلاف میں غلو درست نہیں
یہ گفتگو پاکستان میں ہوئی لیکن جو ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے وہ بہر حال صفائی کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور پوری جرأت و صراحت کے ساتھ ان نقائص کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو آج کل تقریبا ہر ملک کے علماء کی اکثریت میں عام ہوگئے ہیں، جس کے سبب حالات کی تبدیلی ایک خواب معلوم ہوتی ہے، جہاں اور نقائص نہیں وہاں اسلاف کے نام پر بہر حال روایت پرستی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ سیرت کی روشنی میں کوئی مکمل اسلامی نظام نظر نہیں آتا، جو کچھ اسلامیت نظر آتی ہے، اس کو سیرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بس پیوندگان ہی کہا جاسکتا ہے:
’’ان میں سے ایک اعتقادی اور سیاسی انتشار ہے، دوسرا علماء کے عوام کے ساتھ رابطہ کی کمی، تیسرا علماء میں عام طور پر ہمارے اسلاف کی طرح زہد کا رجحان، اس توکل اور استغناء اور زندگی کی سادگی اور ایثار کی کمی ہے جس میں اسی ملک کی تخصیص نہیں، دوسرے اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، اس سلسلہ میں قریبی اسلاف کرام کی کچھ مثالیں بھی دی گئیں۔
چوتھا تہذیبی و لسانی تعصب اس ملک کے لئے سخت خطرناک ہے، اور ہمارے علماء کو اس کو ختم کرنے کے لئے پوری جد و جہد کرنی چاہیے، پھر میں نے تفاخر بالانساب کی طرح تفاخر بالاسلاف میں غلو و مبالغہ پر تنقید کی، اور کہا کہ ہر وقت اسی کی رٹ لگائے جانا، اور ہر وقت اسی کا وظیفہ پڑھنا کچھ مفید نہیں کہ ہمارے اکابر ایسے تھے، ہمارے اسلاف ایسے تھے، کوئی ملت اور کوئی دعوت تاریخ سے نہیں چلتی، تحریک سے چلتی ہے۔‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص۷۳)

مدارس اسلامیہ کا نصب العین
مدارس کا نصب العین تحریک ہونا چاہیے نہ کہ تاریخ کا بیان اور اس پر فخر اور آج کے دور میں جمود بلکہ تعطل پر بھی صبر و رضا بتانے والے بتاتے ہیں کہ اب تو بعض ارباب مدارس اس پر بھی راضی ہیں کہ اگر ایک آدھ افراد بھی پیدا ہوجائیں تو کافی ہے کہ اسی سے مدرسے کے وجود کو کار آمد سمجھنا چاہیے، مولانا اس روش کے خلاف تھے مدرسی نظام کی مروجہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا کے یہ الفاظ پڑھیے:
’’میں نے صفائی سے کہا کہ مدرسے اور دینی دعوتیں تاریخ سے نہیں چلتیں، تحریک سے چلتی ہیں۔ ہر وقت اسلاف و اکابر کا نام لینا اور ان پر فخر کرنا اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نعرہ لگانا، سننے والوں کو بھی ملول و متوحش کردیتا ہے‘‘ (کاروان زندگی ج۳ ص۱۷۷)

صرف نصابی کتابیں سمجھنا کافی نہیں
مدارس کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ایک آدھ طلبہ کے با مقصد ہونے پر قناعت کرلی گئی ہے، تبلیغی و دعوتی اور تصنیفی و تحقیقی میدان میں پستی کے ساتھ تحریکی اور قائدانہ کردار میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ مخفی نہیں، ضرورت ہے کہ کام اور پیغام کو یاد رکھا جائے اور تجزیہ کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے:
’’مدارس دینیہ کا کام صرف اتنا ہی نہیں کہ نصابی کتابیں سمجھ لی جائیں اور مسئلے مسائل بتادئے جائیں، ہم ان کی ناقدری نہیں کرتے، اس نظام تعلیم کا ہم احترام کرتے ہیں، اور اس کے داعی اور ذمہ دار ہیں، لیکن صرف اتنا کافی نہیں، موجودہ فتنوں کو سمجھنا ان سے اچھی طرح باخبر ہونا اور ان کا مؤثر و طاقت ور زبان اور دلکش اسلوب میں مقابلہ کرنا وقت کا بنیادی تقاضہ ہے، ہمارے طلبہ و اساتذہ انگریزی اور کسی غیر ملکی زبان سے بھی واقف ہوں اور ان کے مآخذ سے فائدہ اٹھا سکیں اور ایسا لٹریچر تیار کرین جو جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو متاثر کرسکے، ہمارے اساتذہ و طلباء کا مطالعہ وسیع، متنوع اور ایپٹوڈیٹ ہو، ندوۃ العلماء نے عرب قوم پرستی اور علمانیت (سیکولرازم) کے خلاف جو زبردست محاذ قائم کیا تھا اور اس کے فرزندوں نے جس طرح پوری تیاری اور قوت کے ساتھ طاقتور اور مؤثر اسلوب میں اس فتنہ پر ضرب کاری لگائی تھی، اس کا عام طور پر عالم عربی میں اعتراف کیا گیا‘‘۔ (کاروان زندگیج۶ ص۲۶۵)

معیار مدح و ذم
جس وقت حضرت مولانا رحمہ اللہ کو معیار مدح و ذم نے چونکایا تب تک حالت یہاں تک نہ پہونچی تھی جو آج کی منظرنامہ پر ظاہر ہے، اب تو مذہبی حلقوں میں بھی وہی معیار تعریف و تنقید ہے جو کبھی مادی و سیاسی حلقہ میں ہوا کرتا تھا، محض شخصیت پرستی، خاندان پرستی، اقربا پروری اور مادی معیاری مدح و ذم کا معیار بن چکا ہے، اسلام کی منفعت اور اسلام کا نقصان ملی نقصان اور ملی مفاد کس کے پیش نظر؟ بس ہم اور ہماری بات اور ہمارے فائدہ کا زمانہ ہے، جس کو ایک ادنی حس رکھنے والا بھی محسوس کررہا ہے، جس کے باعث نقصانات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور لوگ اب تو صحیح و غلط کی تمیز بھی اس معیار کے سبب نہیں کرپا رہے ہیں، مولانا نے یہ اہم سطریں ایک انتہائی حساس مسئلہ میں ملت کے قائدین کے کردار کو پیش نظر رکھ کر لکھیں:
’’مصنف کے دردمند دل کو دیکھ کر اور بھی زیادہ صدمہ ہوا کہ بہت سے خالص دینی حلقوں میں بھی مدح و ذم اور تعریف و تنقید کا معیار کسی شخص کی اسلامیت اور غیر اسلامیت اور اسلام و مسلمانوں کا سود و زیان نہیں رہا، بلکہ خالص دنیاوی کرنامے، مادی فتوحات (اور افسوس و حیرت ہے کہ یہاں اس کا بھی وجود نہیں) سیاسی پروپیگنڈہ، اخبار نویسیوں اور اہل سیاست کا خراج تحسین، ماتمی جلوس اور جنازہ کی دھوم دھام اور اس طرح کی سطحی اور ظاہری شکلیں رہ گئی ہیں، اس سے مصنف کو یہ انکشاف آمیز احساس ہوا کہ دینی حمیت اور اسلامی غیرت میں جو اس طبقہ کا سب سے بڑا سرمایہ افتخار تھا تیزی کے ساتھ انحطاط آرہا ہے، اور یہ وہ نقصان ہے، جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہیں، یہی احساسات و مشاہدات ہیں جنھوں نے ان مضامین و تقاریر کو ایک مجموعے میں شائع کرنے کی تحریک کی جن کے متعلق خود مصنف کو احساس ہے کہ اس کا اس وقت شائع ہونا بہت سی طبیعتوں پر گراں گذرے گا، لیکن مصنف اس کی ضرورت سمجھتا ہے، اور اس کو دین کی ایک اہم خدمت اور اپنی سعادت یقین کرتا ہے۔

نوارا تلخ تر می زن چوں ذوق نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چوں محمل را گراں بینی‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص۲۳۔۲۴)

مدارس اور احساس کمتری
مولانا رحمہ اللہ نے سنہ ۱۹۵۴ء میں تقریر کرتے ہوئے مدارس کی افسردہ فضا کا شکوہ کیا ہے، اور پوری جرأت کے ساتھ انحطاط کا شکوہ کیا ہے، ان سے بھی پہلے اقبال یہ شکوہ کرچکے ہیں، مولانا رحمہ اللہ نے بھی اس پر حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے، لیکن افسوس اس پر ہے کہ آج صورت حال اور زیادہ خطرناک ہوچکی ہے، شاید ہم ان نقائص کا پتہ لگانے کے لئے تیار نہیں جو اس احساس کہتری کا باعث ہیں جس کا تذکرہ قدرے تفصیل سے مولانا رحمہ اللہ نے کیا ہے، یا اگر نقائص معلوم ہیں تو ان کی پرواہ نہیں پا پھر ان کو دور کرنے کی جرأت نہیں، بہرحال اس پر غور کرنے اور اس کے ازالہ کی از حد ضرورت ہے تا کہ کسی حد تک صحیح لیکن کچھ تو اس افسردہ فضا میں زندگی کی رمق پیدا ہو اور یہ اپنی افادیت ثابت کرسکیں اور پھر سے دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دے سکیں، زندگی کے ہر شعبہ میں زمانہ کی پیروی کے بجائے زمانہ ان کا غلام ہو:
’’مدارس جو کبھی طاقت اور زندگی کا مرکز تھے، اور جہاں انقلاب آفریں شخصیتیں پیدا ہوتی تھیں، وہ مایوسی، افسردگی، اور احساس کہتری کا شکار ہیں، آج مدارس کی تعداد میں، درس کی کتابوں کی تعداد میں، کتب خانے کے مندرجات کی تعداد میں، وظائف کی تعداد میں، بہت بڑا اضافہ ہے، مگر زندگی کی نبض سست اور قلب کی دھڑکن کمزور ہے، کوئی حساس دردمند کبھی کبھی اس طرف نکل جاتا ہے تو اس کا دم گھٹنے لگتا ہے، اور وہ اس بحر کاہل کو دیکھ کر کہنے لگتا ہے۔

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ، کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

لیکن اب مدارس کے حق میں کسی طوفان سے آشنا ہونے کی دعا کرتے ہوئے بھی دل ڈرتا ہے، آج مدارس میں طوفان کے آثار نظر آتے ہیں، لیکن یہ باہر کے طوفان کے تھپیڑے اور موجیں ہیں، جو مدارس کے در و دیوار سے ٹکرا رہی ہیں، یہ باہر کے ہنگاموں اور سطحی اور عوامی تحریکات کی صدائے بازگشت ہے، جس میں ہمارے مدارس کے طلبہ کا مقام محض نقال یا آلہ صوت کا ہے‘‘ْ۔ (پاجا سراغ زندگی ص۹۶۔۹۷)

ایک تاریخی حقیقت
آج اکثر تحریکوں اور اداروں میں جمود پایا جاتا ہے، بے شمار ٹھوس بنیادوں پر اٹھنے والی تحریکیں اور قائم ہونے والے ادارے ایسا لگتا ہے کہ کام کرتے کرتے تھک چکے ہیں، اور اب صرف عظمت رفتہ اور ایام گزشتہ کی تاریخ کے سنہرے ابواب پر فخر کرنا ہی ان کا مقدر بن گیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس رویہ سے تحریک داراں کا باقی رہنا مشکل ہے، حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اس رویہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے صریح الفاظ میں قرآن کی روشنی میں فرمایا تھا:
’’دنیا میں کوئی ادارہ محض اس وجہ سے نہیں چل سکتا کہ یہ ادارہ آج سے سو برس دو برس پہلے قائم ہوا، اور اس نے کچھ مفید خدمت انجام دی تھی، محض تاریخ کے بل پر، محض تاریخ کے سہارے کوئی ادارہ، کوئی تحریک، کوئی فلسفہ، کوئی نظام نہ چلا ہے نہ چلے گا، اگر آپ کسی ادارہ کو قائم رکھنے کے لئے اور اس کے لئے کچھ مراعات حاصل کرنے کے لئے اس کی تاریخ پیش کرتے ہیں کہ اس نے دور ماضی میں یہ خدمات انجام دیں، تو لوگ اس کو بالکل نہیں سنیں گے، اور اگر کوئی آج خاموشی ہوجائے گا، تو کل اس کے اندر سے نہایت پر زور اور پر جوش تقاضا پیدا ہوگا کہ اس کو ختم کردینا چاہیے‘‘۔ (پا جا سراغ زندگی، ص۱۵۹)

بقا کے لیے افادیت کا ثبوت لازمی ہے
آج بر صغیر میں دن بدن مدارس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر ہی نہیں اپنے بھی اور مخلصین بھی مدارس کے قیام اور ان کے کام پر سوال کھڑے کر رہے ہیں، کہیں نہ کہیں نقص ضرور ہے، اور سچ یہ ہے کہ مدارس کی جو نافعیت و افادیت نظر آنی چاہیے وہ نہیں نظر آتی، جس کے سبب لوگوں کو اس کا موقع مل رہا ہے کہ وہ مدارس کے قیام و کام پر سوالیہ نشان لگائیں۔
وہ مقتضیات زمانہ سے ناواقف، ضروریات زمانہ کو پورا کرنے سے قاصر اور اپنے مقاصد سے دور ہوتے جارہے ہیں، قانون قدرت میں بھی زندگی کا استحقاق صرف نفع پہونچانے والوں کو ہی ہے، مولانا رحمہ اللہ نے بڑی جرات و صراحت کے ساتھ فرمایا:
’’اگر ہمارے مدارس یہ چاہتے ہیں کہ وہ باقی رہیں، اور وہ اس زندگی میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں، زندگی کا استحقاق ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے اندر نافعیت پیدا کرنی چاہیے، یعنی ان کو اپنے جوہر کا ثبوت دینا چاہئے، ان کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ زندگی کی کوئی ضرورت ہے جو ان کے بغیر پوری نہیں ہوتی‘‘ (پا جا سراغ زندگی، ص ۱۶۱)

بقلم محمد طارق ایوبی
ماہنامہ الشریعہ (جون ۲۰۱۵)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں