بات کہنے کا سلیقہ ہونا چاہیے

بات کہنے کا سلیقہ ہونا چاہیے

مولانا شمس الحق صاحب نے سوال کیا: آپ نے ’’من العالم الی جزیرۃ العرب‘‘ یا من جزیرۃ العرب الی العالم میں جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بالکل اچھوتا ہے۔ یہ خیال آپ کو کیسے پیدا ہوا؟

فرمایا: اس کا ایک لطیفہ پیش آیا، پھر وہ ساری تفصیل سنائی جو پہلی مرتبہ حجاز جانے کے بعد پیش آئی تھی: وہاں کے علماء کا آپ کا امتحان لینا، پھر متاثر ہونا، ریڈیو پر تقریر کرنے کے لیے کہنا، پھر طائف کے سفر کا انتظام کرنا و غیرہ، یہ ساری تفصیلات گزر چکی ہیں۔
پھر فرمایا: بات کہنے کا ڈھنگ ہوتا ہے کیسی ہی اچھی بات ہو لیکن ڈھنگ سے نہ کہی جائے تو فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کا الٹا اثر پڑتا ہے، یہ بہت ضروری چیز ہے، خصوصاً داعی کے لیے تو اس سے چارہ نہیں۔

بھائی صاحب کی تعلیم و تربیت اور مختلف زبانوں کی تعلیم دلانا
پھر بھائی صاحب کی تربیت کا ذکر فرمایا: ایسا طریقہ انھوں نے اختیار کیا جس سے بہتر ہو نہیں سکتا، عربی خود عرب سے پڑھوائی، اور وہ بھی ایسے استاد سے، خلیل عرب جن سے زیادہ ماہر اور مشاق استاد نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالم عربی میں ملنا مشکل تھا۔
ہمارے خاندان کا امتیازی وصف فارسی دانی تھا، فارسی کی منتہی کتابیں تک پڑھائیں جاتی تھیں، بھائی صاحب کے نام والد صاحب کے کئی خطوط بھی فارسی میں ہیں، لیکن بھائی صاحب نے محسوس کیا کہ فارسی کا اب وہ دور نہیں رہے گا، اس لیے انھوں نے ایک حد تک پہنچ کر رکوادیا، اتنا پڑھوایا جس سے ہم تاریخ کی کتابوں اور بزرگوں کے مواعظ و ملفوظات کو سمجھ سکیں۔

علماء کے لئے انگریزی سیکھنے کا مقصد
پھر اس کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی شروع کرائی، اس کا بڑا فائدہ ہوا، ہم نے اس سے بڑا کام لیا، اس سے بھرم رہتا ہے، یونی ورسٹی و غیرہ میں جانا ہوتا ہے اور پروفیسر حضرات سے باتیں ہوتی ہیں، جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں انگریزی آتی ہے تو وہ دوسری ہی نظر سے دیکھتے ہیں، انگریزی پڑھو، معاش کے لیے نہیں، بلکہ اس سے دعوت کے کام میں مدد لے سکو، دین کی خدمت کر سکو، مغربی لوگ اسلام کے خلاف جو زہر افشانی کرتے رہتے ہیں انھی کی کتابوں سے اس کو سمجھ سکو اور پھر اس کا جواب دے سکو!

مجالس حسنہ، مجلس (۳۲)
۶؍۶؍۱۴۱۷ھ مطابق ۲۲؍۱۰؍۱۹۹۶ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں