چھوٹی خبر، بڑا پیغام

چھوٹی خبر، بڑا پیغام

خبر تو بہت چھوٹی سی ہے، اسے نظر انداز کرنابھی ممکن تھا، مگر جس بڑے طوفان کی پیش گوئی لیے یہ خبر سامنے آئی ہے اس کو چاہ کر بھی جھٹلایا یا اپنے ذہن کے کوڑے دان میں نہیں پھینکا جاسکتا۔ کراچی کے علاقے پٹیل پاڑہ کے ایک غیر معروف اسکول میں صبح اسمبلی کے دوران ہونے والے اس واقعے نے معاشرے کے سنجیدہ طبقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ستمبر جسے ستمگر بھی کہا جاتا ہے، اس کا آغاز ہی اندوہناک خبر سے ہوا ہے۔ صبح 8بجے کے قریب جب بچے، والدین اور اساتذہ یا تو اسکول کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں یا اسکول کے افتتاحی سیشن میں مصروف ہوتے ہیں، ایسے میں گلشن فاطمہ سیکنڈری اسکول میں ایک کے بعد دوسری گولی چلنے کی آواز آئی، اس کے ساتھ ہی اسکول میں بھگدڑ مچ گئی، چھوٹے بچوں نے رونا اور چیخنا چلانا شروع کردیا، اساتذہ یہ گمان کرنے لگے کہ شاید سانحہ پشاور کا ریہرسل ہورہا ہے۔ اسکول انتظامیہ نے پولیس اور والدین کو فون کیا جبکہ بچوں کو بہ حفاظت ایک جگہ منتقل کیا گیا۔ مزید فائرنگ کی آواز نہ آنے پر انتظامیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ پولیس آنے پر طلبہ کو چھٹی کرادی گئی جبکہ تمام اسکول کے کمروں کا سرچ آپریشن شروع ہوا۔ اتنے میں ایک کلاس سے خون بہتا ہوا نظر آیا۔ آگے جاکر دیکھا گیا تو اسی اسکول کا میٹرک کا طالب علم نوروز اور طالبہ فاطمہ کی لاشیں خون میں لت تھیں۔
دونوں کے بستوں پر بھی خون کی لالی بکھری ہوئی تھی۔ ایسی عمر میں جب زندگی کی رعنائیوں کا پتا چلنے لگتا ہے، وہ اپنی زندگی ختم کرچلے تھے۔ ان غنچوں پر حسرت کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے جو بن کھلے ہی مرجھاجانے کو ترجیح دینے لگیں۔

اس واقعے پر خودکشی کرنے والے لڑکے اور لڑکی کو جتنا مطعون کیا جائے، کم ہے کیونکہ انہوں نے دنیا کی مشکلات سے گبھراکر اپنے لیے ہمیشہ کی اذیتوں کی بنیاد رکھ دی۔ انہوں نے اپنی دانست میں ایک ساتھ نہ جی سکنے پر مرنے کا فیصلہ اپنے پیچھے اپنے بڑوں کو پچھتاوے کی سزا دینے کے لیے ہی کیا ہوگالیکن کاش انہیں کوئی بتاتا کہ وہ دکھ ، وہ غم اور وہ ندامت جو وہ دونوں اپنے والدین کو دے کر گئے ہیں، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم اور پھر مندمل ہوجائے گی کیونکہ اللہ نے دنیا میں کوئی زخم ایسا نہیں بنایاجسے وقت کا مرہم اپنی آغوش میں نہ لے لیتا ہو، لیکن جو تکلیف انہوں نے اپنی جان پر کی ہے اور جو مصیبتوں کا پہاڑ انہوں نے اپنی ذات پر توڑا ہے، اس کے لیے حضرت نوح جتنی عمر بھی ناکافی ہوگی۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ، مگر کیا معاملہ اتنا ہی چھوٹا ہے جسے صرف لڑکا لڑکی کے جذباتی فیصلے کا نتیجہ قرار دیا اور کمبل لپیٹ کو سولیا جائے؟ویسے ہمارا عمومی مزاج یہی بن گیا ہے جب کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ ہوجاتا ہے، ہم سب سے پہلے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہیں اور پھر انگلیاں اٹھانے کے لیے لوگ ڈھونڈتے ہیں، ہم نے کبھی ان انگلیوں کو محسوس ہی نہیں کیا جن کا رخ ایسے وقت میں ہماری طرف ہوتا ہے۔ اسکول واقعہ صرف لڑکا اور لڑکی کی غلط سوچ کی کھونٹی سے نہیںبندھا ، اس میں یقین کیجیے، اس کے ذمہ داران میں ماں باپ سے لے کر ہم سب آتے ہیں۔ سیانے کہا کرتے تھے اولاد جوان ہونے لگے تو والدین کو دو نہیں چار آنکھوں سے انہیں دیکھنا چاہیے،اس معاملے میں دقیانوسی ہونے کے طعنے سنے اور اس کا اثر قبول کرلیا جائے تو پھر پرندے اڑ جاتے اور لوٹ کر گھونسلوں کو واپس بھی نہ آپاتے۔ والدین کی بے خبری کچی عمروں میں بچوں کو پکی عمروں کے سہانے خواب دکھا کر پیاری حقیقتوں سے محروم کردیا کرتی ہے ۔ ہم سب کو بہ حیثیت والدین ہر بات کو نظر انداز کرنے کا انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔ ماں باپ کے دل میں تو ریڈار ہونا چاہیے جو بیٹے یا بیٹی کی عادات و اطوار میں ذرا سی بھی تبدیلی کو پہچان سکیں، لیکن یاد رکھیے، غلط فیصلے کبھی سختیوں سے تبدیل نہیں ہواکرتے، بنجر کھیتیوں پر تو آہستہ آہستہ پیار سے، محبت سے، توجہ سے محنت کی جاتی ہے تب کہیں جاکر فصل کے امکان نظر آتے ہیں۔ ہمارے موجودہ دور کے والدین کا المیہ یہ ہے کہ وہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چُکنے اور کھیتوں سے چڑیوں کے دانہ چُگنے کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں اور جب ہاتھ میں کٹی ڈور رہ جاتی ہے تو اس پتنگ پر برستے ہیں جو کسی اور کی چھت پر جااترتی ہے۔

ہم اپنے بچوں کو ان کی شرارتوں سے بچنے کے لیے ٹی وی، انٹرنیٹ کے حوالے کردیتے ہیں،کارٹونوں اور گیموں سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور اختتام نوروز اور فاطمہ سے ملتی جلتی کہانیوں سے ہوتا ہے۔ بے شک یہ میڈیا کا دور ہے، مگر اس کے لیے اپنی نسلوں کو بے راہ روی کے حوالے کرنا اولاد سے کون سی محبت ہے؟ آپ صرف اپنی سہولت کے لیے ان کو سلو پوائزن دے رہے ہیں، کیونکہ آپ کامیڈیا آپ کے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ وہ معاشرے کے اس رجحان کو تبدیل کرنا چاہتا ہے جس میں ماں، بہن ، بیٹی سب کی ماں، بہن، بیٹی ہوتی ہے۔ جس میں عورت کی عزت ، اس کے تقدس کی حفاظت کو جان سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے والدین کو یہ کوشش کر نی چاہیے کہ اپنے تھوڑے سے آرام کے لیے اپنی نسلوں کے مستقبل کو بے آرام نہ کریں، اپنی اولاد کو ٹی وی، انٹرنیٹ کے سپرد کرنے کی بجائے اپنا کچھ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزارا کریں۔

اصل میں بچوں کے لیے ماں کی گود یعنی گھریلو تربیت اور اس کے بعد باہر کی دنیا کا ماحول اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمارا معاشرہ اس وقت دونوں اعتبار سے پستی کا شکار ہے۔ نہ ہم گھر پر توجہ دے پارہے ہیں اور نہ ہمارا معاشرہ وہ ماحول بناپارہا ہے جس میں نوروز اور فاطمہ جیسے جوان لوگ یہ جانے بغیر محبت ہوتی کیا ہے، اپنے آپ کو اس محبت پر نچھاور نہ کریں جس کا آغاز ایک ایس ایم ایس اور اختتام پستول کی گولی ہے۔ کم از کم اس واقعے کے بعد تو خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے۔

تحریر محمد جمیل اعجاز
بشکریہ ضرب مومن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں