اولاد کی دینی و دنیاوی تربیت کیسے کریں؟

اولاد کی دینی و دنیاوی تربیت کیسے کریں؟

تربیت اولاد میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ شدید غصے کی حالت میں اگر بچے کو سزا دینے کا خیال بھی آئے تو اس سے دور ہوجائیے آپ کو چاہیے کہ صبر سے کام لیں۔ سخت غصے کی حالت میں آپ بچے کو ضرورت سے زیادہ پیٹ سکتے ہیں جو بعد میں آپ کیلئے ہی تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔
والدین یہ تو سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد کا کیا ہو گا؟ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اولاد کے مرنے کے بعد اولاد کا کیا ہوگا؟ حضور نبی کریم ﷺ جو کسی انسان کے نہیں خود اللہ رب العزت کے تربیت یافتہ تھے، اپنے اور تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت تیار فرماگئے ہیں جو آج بھی ستاروں کی جبیں ہوکر چمک رہے ہیں، جن کا نقش پا آج بھی کامیابی و کامرانی کی سند رکھتا ہے۔ آئیے ان تابندوں ستاروں سے روشنی مستعار لے کر اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنائیں۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر ان سے پوچھئے جن کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے۔ کشادہ اور وسیع صحن، نوکروں اور خدام کی ایک فوج ظفر موج، دنیا کی ہر آسائش میسر ہے، مگر پھر بھی گھر ویران سا لگتا ہے، کیا وجہ ہے؟ کیونکہ اس گھر میں بچے کی صورت میں کھلنے والا پھول نہیں ہے۔ اولاد کی صحیح تربیت والدین کا حق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولاد کی تربیت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اولاد کی نیک تربیت کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں، تربیت یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی کا سبب بنتی ہے، ان کے بڑھاپے کا سہارا اور مرنے کے بعد صدقہ جاریہ کی صورت بنتی ہے اور اس کے برعکس اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ ہو تو وہ وبال جان بن جاتی ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اخلاق حسنہ سکھائیں، نیک تعلیم دیں، اللہ تعالیٰ سے ان کا رابطہ قوی رکھیں۔
والدین کو بچپن ہی سے بچے کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ بچپن کا زمانہ زمین کی مانند ہوتا ہے جس میں انسان جو اچھے اخلاق اور اعلیٰ صفات یا گندی عادات اور غلط روایات کا بیج کاشت کرتا ہے مستقبل میں اسی کا پھل ملتا ہے۔ اسی زمانہ میں انسانی عقل نشوونما پاتی ہے۔ اس لئے بچپن سے ہی تربیت اولاد پر توجہ دینی چاہیے۔
بچپن کی اسی اہمیت کے پیش نظر اسلاف کا مقولہ ہے کہ ’’ جو شخص اپنے بچوں کو ادب سکھا دیتا ہے وہ اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کردیتا ہے‘‘۔ جب بچہ ادب سیکھ جاتا ہے تو مال، مرتبہ، عزت اور شہرت سب کچھ حاصل کرلیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوںنے فرمایا ’’ اپنے بچوں کو ادب سکھائو پھر تعلیم دو‘‘۔ آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ اپنی اولاد کو راضی کرنے کی خاطر ہم اپنے اللہ کو ناراض کیے ہوئے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دلوارہے ہیں جس کی تہذیب تویہ ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو اب وہ گھر رکھنے کے لائق نہیں، ان کو نرسنگ ہوم (Nursing home) میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اولاد کو دین کی طرف لانے کی فکر اتنی ہی لازمی ہے، جتنی اپنی اصلاح کی فکر لازم۔ اولاد کو صرف زبانی سمجھا دینا ہی کافی نہیں۔ جب تک اس کی فکر اس کی تڑپ اسی طرح نہ ہو، جس طرح اگر کوئی دھکتی ہوئی آگ ہو اور بچہ اس کی طرف بڑھ رہا ہو اور آپ اس کو لیکر جب تک اٹھا نہیں لیں گے اس وقت تک آپ کو چین نہیں آئے گا۔ اسی طرح کی تڑپ یہاں ہونا بھی ضروری ہے۔
سات سال سے پہلے بچوں کو کسی مشقت بھرے کام میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے کہ بعض لوگ سات سال سے پہلے ہی روزہ رکھانے کی فکر شروع کردیتے ہیں۔ایک بزرگ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ تو سات سال سے پہلے نماز کا حکم لاگو نہیں کرتا مگر تم سات سال سے پہلے اس کو روزہ رکھوانے کی فکر کردیتے ہو، ایسا ٹھیک نہیں۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بچہ ابھی چلنا بھی نہیں سیکھتا تو اس کے ہاتھ میں قاعدے پکڑادئیے جاتے ہیں جبکہ کم از کم بچہ تین ساڑھے تین سال کا ہو تو اس کو سکول میں داخل کروانا چاہیے۔بچے کو کسی ایسے سکول میں داخل کروانا چاہیے جہاں دینی و دنیاوی تعلیم دونوں دی جاتی ہوں۔ایک اور بات جو بچوں کی تربیت میں لازمی ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا رویہ اختیار کریں۔ ہر وقت ان پر بوجھ نہ ڈالیں۔ اس سے بچہ نفسیاتی دبائو کا شکار ہوجاتا ہے۔
تربیت اولاد میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ بچوں کے ساتھ کھیلیں اور ہنسی مذاق کریں۔ کھیل کود بچے کی زندگی میں بنیادی اور حیات بخش اثر رکھتا ہے۔ عقلی اور اجتماعی نشوونما کی رو سے اگر دیکھا جائے تو کھیل کود کے درمیان وہ مختلف مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتا ہے اور اپنی کوشش اور جدوجہد کے ذریعے ان کا حل کرتا ہے۔ کھیل کود کے درمیان بچہ تجربات حاصل کرتا ہے، سیکھتا ہے، دوسروں کا لحاظ رکھتا ہے اور مہارت حاصل کرتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ بچہ کھیل کود کے ذریعے دیکھنے، سننے، چلنے ، دوڑنے اور دوسروں سے میل جول وغیرہ کے طریقے سیکھتا ہے۔ تربیت اولاد میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ شدید غصے کی حالت میں اگر بچے کو سزا دینے کا خیال بھی آئے تو اس سے دور ہوجائیے آپ کو چاہیے کہ صبر سے کام لیں۔ سخت غصے کی حالت میں آپ بچے کو ضرورت سے زیادہ پیٹ سکتے ہیں جو بعد میں آپ کیلئے ہی تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں بہت ہوگا کہ خود کمرے سے باہر چلیں جائیں کہ اس سے کافی حد تک بچت ہوسکتی ہے۔ کسی محفل میں یا لوگوں میں بچے کو احمقانہ ناموں سے پکارنے اور سخت سست کہنے سے پرہیز کریں، اس سے اس کا اعتماد ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے۔ وہ لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے اور ان سے میل ملاپ ہٹا کر پیچھے ہٹنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی الگ دنیا بسا لیتا ہے۔ سست اور ڈھیلے بچے کا مذاق اڑانے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کیجئے۔
بچے بہت ہوشیار ہوتے ہیں، وہ آپ کی غلطیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ اپنے ساتھی کی برائیاں کرتے ہوئے بچے کو اعتماد میں لینے کی کوشش مت کریں۔ یہ کہنا کہ تمہاری ماں غلط ہے، وہ تمہیں کھانے کو نہیں پوچھتی تم میری پاس آجایا کرو میں تمہیں کھلونے لاکر دوں گا یہ کہنا کہ تمہارا باپ اچھا نہیں، وہ تمہیں مارتا پیٹتا ہے اس کے پاس نہ جایا کرو۔ بچوں سے اس قسم کے جملے کہنا بالکل غلط اور نامناسب ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچے کو تھوڑی سی ذمہ داری سونپے۔ اس کے سارے کام تقریباً خود نہ کیجئے ورنہ وہ کبھی کوئی بھی کام خود نہ کرسکیں گے۔ یہ والدین کا فرض ہے کہ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔ ایک ایسا بچہ جسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی پیدائش گھر میں غیر اہم تھی وہ آخری عمر میں شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنا غصہ معاشرے پر نکالتا ہے۔ اپنے بچوں کو دینی تعلیمات سے روشن کریں، اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے معاشرے کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں، اپنی اور اپنے بچوں کی آخرت سنواریں۔

احمد عبدالرحمن ٹوبہ ٹیک سنگھ
بشکریہ ماہنامہ عبقری ستمبر 2015ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں