لمحہ فکریہ؟ بملاحظۂ اہل مدارس!

لمحہ فکریہ؟ بملاحظۂ اہل مدارس!

ہر سو پھیلے ہوئے اضطراب انگیز حالات، معاشرے اور حکومتی اداروں کا بگاڑ، سیاست و معیشت کی زبوں حالی اور دینی و اخلاقی انحطاط جیسے عوامل جو اس وقت ملک و ملت کو در پیش ہیں، اس پریشان کن صورتحال میں اصلاح حال کے لئے نگاہیں مدارس کی طرف اٹھتی ہیں کہ یہ مدارس صرف تدریسی امور کی حد تک اپنی سرگرمیوں کو محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی جد و جہد کے دائرے کو وسعت دیں تا کہ معاشرے کے مختلف طبقات کو بھی ان کے ثمرات و برکات حاصل ہوں۔
دراصل مدارس کی مساعی جمیلہ کا بڑا مقصد جہاں دینی علوم و اقدار اور قرآن و سنت کی حفاظت و اشاعت ہے اور بحمداللہ معاشرے میں تعلیمات وحی کے تحفظ و فروغ کا عظیم کام انہی مدارس کی چہاردیواری میں ہورہا ہے، وہاں پیغمبرانہ اسلوب کے مطابق دین کی دعوت دینا، خیر پھیلانا اور شر کا راستہ روکنا حقیقی نصب العین ہے۔ قرآن کریم کی رو سے حصول علم کی کوششوں کی اولین غرض فہم دین اور تفقہ کی صلاحیت حاصل کرنا ہے اور اس صلاحیت کو عوام کی فکری اصلاح، عملی تربیت اور دینی آگاہی کا ذریعہ بنانا ہی اصل غرض و غایت ہے جیسا کہ ارشاد ہے: «فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ» التوبہ:۱۲۲
’’ایسا کیوں نہ ہو کہ ان (اہل ایمان) کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ نکلا کرے تا کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لئے محنت کریں اور تا کہ متنبہ کریں اپنی قوم کو جب ان کی طرف لوٹ کر آئیں تا کہ وہ (گناہوں سے) بچ کر رہیں‘‘
انگریزی استعمار کے دور میں متحدہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں علوم قرآن و سنت اور دینی اقدار کی حفاظت لے لئے جب مدارس کا آغاز ہوا تھا تو یہی مقصد نگاہوں کے سامنے تھا، اس دور کے مدارس اگر ایک جانب عمیق فکری و علمی بحث و نظر کے مراکز تھے تو دوسری طرف یہاں کے در و دیوار پر تزکیہ باطن اور تعمیر ذات کی کارگاہوں کا گمان ہوتا تھا، جب کوئی خوش نصیب ان مدارس میں نصاب کی تکمیل کر کے اپنے شہر و قصبے کا رخ کرتا تو اپنے خیرخواہانہ طرز عمل، حکیمانہ گفتگو، معاملہ فہمی اور ملنساری سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا تھا اور عوام اس کی بات میں وزن محسوس کرتے تھے۔
علمی و عملی کمالات کے حامل، ظاہری اور باطنی محاسن و مکارم سے آراستہ یہ شخصیات اپنی حکمت و بصیرت سے ہوا کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوجاتی تھیں، یہ رجال کار اپنے ماحول اور معاشرے میں بدن کو صالح خون فراہم کرنے والے قلب کی مثال بن جاتے تھے معروف کو فروغ دینا اور منکر کا راستہ روکنا ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی تھی کہ ہر میدان میں دین حنیف کی پاسداری و سربلندی کا متحرک و مضطرب جذبہ ان کو اپنی ذات سے بیگانہ رکھتا تھا چنانچہ مسلمان بھائیوں کے دین و ایمان کے تحفظ کی ہی فکر ان کی شبانہ روز جہد و عمل کا ہدف تھا۔
ملک و ملت کا موجودہ ماحول ایک لمحہ فکر یہ ہے جو اہل مدارس کو محاسبے کی دعوت دیتا ہے کہ ایک طرف اگر دیکھا جائے تو مدارس کی تعداد میں اضافہ بھی حیرت انگیز ہے اور نظم و نسق بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے لیکن جس معنویت اور مقصد کے لئے ان مدارس کی بنیاد پڑی تھی اس کی طرف توجہ کم ہوتی جارہی ہے خدا نخواستہ، ایسا نہ ہو کہ مدرسہ، درسگاہ، معلم، طالب علم اور کتاب کے الفاظ صرف پروفیشنل اصطلاحات کے طور پر زبانوں پر آتے ہوں۔ موجودہ علمی اور عملی انحطاط کی حالت سب کے سامنے ہے، اصحاب بصیرت کو اس کے اسباب کا جائزہ لے کر اصلاح حال کے لئے موثر قدم اٹھانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ملک اور بیرون ملک ہو سو ظلمتوں کا دور دورہ ہے اور دور دور تک افق پر روشنی کی کوئی لیکر دکھائی نہیں دیتی، عالمی سطح پر بھی امت مسلمہ کو ایک دفعہ پھر اجتماعی قتل و غارت اور خانہ جنگی کے تباہ کن حالات کا سامنا ہے، مشرق وسطی اور افریقہ کے مسلم علاقوں میں آتش نمرود کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور یہاں کے باشندے آگ اور خون کے کرنباک حالات سے دوچار ہیں۔
پاکستان بھی اپنے قیام سے لے کر آج تک موقع پرست، خود غرض بدعنوان اور بصیرت سے محروم نااہل حکمرانوں اور حکومتوں کی وجہ سے زخمی ہے، سیاسی نظام بھی ڈھیلا ڈھالا جو استحکام اور باشندگان ملک کے اعتماد سے محروم ہے، معیشت کی حالت بھی دگرگون ہے، شہروں میں بدامنی اور بدانتظامی کی وجہ سے بے چینی ہے، جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں ریاستی اداروں کو مسلح بغاوت کا سامنا ہے، تعلیمی اداروں میں علم و فن کی جگہ آوارگی، لسانی اور گروہی تعصبات، مرکز گریز رجحانات اور بے دینی جیسے زہرناک حالات فروغ پا رہے ہیں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا جو معاشرے پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، وہ ان تباہ کن حالات کے سامنے بند باندھنے کے بجائے اپنی کاروباری اور مادہ پرستانہ سوچ کی وجہ سے ان کو بڑھاوا دے رہا ہے، جبکہ یہی میڈیا ملک کے طول و عرض میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے میں بھی پیش پیش ہے۔ قومی دولت لوٹنے اور خیانت و بدعنوانی کے واقعات پہلے بھی منظر عام پر آتے تھے لیکن ان کا دائرہ زیادہ سے زیادہ ہزاروں اور لاکھوں کی حدود میں ہوتا تھا اور اب یہ مجرمانہ دائرہ کروڑوں اور اربوں تک پھیل گیا ہے۔ ملک کی دولت اور عوام کی امانت، پاکستان کا قومی خزانہ لوٹ مار شکار ہے۔
معیشت، تعلیم، دفتری نظم و نسق، امن و امان، معاشرتی اور دینی اقدار، عدل و انصاف اور صحت و علاج کے سرکاری ادارے، نیز قومی اور ملکی فلاح و بہبود کے لئے قائم مختلف وفاقی اور صوبائی انتظامی شعبہ جات، غرض ملک کی جغرافیائی حدود میں قائم کسی بھی بند و بست کو دیکھ کر نہ صرف یہ کہ اطمینان نہیں ہوتا بلکہ شدید صدمہ ہوتا ہے اور ملک کی سلامتی اور بقا سے متعلق طرح طرح کے وسوسے ایک محبّ وطن شہری کے اضطراب میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔
نہیں کہا جاسکتا پردہ غیب کیا لکھا ہے اور ان حالات کی اصلاح کیونکر ہوسکے گی جبکہ ملکی سرحدات کے باہر بھی دشمنوں کی کمی نہیں ہے کہ عالمی سطح پر اسلام کے دشمن پاکستان کے بھی دشمن ہیں یہ اس لئے کہ اس ملک کے خمیر میں اسلام شامل ہے اور کمزوریوں کے باوجود ابنائے وطن کی اکثریت دین حنیف کی حرمت پر کوئی آنچ برداشت نہیں کرتی، اسلام سے باشندگان وطن کی یہ وابستگی اندرون و بیرون ملک ان عناصر کو ہضم نہیں ہوتی جو اس ملک کے باشندوں سے عقیدے و عمل کی اس فطری تعلق کو کھرچ کھرچ کر نکالنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ یہ عناصر براہ راست تو اسلام کو نشانہ نہیں بناتے لیکن اسلام کا دم بھر نے اور اس کی تعلیم و تعلم سے وابستہ رجال کار اور دینی درسگاہوں کے خلاف بہتان تراشی سے باز نہیں آتے اور آئے دن جھوٹے الزامات لگا کر غیظ و غضب کے اظہار میں پیش پیش رہتے ہیں۔ جبکہ ہر سو پھیلی ہوئی خرابیوں سے متعلق ان کی زبانیں کنگ اور قلم خشک نظر آتے ہیں، ان کا بس چلے تو وہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے والے ڈکٹیڑ مصطفیٰ کمال کی طرح، خدا نخواستہ یہاں مسجدوں سے بلند ہونے والی اللہ اکبر کی صدا پر بھی پابندی لگادیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح عناصر پاکستان پر حکومت کرنے والی پارٹیوں میں بھی ہیں، ابھی کچھ عرصہ پہلے موجودہ وفاقی حکومت کے ایک وزیر نے مدارس اور مساجد کو جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دیا تھا۔ سرکاری نظم و نسق کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں کا جو حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کے بجائے قرآن و سنت اور وحی الہی کی تعلیمات کے لئے قائم اداروں کو جہالت کو یونیورسٹیاں کہنے کی تو شاید کسی ہندو یا یہودی نے بھی جسارت نہ کی ہو۔ وفاقی وزیر کے بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر آلودہ ذہنیت کے لوگ ملک کے اعلی مناصب پر براجماں ہیں اور ان کی بیمار ذہنیت ملک و ملت کو تباہی کے کس غار میں دھکیلنا چاہتی ہے۔
مدارس سے متعلق، بحمد اللہ ایک طرف تو یہ صورتحال حوصلہ افزا ہے کہ ان کی طرف رجوع میں اضافہ روز افزوں ہے اور اس کی وجہ ان مدارس کا نظام و نصاب اور با مقصد دینی تعلیم ہے جس کے مفید اور مثبت اثرات و ثمرات کی وجہ سے باشندگان ملک کی طرف سے ان کو پذیرائی حاصل ہے، خاص طور پر طالبات کی آمد کا حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان مدارس کا پاکیزہ، پر امن تدریسی ماحول اور بلا ناغہ درس و تدریس کا تسلسل عوام کے لئے جاذب توجہ ہے چنانچہ ہر سال درس نظامی کے طویل دورانیہ اور بھاری بھی کم نصاب کی تکمیل کر کے طلبہ تقریباً آٹھ ہزار جبکہ طالبات بیس ہزار سے بھی زیادہ کی تعداد میں ’’عالمیہ‘‘ کی سندات سے سرفراز ہوتی ہیں۔ فاضلین و فاضلات کی اس بھاری بھر کم تعداد سے، تعلیم و تربیت کے نھج کو مزید بہتر بناکر معاشرے کی اصلاح کے لئے عمدہ طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن مدارس سے قریبی تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہاں کچھ کمزوریاں بھی ہیں جن کا ازالہ ہونا چاہیے۔ مثلاً:
تعلیم کے طویل دورانیہ سے گزرنے کے بعد جس سطح کی استعداد مطلوب ہے کچھ عرصے سے طلبہ و طالبات کی اکثریت اس معیار کی نہیں ہوتی جس کے پیچھے کچھ عوامل ہیں، یہ عوامل بیرون مدارس، موجود ماحول کے بھی ہیں جن کی وجہ سے طلبہ میں توجہ، یکسوئی اور محنت کا فقدان ہے اور بعض اوقات، سیاسی سرگرمیوں، غیرتعلیمی مشاغل اور تزکیہ و اصلاح نفس سے تغافل کے محرکات بھی عمدہ استعداد کے حصول میں مانع بنتے ہیں۔ امام ابویوست رحمۃ اللہ علیہ کا قیمتی ارشاد پڑھا اور سنا جاتا ہے لیکن اس پر عمل کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔۔۔ امام رحمہ اللہ نے فرمایا! ’’العلم لایعطیک بعضه حتی تعطیه کلک‘‘ (علم تھوڑا سا حصہ بھی نہیں دیتا جب تک تم اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیت اس کی راہ میں نہ لگاؤ)۔۔۔ اس غرض کے لئے اساتذہ کرام اگر درس کے دوران موقع بموقع تربیت و اصلاح سے متعلق بھی گفتگو فرمایا کریں تو اس کے اچھے اثرات سامنے آتے ہیں، موقع بموقع کسی بزرگ استاذ کا اصلاحی بیان بھی بہت اثر رکھتا ہے، بہر حال استعداد کا انحطاط لمحہ فکریہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ مدارس میں حصول علم کے لئے آئے ہوئے طلبہ بیش قیمت ’’امانت‘‘ ہیں، عملی اور دینی تربیت کے لئے کما حقہ توجہ نہ کرنا بلاشبہ خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ والعیاذ باللہ
علماء وارث انبیاء ہونے کا بھی حد درجہ حساس منصب اور بڑی مسؤلیت رکھتے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ معاشرے میں جس جگہ بھی بگاڑ ہے اس کی اصلاح کی مناسب تدبیر کی جائے، نئی نسل کی اکثریت عصری تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے اور ان اداروں کا ماحول، سیکولر، یعنی دین سے دوری، بلکہ بعض اوقات بے زاری اور عملی ارتداد کا ہے۔۔۔۔ یہ بھی بڑا لمحہ فکریہ ہے اور اس کی راہ میں بند باندھنے کی ضرورت ہے، ان عصری اداروں ہی کے تعلیم یافتہ ملک کے در و بست کے مالک بنتے ہیں جن کی مادہ پرستانہ ذہنیت ایسے ہی مسائل و مشکلات پیدا کرتی ہے جن کا اِس وقت ملک کو سامنا ہے کہ بدعنوانی، مفاد پرستی، اقربا پروری، کام چوری اور عوام دشمنی کی یہ مکروہ عادتیں اعلی تعلیم یافتگان کے ہی ’’ثمرات‘‘ ہیں۔
اس لئے ضرورت ہے کہ اہل مدارس ملی اور دینی ضرورت سمجھ کر عصری تعلیم کے لئے ادارے قائم کریں اور پاکیزہ ماحول میں، دینی تربیت کے ساتھ، عمدہ عصری تعلیم کا انتظام کر کے اس راستے سے بھی اپنی مسؤلیت کا احساس کریں۔ کچھ عرصے سے، ماشاء اللہ بہت سے دینی مدارس و جامعات اس رخ پر کام کررہے ہیں جن کے مثبت اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں، اس ضمن میں جامعۃ الرشید، کراچی کو اس نہج پر سبقت کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں درس نظامی کے علاوہ ایسے مختلف النوع تعلیمی و تربیتی شعبہ جات قائم ہیں جن کی اسلامی معاشرے کو ضرورت ہے، اِس طرح کی تجدیدی خدمات و مساعی حد درجہ قابل تحسین ہیں، خاص طور پر کئی سالوں سے جاری کلیۃ الشریعہ کا نظام جس کے چار سالہ نصاب میں ایسے ’’طلبہ ‘‘ داخلہ لیتے ہیں جو کالجوں اور عصری جامعات سے پوسٹ گریجویٹ لیول کے اعلی تعلیمی سندات کے حامل ہوتے ہیں اور یہ خوش نصیب ’’مدرسہ‘‘ میں آکر علوم اسلامیہ کی تحصیل کے لئے پھر سے تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں، جس سے اُن کی صلاحیتیں کہیں بڑھ جاتی ہیں اور پھر دونوں طرح کی استعداد سے آراستہ یہ فضلاء ان مقامات و مناصب پر دین کے داعی بنتے ہیں جہاں عام طور پر درس نظامی کی تکمیل کرنے والوں کی رسائی نہیں ہوتی۔
وراثت نبوت کا منصب بڑا نازک منصب ہے اور موجودہ دور میں دینی اقدار کی حفاظت کی ذمہ داری عملاً مدارس سے وابستہ ہوگئی ہے، مدارس اگر اس پہرہ داری کے قلعے ہیں تو انہیں اپنے پہرہ داروں کو، درکار صلاحیت سے آراستہ کرنے کے لئے ہر مناسب تدبیر بروے کار لانے چاہیے کہ تعلیم و تعلیم کا محض رسمی مشغلہ وراثت نبوت کا بار گران نہیں اٹھا سکتا۔ معمار حرام باز بتعمیر جہاں خیز
نسئل اللہ الهدی و السداد و التوفیق لما یحب و یرضی انه سمیع قریب مجیب۔

بقلم حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب (استاذ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی)
ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ جامعہ دارالعلوم کراچی (رمضان المبارک ۱۴۳۶ھ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں