محقق عظیم حضرت مولانا محمدنافع صاحب رحمۃ اللہ علیہ

محقق عظیم حضرت مولانا محمدنافع صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حمد و ستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانہ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبر پر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

الحمدللہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی خاتم النبیین و علی آلہ و صحبہ اجمعین و علی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد
پچھلے دنوں ہم اپنے عہد کے ایک اور قابل فخر عالمِ دین اور درویش طبع محقق عظیم حضرت مولانا محمد نافع رحمۃ اللہ علیہ کے وجود مسعود سے محروم ہوگئے۔ اناللہ و اناالیہ راجعون۔
حضرت مولانا محمدنافع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان نابغہ روزگار شخصیات میں تھے جن کی نظیریں ہر دور میں گنی چنی ہوا کرتی ہیں، علم و فضل کے اعلیٰ مقام کے باوجود انہوں نے کس طرح نام و نمود اور شہرت کے رائج الوقت طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے تواضع اور سادگی کے ساتھ زندگی گزاری اور اپنے آپ کو علم و تحقیق کے لئے وقف رکھا، وہ انکے اخلاص، للّٰہیت اور خدمتِ دین کی تڑپ کا مظہر ہے۔ انہوں نے اپنی جان کھپا کر جو علمی اور تحقیقی شاہ کار اپنی تصانیف کی شکل میں چھوڑے ہیں وہ امت کا عظیم سرمایہ ہیں۔
مجھے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے نیاز اس وقت حاصل ہوا جب وہ اپنی شاہ کار کتاب ’’رحماء بینھم‘‘ کی تالیف میں مشغول تھے، اس وقت میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب کی دعوت پر فیصل آباد تشریف لے گئے تھے اور میں بھی حضرت رحمہ اللہ کے ساتھ تھا، اس وقت حضرت مولانا محمدنافع صاحب رحمہ اللہ علیہ اپنی تالیف کا مسودہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دکھانے کیلئے تشریف لائے، حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اگر چہ سفر میں تھے لیکن کتاب کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے مسودہ کا معتد بہ حصہ ملاحظہ فرمایا اور اس پر اپنی پسندیدگی کا بھی اظہار فرمایا، البتہ ایک مقام پر مسودے میں امام زہری رحمہ اللہ نے قبول فرما کر متعلقہ مقام پر عبارتیں تبدیل بھی فرمادیں۔ اور بعد میں انہوں نے مجھے حضرت والد رحمہ اللہ کی اس ملاقات کا تذکرہ بھی اپنے خط میں اس طرح فرمایا:
’’رحماء بینہم‘‘ حصہ اول (صدیقی) بحث ’’تاخیر بیعت علوی شش ماہ تک‘‘ میں ایک تحریر مختصراً جناب حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب قدس سرّہ کی میرے پاس محفوظ ہے۔ حضرت مولانا مفتی صاحب موصوف رحمہ اللہ ایک دفعہ فیصل آباد میں حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب کے جناح کالونی میں مکان میں قیام فرما تھے تو اس وقت بندہ یہ ابحاث لے کر آنجناب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ رحمہ اللہ نے بڑی شفقت فرما کر ان ابحاث پر نظر اصلاح فرمائی اور مجھ سے محدث الزہری کے حق میں کچھ سخت الفاظ آگئے تھے۔ اس وقت آنجناب رحمہ اللہ نے اصلاح فرماتے ہوئے درج ذیل الفاظ کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار فرمایا۔ عبارت بلفظہ درج ذیل ہے:
’’امام زہری کے معاملہ میں الفاظ محتاط ہونے چاہئیں، ان کے قول کو خود ساختہ کہنا ذخیرہ حدیث سے اعتماد اٹھادینے کے مترادف ہے۔
ان کی جلالت قدر فی الحدیث کو مجروح نہیں کیا جاسکتا۔ بات صرف یہ ہے کہ زہری کا یہ قول کسی صحابی کی طرف منسوب نہیں اور خود صحابہ کرام شرکاء واقعہ کا بیان ان کے مقابلہ میں راجح یہ مرجوح ہے باقی سب درست ہے۔‘‘ (محمد شفیع)
اس واقعے سے پہلے مجھے حضرت مولانا محمد نافع رحمہ اللہ سے کوئی تعارف حاصل نہیں تھا، لیکن اسی ملاقات میں ایک طرف ان کے مسودے کے علمی اور تحقیقی مقام اور دوسری طرف ان کی انتہائی تواضع اور سادگی نے دل پر گہرا نقش چھوڑا، بعد میں جب ان کی کتاب ’’رحماء بینھم‘‘ منظر عام پر آئی، اور میں اس کے مطالعے سے مستفید ہوا تو کچھ اندازہ ہوا کہ اس سادہ اور متواضع شخصیت نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، میں اس زمانے میں ’’فتح الملہم‘‘ کا تکملہ لکھ رہا تھا اور اس میں بھی کئی مقامات پر میں نے ان کی کتاب سے ان کا حوالہ دے کر استفادہ کیا۔
حضرت مولانا سے براہِ راست ملاقات کے مواقع تو شاذ و نادر ہی آئے، لیکن خط و کتابت کے ذریعے مستقل رابطہ رہا۔ اور الحمدللہ ان کے بہت سے مکاتیب میرے پاس محفوظ ہیں جن کی نقول میں ان کے صاحبزادگان کو بھیج رہا ہوں تا کہ وہ اگر چاہیں تو انہیں شائع فرما سکیں۔ حضرت مولانا کا مرتبہ میرے لئے استاذ ہی نہیں، استاذ الاستاذ جیسا تھا۔ میری پیدائش کا سن اور ان کی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کا سن ایک ہی ہے، یعنی سنہ ۱۳۶۲ھ، لہٰذا علم و فضل، عمر، قدامت اور تجربہ کسی بھی حیثیت سے میری اُن سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی، لیکن یہ ان کی تواضع کا مقام بلند تھا کہ وہ خط و کتابت کے ذریعے اپنی تالیفات سے مجھ کو مطلع بھی فرماتے رہتے اور بعض اوقات مشورہ بھی فرماتے۔ چونکہ میں کی کتاب ’’رحماء بینھم‘‘ سے بہت متاثر تھا اور میری نظر میں اس موضوع پر کسی بھی زبان میں ایسی جامع، معتدل اور مؤثر کتاب نہیں لکھی گئی، اس لئے میری خواہش تھی کہ اس کتاب کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو، لہذا میں نے اپنے ایک رفیق مولانا لقمان حکیم صاحب سے جو اس وقت دارالعلوم کراچی میں استاذ تھے، یہ درخواست کی کہ اس کا عربی میں ترجمہ کریں، چنانچہ الحمدللہ انہوں نے بڑی قابلیت کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔ میں چاہتا تھا کہ یہ کتاب عرب ممالک ہی میں اچھے معیار پر شائع ہو۔ اس کیلئے میں نے بحرین میں اپنے دوست شیخ نظام یعقوبی صاحب سے کتاب کی اہمیت کا ذکر کیا اور یہ درخواست کی کہ وہ اسے اپنے اہتمام میں بیروت سے شائع کرائیں۔ انہوں نے اس بخوشی قبول کیا اور میں نے اس کی اطلاع حضرت مولانا محمدنافع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دیدی، جس سے حضرت مولانا بہت خوش ہوئے۔ افسوس ہے کہ وہاں اس کی طباعت اور اشاعت میں کافی دیر لگ گئی، یہاں تک کہ وہ صاحب فراش ہوگئے، اور مجھ سے بار بار تقاضا فرماتے رہے کہ وہ جلد شائع ہوجائے۔ بالآخر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے چند سال پہلے وہ حضرت کی حیات ہی میں شائع ہوکر آگئی، جس پر اُن سے بہت سی دعائیں ملیں۔
’’رحماء بینھم‘‘ کے علاوہ ان کی تالیفات میں سیرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ، سیرت معاویہ رضی اللہ عنہ، اقرباء نوازی، بنات اربعہ رضی اللہ عنھن اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی سوانح بھی اسی اعلی معیار کی ہیں۔ جب ان کی کوئی کتاب مکمل ہوتی تو وہ اپنے کرم سے مجھ ناکاری کو ضرور بھیجتے اور تبصرے کی بھی فرمائش کرتے، چنانچہ تعمیلِ حکم میں، ہیں نے ان کی کئی کتابوں پر تبصرہ بھی لکھا جو البلاغ میں شائع ہوتا رہا ہے۔
عرصہ دراز سے حضرت مولانا ضعف و علالت کی وجہ سے صاحب فراش تھے، اور بالآخر ۳۰؍دسمبر ۲۰۱۴ء رات کو ان کا وقت موعود آپہنچا، جس سے کسی کو مفر نہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں اُس وقت خود ایک بیماری میں تھا، صاحبزادگان سے خط کے ذریعہ ہی تعزیت کی۔ دل سے دعاء ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ان کی خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرما کر ان کو اپنے خصوصی مقامات قرب میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے صاحبزادگان کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔

بقلم حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم
ماہنامہ البلاغ جامعہ دارالعلوم کراچی (جمادی الثانی ۱۴۳۶ھ؍ اپریل ۲۰۱۵ء)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں