ایک یادگار دن کی روئیداد

ایک یادگار دن کی روئیداد

28؍ شوال 1436ھ بمطابق 14؍ اگست 2015ء اس فقیر کی زندگی کے باسعادت ترین دنوں میں سے ہے۔ احقر یہاں استنبول میں ہدایہ شریف کی ’’کتاب البیوع‘‘ کے 25 روزہ دورے کے سلسلے میں آیا ہوا ہے۔ اس دورے میں حضرت الاستاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز کتاب ’’فقہ البیوع‘‘ کا آخری حصہ جس میں اسلامی مالیاتی قوانین یا اسلامی اقتصادی ستور 235 دفعات کی شکل میں دیا گیا ہے، بھی شامل درس ہے۔ فقیر کا ہدایہ پر مقدمہ ’’ارشاد الطالب الی مانی الہدایۃ من المطالب‘‘ اور قواعد الفقہ بھی پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ شرکاء میں کئی ملکوں کے علماء اور دکتور حضرات شامل ہیں، چونکہ استنبول میں اس وقت عراق، شام، مصر اور یمن کے کبار مشایخ موجود ہیں، اس لیے فجر کے بعد اور عصر تا عشاء ان حضرات کے حلقات درس میں حاضری اور ان سے ’’اجازت حدیث‘‘ کی برکت و سعادت حاصل کرنے کا سلسلہ رہتا ہے۔ پچھلے ہفتے جب علامہ کوثریؒ کے آخری اجازت یافتہ شاگرد جناب شیخ امین سراج حفظہم اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حصولِ اجازت کے لیے حاضری دی تو انہوں نے تعارف اور کارگزاری سننے کے بعد فرمایا کہ کچھ دنوں تک آتے رہو۔ ہم روز ظہر کی نماز حضرت کے ہاں سلطان فاتح مسجد میں پڑھتے تھے۔ آخرکار انہوں نے اجازت سے مشرف فرمایا۔ اب ہمیں عادت ہوگئی کہ اپنا درس ختم کرتے ہی سلطان فاتح مسجد چل پڑتے اور ظہر حضرت کے ہاں پڑھتے ہیں۔

ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ مشہور محدث و مصنف شیخ الشیوخ حضرت عبدالستار ابوغدہؒ کے مایہ ناز شاگرد جناب شیخ محمد عوّامہ صاحب دامت برکاتہم کسی کانفرنس کے سلسلے میں تشریف آوری کے موقع پر اپنے دیرینہ رفیق اور استاذ بھائی سے ملنے کے لیے ان کے پاس آئے ہوئے ہیں۔ ایک ہی آستانے پر غیرمتوقع طور پر آفتاب و ماہتاب کی اکٹھی زیارت ایسی نعمت غیرمترقبہ تھی جس پر مارے خوشی کے ہمارے رفقاء پھولے نہ سماتے تھے۔ا س دن تو بات فقط زیارت و دست بوسی تک محدود رہی، کیونکہ ان حضرات کا مزاج اجازت حدیث کے حوالے سے ذرا منضبط اور تعمیم کلی کے بجائے تخصیص و تقیید قسم کا واقع ہوا ہے۔ بروز جمعہ سلطان محمد فاتح یونیورسٹی میں ’’کلیۃ العلوم اسلامیۃ‘‘ کے عمید (Dean) دکتور احمد طوران صاحب کا فون آیا کہ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ تناول کریں۔ ملاقات کے لیے جامع سلطان محمد فاتح میں نماز جمعہ طے ہوئی۔

جمعہ کی پرشکوہ اجتماع میں حاضری، سلطان فاتح یونیورسٹی کے مختصر دورے اور ’’شاخ درّیں‘‘ (گولڈ ہارن) کے کنارے پرتکلف ظہرانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی زیرسرپرستی چلنے والے ادارے ’’مولوی خانہ‘‘ کی زیارت کے لیے گئے۔ یہ مولانا جلال الدین رومیؒ کے زمانے کی متروکہ کانہ تھی جسے اردگان حکومت نے تعمیرنو کے بعد اصلاحی اور علمی سرگرمیوں کے لیے دکتور احمد طوران صاحب کے حوالے کردیا تھا۔ وہاں چائے کی محفل کے دوران اس عاجز نے اپنے میزبان سے عرض کیا کہ آپ کے استاذ محترم جناب شیخ امین سراج صاحب دامت برکاتہم کے رفیق خاص جناب شیخ عوّامہ صاحب حفظہم اللہ مدینہ منورہ سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آج جمعہ کا دن ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ان سے ملاقات اور خدمت میں حاضر کی تقریر ہوجائے۔

آگے کے واقعات حسنِ غیبی فتوحات کے تحت پیش آئے، اس کا ہم نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پے درپے نعمتوں کی ایسی برسات ہوئی کہ ہمارا کوتاہ دامن چھوٹا پڑگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ تو آج میزبان رسول سیّدنا حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مرقد مبارک پر میرے شیخ اور چند خواص کے ساتھ اکٹھے ہوں گے۔ میں ابھی رابطہ کرکے اجازت لے لیتا ہوں۔ چند منٹوں میں منظوری آگئی اور ہم خوش خوش ’’سلطان ایوبؓ‘‘ کے قدموں کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ہمارے دل کی بات منہ پر آہی گئی۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ زیارت کے دوران اگر حضرت شیخ عوّامہ صاحب دامت برکاتہم کے مزاج پر گراں نہ ہو تو موقع دیکھ کر اجازت حدیث کی درخواست پیش کرنے میں حرج تو نہ ہوگا؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ تو میری بھی دیرینہ خواہش تھی۔ شاید آپ کی معیت میں آج پوری ہوجائے۔ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جناب شیخ امین سراج صاحب حفظہم اللہ تعالیٰ نے ہمیں چند دن حاضری کے بعد اجازت عطا فرمادی تھی اور ان سے محبت و عقیدت کا اچھا خاصا قلبی تعلق اور لگائو ہوگیا تھا۔

ہم جب پہنچے تو اکابر مشایخ کی محفل جاری تھی۔ سلام کرکے چپکے سے ایک طرف بیٹھ گئے۔ اب مغرب کا وقت ہوچلا تھا۔ جمعہ کا دن، مغرب کے قریب وقت اور سیّدنا حضرت ابوایوب انصاریؓ کے قدم مبارک جیسا مقام۔ اگر آج گو ہر مقصود ہاتھ آجاتا تو اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوتی۔ آخر دکتور احمد طوران نے ہمت کرکے ہماری طرف سے درخواست پیش کردی۔ حضرت الشیخ نے حسب عادت عذر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس کا کہاں اہل ہوں؟ فقیر اور اس کے رفقاء خاموش تھے۔ تھوڑی دیر بعد اس عاجز نے ہمت کرکے تمہید باندھی کہ خادم اس شہر میں مسافر و مہاجر ہے۔ بڑوں کے حکم پر ہدایہ شریف کی تدریس کے لیے حاضر ہوا ہے۔ مختصر قدروی، کنزالدقائق، شرح وقایہ، ہدایہ اور ردالمحتار پر تھوڑا بہت کام کرچکا ہے جو زیر طبع ہے (خدام سے پتا چلا تھا کہ حضرت ہدایہ شریف کے عاشق ہیں) آنجناب کی دو کتابیں ’’اثر الحدیث علی اختلاف الفقہائ‘‘ اور ’’أدب الاختلاف‘‘ آپ کے دو شاگردوں جناب مفتی اسحق باہا صاحب اور جناب مفتی بلال ساجر صاحب دامت برکاتہم سے پڑھ کر پڑھا بھی چکا ہے۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے قرابت ہے اور ان کے شاگرد علامہ محمد یوسف بنوریؒ کے مدرسے کا فارغ التحصیل ہوں جن کو حضرت کشمیریؒ نے اپنے داماد مولانا خاں بجنوریؒ کے ساتھ علامہ کوثریؒ کی خدمت میں مصر بھیجا تھا کہ ’’نصب الرایہ‘‘ اور اس پر علامہ کوثریؒ کے مقدمے کی شایان اشاعت کا انتظام کریں۔

اس پر حضرت نے فرمایا کہ ہاں مولانا بجنوریؒ کے گھر والے ہمارے ہاں آئے تھے۔ ان معروضات سے حضرت کا التفات کسی قدر حاصل ہوا، لیکن بات اب بھی نہ بنی۔ اجازت سے عذر کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب شیخ امین سراج صاحب یہاں موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے میں کیسے یہ جرأت کرسکتا ہوں؟ حضرت شیخ امین سراج صاحب حفظہم اللہ کی خدمت میں حصول اجازت کے لیے حاضری کے دوران چونکہ اچھا خاصا تعارف ہوچکا تھا اور وہ ہدایہ شریف کی تدریس اور اس پر مختصر حاشیہ و معجم کی بنا پر اس عاجز سے انسیت کا اظہار کرتے اور شفقت فرماتے تھے، اس لیے ان کے دو شاگردوں دکتور احمد طوران اور دکتور حمدی ارسلان نے ان سے عرض کی کہ آپ حضرت سے ہماری سفارش فرمادیں۔ انہوں نے بہت ہی محبت سے فرمایا کہ میں ان مہمانوں کو اجازت دینے کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ اس پر جناب شیخ عوّامہ صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ یہ تو میرے بارے میں ایسا ہی سمجھتے ہیں، لیکن میں ان کی موجودگی میں ایسی جرأت مناسب نہیں سمجھتا۔ اب مغرب کا وقت قریب ہورہا تھا۔ بات بن نہیں رہی تھی اور اگر یہ بابرکت محفل برخاست ہوجاتی تو پھر ایسا مبارک وقت، ایسی مبارک جگہ اور ایسا نایاب موقع پھر کہاں ہاتھ آتا، لہٰذا فقیر نے اب وہ بات رکھنے کی جرأت کی جس کے متعلق سنا تھا کہ یہ حضرات اسے رَد نہیں فرماتے۔

فقیر نے ہمت مجتمع کرکے آخری کوشش کے طور پر عرض کیا: ’’حضرت! ہم طلبہ آپ کی خدمت میں رحم اور صدقہ کی درخواست کرتے ہیں۔ آپ ہم مسافر اور مہاجر فی سبیل اللہ فقیروں پر رحم فرماتے ہوئے اپنے علم کا صدقہ عطا فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت میں اپنی بارگاہ خاص سے اس کا خاص اجر عطا فرمائیں گے۔ یہ فقیر آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتا ہے اور آپ کی جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی و روحانی انسیت ہے، اس کی بنا پر سائلانہ و عاجزانہ مکرّر درخواست کرتا ہے۔‘‘ حضرت چونکہ خود شام کے مشہور سادات خاندان سے تعلق رکھتے اور صاحب شجرہ، نجیب الطرفین سیّد ہیں، اس لیے یہ آخری جملہ کام کرگیا۔ حضرت نے شفقت و محبت کا اظہار فرمایا اور بڑی بشاشت اور فرحت سے ہمیں اجازت سے نوازا۔ مسنون خطبہ کے بعد اپنی تمام ’’ثبت‘‘ بیان کرکے اجازت دینے کے ساتھ آخر میں پانچ وصیتیں بھی فرمائیں جن کا ترجمہ ان شاء اللہ اگلے شمارے میں پیش کیا جائے گا۔

اس دوران حاضرین پر جو کیف و سرور طاری تھا، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپ تصور کیجیے، کہاں مدینہ منورہ میں قیام پذیر حدیث شریف کے علم میں مہارت اور تصنیف کے لحاظ سے دنیا کے چند گنے چنے لوگوں میں شمار ہونے والے مایہ ناز محدث، کہاں استنبول میں میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نووارد پاکستانی طالب علم۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت غیرمترقبہ مقدر میں رکھی بھی تو کیسی مبارک جگہ، کتنے مبارک وقت اور کیسی منتخب صحبت میں؟ فَسُبْحَانَ اللّٰہِ بِحَمْدِہٖ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ مالک الملک اپنی قدرت و کرم نوازی کے کیسے کیسے مظاہر دکھاتا ہے، لیکن ہم نالائق بندے اس کا شکر بجالانے اور شکر گزاری کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور اپنے شکر گزار بندوں جیسے اعمال و خدمات کی توفیق نصیب فرمائے، آمین یاربّ العالمین!

بقلم مفتی ابولبابہ شاہ منصور

ہفت روزہ ضرب مومن کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں