سوال: میں اللہ کے حکم سے سات ذو الحجہ کو حج تمتع کیلئے جانا چاہتا ہے، میں حج شروع کرتے وقت کیا کہوں؟ اور عمرہ کی سعی کے بعد بال منڈوانا افضل ہے یا کتروانا؟ اسی طرح میں حج کا احرام کہاں سے باندھوں گا؟ اور اسی طرح کیا دس ذو الحجہ کو جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے کے بعد مجھے قربانی بھی کرنا ہوگی؟
الحمد للہ:
اول:
حج تمتع یہ ہوتا ہے کہ انسان حج کے مہینوں میں جو کہ شوال، ذو القعدہ، اور ذو الحجہ ہیں ان میں صرف عمرے کا احرام باندھتے ہوئے کہے: “لبیک عمرۃ”
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ حج تمتع کے عمرے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“میقات پر پہنچنے کے بعد اسی طرح غسل کرے جیسے غسل جنابت کیلئے غسل کیا جاتا ہے، اور اپنے سر و داڑھی کے بالوں میں دستیاب اچھی سے اچھی خوشبو استعمال کرے، اور پھر احرام کی دونوں چادریں زیب تن کر لے، اس کیلئے افضل یہی ہے کہ سفید اور صاف ستھری چادریں ہوں، اور پھر کہے:
( لَبَّيْكَ عُمْرَةً، لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ.
ترجمہ: میں حاضر ہوں عمرہ کیلئے، حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔
تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرے، اور یہ ذہن نشین رکھے کہ اس کی آواز حجر و شجر، یا مٹی کا ڈھیلا بھی سنے گا تو قیامت والے دن اس کے حق میں تلبیہ کے بارے میں گواہی دے گا۔
تلبیہ کا موضوع : اللہ کے حکم کی تعمیل ہے؛ کیونکہ ” لَبَّيْكَ ” کا مطلب ہے کہ میں تیرا حکم مانتے ہوئے حاضر ہوں۔
جب تک عمرے کا طواف شروع نہیں ہو جاتا اس وقت تک تلبیہ کہتا رہے، چنانچہ مکہ پہنچ کر طواف، سعی ، بال حلق، یا قصر کر وا کر احرام کھول دے، اور آٹھ ذو الحجہ کو صرف حج کا احرام باندھے اور حج کے تمام ارکان بجا لائے، اس طرح حج تمتع کرنے والا عمرہ اور حج مکمل کرتا ہے” انتہی
” اللقاء الشهری ”
آٹھ ذو الحجہ کو حج تمتع کرنے والا شخص اپنی اقامت کی جگہ سے حج کیلئے احرام باندھے گا، اور حج کا احرام باندھتے ہوئے وہ تمام کام کریگا جو عمرے کا احرام باندھتے ہوئے کیے تھے، اور حج کی نیت کرتے ہوئے تلبیہ کہے گا: ” لَبَّيْكَ حَجًّا”اور اس کے بعد مشہور و معروف تلبیہ کے الفاظ اپنی زبان پر جاری رکھے گا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
“جو شخص میقات سے عمرے کا احرام حج تمتع کرنے کیلئے باندھے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد اپنا احرام کھول دے، چنانچہ اس کے بعد جدہ وغیرہ جا سکتا ہے، پھر اپنی اقامت کی جگہ سے ہی حج کا احرام باندھے” انتہی
فتاوى اللجنة الدائمة – دوسرا ایڈیشن- (10/76-77)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“عمرہ کے احرام سے فراغت کے بعد حاجی کیلئے آٹھ تاریخ کو اپنی اقامت کی جگہ سے ہی احرام باندھنا شرعی عمل ہے، چاہے وہ مکہ میں یا مکہ سے باہر یا منی میں کہیں بھی مقیم ہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ سے فراغت پانے والے صحابہ کرام کو آٹھ ذو الحجہ کے دن اپنے اپنے خیموں سے احرام باندھنے کا حکم دیا تھا” انتہی
” مجموع فتاوى ابن باز ” (16/ 140)
دوم:
چونکہ آپ سات تاریخ کو عمرہ کرینگے ، اس لیے آپ عمرہ کرنے کے بعد اپنے بال کٹوائیں اور منڈوانے سے پرہیز کریں، تا کہ حج کیلئے بال آپ منڈوا سکیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عمرہ سے فراغت پانے والے صحابہ کرام کو بال کتروانے کا حکم دیا تھا، اس لیے کہ صحابہ کرام مکہ میں 4 ذو الحجہ کی صبح پہنچے تھے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں بال کتروانا منڈوانے سے افضل ہے، تا کہ بال منڈوانے کا عمل حج میں ہو سکے۔
سوم:
حج تمتع کرنے والے حاجی کیلئے دس ذو الحجہ کے دن کیے جانے والے اعمال بالترتیب یوں ہیں: جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، بال منڈوانا یا کٹوانا، طواف افاضہ اور سعی کرنا، اسی ترتیب سے عمل کرنا افضل ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترتیب سے یہ اعمال کیے تھے۔
تاہم اگر کوئی حاجی ان اعمال کی ترتیب میں رد و بدل کر دے یا کچھ اعمال دس ذو الحجہ سے بھی مؤخر کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
چنانچہ علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایام تشریق کے آخر تک بال منڈوائے جا سکتے ہیں، تاہم اگر ایام تشریق گزر جانے کے بعد بال منڈوانے پر کچھ اہل علم کے ہاں حاجی کو دم دینا ہوگا۔
دیکھیں: “الموسوعة الفقهية “(10/12-13)
نیز آپ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ آپ کسی عالم دین یا صاحب علم کی رفاقت میں حج کریں، تا کہ آپ حج اور عمرہ میں در پیش مسائل کا جواب حاصل کر سکیں۔
واللہ اعلم.
نگران اعلی: الشیخ محمد صالح المنجد
اسلام سوال وجواب
آپ کی رائے