“میر ماما، میرے پاپا، میرے بھیا کہاں ہیں؟”

“میر ماما، میرے پاپا، میرے بھیا کہاں ہیں؟”

“میری امی کہاں ہے” میرے بھیا کہاں ہیں؟ میرے پاپا کدھرہیں؟، میں گھرمیں کیوں نہیں؟۔ مجھے امی کے پاس کیوں نہیں لے جاتے؟، یہ سب کون لوگ ہیں” مجھے کس نے مارا؟،جلن کی تکلیف کے ساتھ مسلسل “میری ماما، میری ماما، میرے پاپا ،میرے بھیا کی پکار!۔ یہ کون ہے، کس کا بچہ ہے۔ اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ ماما، پاپا اوربھیا کوبار بار کیوں پکارتا، روتا، چلاتا اور دن رات جاگ کر ان کے غم میں حلق خشک اورچہرہ اشکوں سے ترکیوں رکھتا ہے۔ ماں اور بیٹا، محبت کا اٹوٹ رشتہ۔ کون ہے جو ماں جیسی عظیم ہستی کی شفت سے محروم ہو اور خوش رہے۔ میرے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم بے طرح یاد آتے ہیں۔ آپ کا ایک فرمان جس کا مفہوم یوں کہ “میری ماں! میری کل کائنات، میں نماز میں مشغول ہوں اور وہ مجھے دریچے سے آواز دے” محمد!” تو اس کا بیٹا[محمد] نماز توڑ دے اور ماں کی پکار کا جواب دے “لبیک یا امی”۔ میری پیاری ماں میں حاضر ہوں”۔ میرے حضور کی ماما بھی ان سے بچپن میں چھن گئی تھی، زندگی بھراس کا روگ رہا، ماں کی تربت پرگئے تو گھنٹوں قبر سے لپٹے زارو قطار روتے رہے۔
باربار اپنے ماں کو یاد کرنے والا یہ معصوم ننھا بھی آخر کسی ماں کا لخت جگرہے۔ بچوں والے جانتے ہیں کہ اولاد کی محبت کیا ہے۔ مگرانسانیت کے بدترین ظلم کے نتیجے میں اپنی پیاری ماں، اپنے پاپا اور اپنے ڈیڑھ سالہ شیرخوار بھیا سے محروم ہوگیا ہو۔ اس کا درد دوسرا کون محسوس کرسکتا ہے کیوں کہ “وہی جگہ جانتی ہے جہاں آگ جلتی ہے”۔
یہ پکار کسی افسانوی کردار کی نہیں۔ اس ننھے اور معصوم فرشتے کی ہے جو ابھی ماں، باپ اور ایک شیرخوار بھائی کے سوا دنیا کی کسی دوسرے رشتے سے واقف بھی نہیں۔ مگر اسے کیا معلوم جس ماں کو وہ ایک منٹ میں دسیوں بارآواز دیتا ہے۔ وہ باپ جسے وہ کروٹ کروٹ یاد کرتا، اس کی یاد میں سردھنتا ہے اور وہ بھائی جس کے ساتھ اٹھکیلیاں اسے رہ رہ کر ستاتی ہیں۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہاں! مگر اس کے آس پاس کی دنیا ویران نہیں آباد ہے۔ ہروقت اسے کے گردو پیش ڈاکٹروں ،پولیس اہلکاروں ، اسپتال کےعملے اور قریبی رشتہ داروں کا تانتا بندھا رہتا ہے مگر اس کے دل کی دنیا ویران ہوچکی ہے۔ وہ پکارتا ضرور ہے مگر اس دنیا میں اپنی ماما، اپنے پاپا اور بھیا سے نہیں مل سکے گا، اس لیے کہ ظلم کی ایک سیاہ آندھی نے اس کے پیارے بھیا، مشفق پاپا اور جان پر واری جانے والی ماما کو اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا ہے۔
شامی پناہ گزین خاندان کا بچہ ایلان کردی تُرکی کے سمندر میں بے رحم موجوں کی نذرہوا تو دنیا میں بھونچال آ گیا۔ یورپ نے بھی انگڑائی لی اور لاکھوں بے یارو مدد گار شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ مگر احمد دوابشہ کی دل کو چیر دینے والی چیخیں، والدین اور بھائی کی مسلسل یاد کیا دنیا کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی؟ کوئی ہے جو اس ننھے کا مقدمہ لڑسکے جسے انتہا پسند یہودیوں نے اس کے والدین کے ساتھ سوتے میں زندہ جلا ڈالا۔
قارئین کرام: یہ سب اس معصوم فلسطینی بچے کی کیفیت ہے جو اس وقت مقبوضہ فلسطین کے ایک اسپتال میں بسترعلالت پرپڑا ہے۔ اکتیس جولائی 2015 ء کو غاصب اور انسانیت کے دشمن دہشت گردوں نے رات کے تین بجے فلسطین کے مغربی کنارے کے نابلس شہر میں دوما قصبے میں اس کے گھر کو گن پائوڈر چھڑک کرآگ لگائی اور سعد دوابشہ، اس کےدو بچوں ڈیڑھ سالہ علی ،چار سالہ احمد اور اہلیہ رھام حسین دوابشہ کو زندہ جلا ڈالا۔ ننھا شیرخوار علی سعد موقع پرہی دم توڑ گیا، والد سعد دوابشہ ایک ہفتے کے بعد اسپتال میں جام شہادت نوش کر گیا اور ماں مسلسل ایک ماہ سات دن تک زندگی اور موت سے لڑتی رہی اور آخر کواس کی روح بھی دنیائے فانی کی تکلیفوں سے ہمیشہ کے لیےنجات پا گئی۔ مگر اس بدنصیب خاندان کا ایک بیٹا خود بھی تڑپنے اور دردل رکھنے والوں کو تڑپانے کے لیے ابھی زندہ ہے۔ مامتا کے لیے اس کی پکار کی آواز “تل ھاشومیر” اسپتال کی دیواروں سے ٹکراتی ہے مگر بے حس انسانوں کے کانوں پر اثرنہیں کرتی۔ چار سالہ احمد دوابشہ کی طبی حالت اگرچہ تسلی بخش نہیں مگر وہ بات کرتا ہے۔ اپنے ماں باپ اور بھائی کی یاد میں ہلکان ہے۔
اسپتال میں احمد کے ہمراہ اس کی دیکھ بحال پراس کے نانا حسین دوابشہ مامور ہیں۔ حسین کے الفاظ بھی کم درد انگیز نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچے کی والدہ بھی اسی اسپتال میں زیرعلاج تھی مگر وہ احمد سے بہت دور تھی۔ چھ ستمبرکی شب جب رھام کا انتقال ہوا تو ایسے لگا کہ احمد کو اپنے ماں کی جدائی کا احساس ہوچکا ہے۔ وہ پوری رات روتا اور “میری ماں میری ماں کرتا رہا۔ حالانکہ اسے کوئی پتا نہیں تھا کہ اس کی ماں کہاں اور کس حال ہی میں ہے۔ بچے کی کیفیت دیکھ کر حسین بھی انگاروں پر لوٹتے ہیں مگراسے یہ نہیں بتا پاتے کہ تمہاری ماما ، پاپا اور بھیا اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اگراسے یہ سب کچھ بتا دیں تو خطرہ ہے ماں باپ اور بھائی کی جدائی کا غم اسے بھی ختم کردے گا۔
مقامی فلسطینی بتاتے ہیں کہ انتہا پسند یہودیوں نے جب مکان کو آگ لگائی تو احمد جاگ گیا اور بھاگ کر ایک کھڑکی میں جا بیٹھا مگر اس کے والدین اور چھوٹا بھائی آگ کی لپیٹ میں آکر اس قدرجُھلس گئے تھے کہ ان کا زندہ بچنا محال تھا۔ آگ کے شعبے احمد کو چھو رہے تھے جس کے نتیجے میں اس کا 40 فی صد جسم جل چکا تھا۔
وہ بار بار پوچھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟۔ اسے کس نے جلایا؟ کس نے مارا؟ اس کا جواب کون دے گا؟۔ کیا دنیا اس کی مامتا کو واپس دلا سکتی ہے۔ کیا اس کے تمام سوالوں کا جواب کسی کے پاس ہے۔ جی ہاں جواب ہے مگر وحشت، درندگی، سفاکیت، انسانیت دشمنی بربریت کا علاج کرنے والا کوئی نہیں۔ احمد دوابشہ اس دکھ میں اکیلا نہیں۔ فلسطین کے ہردوسرے خاندان کی ایسی ہی لرزہ بپتا ہے۔ یہ داستان اس وقت تک جاری رہے گی جب تک درندے انسان نہیں بن جاتے یا انسان درندوں کچل نہیں دیتے۔

مرکزاطلاعات فلسطین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں