دور حاضر میں اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت

دور حاضر میں اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت

صحافت کی کہانی
انسان ازل سے حالات سے باخبر رہنے کا خواہش مند رہا ہے اس کی یہ خواہش مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے پوری ہوتی رہی ہے۔ شروع میں تحریریں پتھروں اور ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، پھر معاملہ درختوں کی چھال اور چمڑے کی طرف بڑھا۔ زمانہ نے ترقی کی تو کاغذ او رپریس وجود میں آیا۔ جس کے بعد صحافت نے بے مثال ترقی کی، صحافت سے بگڑی ہوئی زبانیں سدھرتی ہیں، جرائم کی نشان دہی اور بیخ کنی ہوتی ہے، دوریاں قربتوں میں ڈھلتی ہیں، معاشرتی واقعات وحوادثات تاریخ کی شکل میں مرتب ہوتی ہیں۔ بالخصوص نظریاتی اور اسلامی صحافت معاشرہ کی مثبت تشکیل ، فکری استحکام، ملکی ترقی کے فروغ ، ثقافتی ہم آہنگی ، تعلیم وتربیت اصلاح وتبلیغ ، رائے عامہ کی تشکیل ، خیر وشر کی تمیز اور حقائق کے انکشاف میں بہت مدد دیتی ہے۔

”صحافت“ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ صاحب معجم الوسیط صفحہ508 پر صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں خبروں اور آرا کو جمع کرکے اخبار یا رسائل میں نشر کیا جاتا ہے ۔ اس پیشہ کے ساتھ منسلک شخص کو صحافی کہاجاتا ہے۔

صحافت کے لیے انگریزی میں ”Journalism“ (جرنلزم) کا لفظ استعمال ہوتا ہے یہ ”Journal“ (جرنل) سے ماخوذ ہے۔ اردو میں اس کے معنی ہیں ”روزانہ حساب کا کھاتہ اور روز نامچہ “ عصرحاضر میں مروجہ اخبارات او ررسائل پر یہ تعریف مکمل طور پر صادق آتی ہے۔

چھاپا خانے کے روا ج کے ساتھ ہی اردو اخبارات کی اشاعت شروع ہو گئی تھی۔ سب سے پہلے 1822ء میں کلکتہ سے لالہ سکھ نے ” جام جہاں نما“ نامی اخبار شائع کیا یہ اخبار اردو اور فارسی زبانوں میں تھا۔ پہلا خالص اردو اخبار مولوی باقر حسین نے ”اخبار“ کے نام سے شائع کیا 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میں اس کا کردار اہم تھا۔ دوسرا خالص اردو اخبار سرسید کے بھائی سید محمد نے ”سید الاخبار“ کے نام سے شائع کیا، اس کے بعد پورے ہندوستان میں اخبارات کالامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔

عوام میں علمی وادبی، سیاسی وسماجی اور تہذیبی وثقافتی بیداری لانے میں جن اخبارات نے ناقابل فراموش کردار انجام دیا۔ ان میں ”زمیندار، کامریڈ، اودھ پنچ، ریاض الاخبار ، نور الانوار اور آصفة الاخبار“ کارول نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ” الہلال، تہذیب الاخلاق، کہکشاں اردوئے معلی، مخزن، لسان الصدق ، برنگ خیال ، ساقی ، نظام المشائخ اور عصمت“ جیسے اخبارات او ررسائل بھی اس صف میں شامل ہیں ۔ جنہیں ہندوستان کی تاریخ صحافت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ بقول آغا شورش کاشمیری ان اخبارات نے فکر ونظر میں اختلاف کے باوجود ملک میں قومی تحریکیں ، قومی مطالبے ، قومی تنظیمیں، قومی شخصیتیں ،حتی کہ قومی راہ نما پیدا کیے۔ ان کی ہدایت سے اہل قلم کا قافلہ چلا، جن اہل قلم نے ہندوستان کو آزادی او رپاکستان کو وجود مہیا کیا۔ (مضامین شورش، ص:380,379)

دور حاضر میں صحافت کا حال
صحافت ایک امانت ہے، اس کے لیے خدا ترسی ، تربیت واہلیت اور فنی قابلیت شرط اول ہے۔ فی زمانہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا ہے جن میں دینی اور اخلاقی اہلیت نہیں، اصول اور کردار کے لحاظ سے وہ قطعاً غیر ذمہ دار اور مغربی یلغار کی حمایت اور لادینی افکار کو نمایاں کرنے میں سر گرم ہیں۔

حضرت مولانا ابوالحسن ندوی نے موجودہ صحافت کی جو منظر کشی فرمائی وہ اس بارے میں حرف آخر رکھتی ہے، حضرت رقم طراز ہوتے ہیں : ”دورحاضر کی اس غیر ذمہ دارانہ ، غیر ثقہ اور ناقص صحافت کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں روزانہ صبح وشام ایسا زہر اتارا جاتا ہے جس کا کوئی تریاق نہیں ۔ یہ مسموم اور بیمار صفحات قلب ونظر کو رفتہ رفتہ ایسا ماؤف کر دیتے ہیں کہ سنجیدہ ، معتدل اور صحیح چیز پسند نہیں آتی، چند سنجیدہ علمی اور ادبی رسائل کو چھوڑ کر سستے قسم کے کثیر الاشاعت رسائل نوجوانوں کے اخلاق اور زندگیوں کو اس سے زیادہ تباہ کر رہے ہیں ، جتنا طاعون اور وبائی امراض کسی ملک یا بستی میں پھیل کر انسانی نفوس کو تباہ کرتے ہیں، یا چنگیز وہلاکو اپنے مفتوح ممالک میں تباہی وہلاکت پھیلاتے تھے۔ بد اخلاقی، عریانی وبے حیائی اور فسق ومعصیت کے یہ جراثیم گھر گھر پھیلے ہوئے ہیں۔ آج کوئی شہر یا قصبہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے ۔ اگر کچھ عرصہ تک یہی حال رہا تو قوم اخلاق کی اس سطح پر پہنچ جائے گی جس پر فرانس اور یورپ کی بعض دوسری قومیں پہنچ گئی ہیں ۔ اور پھر اسلام کی دعوت ونمائندگی تو الگ رہی، وہ کسی سنجیدہ اور تعمیری کام اور جدوجہد کے قابل نہیں رہے گی۔“ (کامیابی ڈائجسٹ، جلد نمبر2 شمارہ نمبر5,6، ستمبر واکتوبر2006ء ، مضمون اچھی تحریر کا فن از سید عرفان احمد، بحوالہ : الفرقان)

اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت
موجودہ دور کی صحافت میں گنے چنے افراد کے علاوہ اکثریت لکھنے والے سیکولر اور لبرل ہیں۔ یہ لوگ مغرب کی پوجا کرتے ہیں او رانہیں کے افکار کو اجاگر کرتے ہیں، دین او رمذہب کے خلاف لکھنا ان کا شیوا بن چکا ہے ۔ لادینیت اور لامذہبیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

حالاں کہ صحافت ایک مقدس اور عظیم الشان پیشہ ہے، جس کے ذریعے ملک وملت کی بہترین خدمت کی جاسکتی ہے ۔ اسلامی صحافت قوم کے ذہنوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ان کی فکری راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لاتی ہے، برے کاموں سے روکتی اور اچھے کاموں کی ترغیب دیتی ہے۔

مفتی محمدرفیع عثمانی نے ہفت روزہ ”فاتح“ کے آغاز کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا: ” میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی صحافت کا بنیادی نقطہ اور محور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں اچھائی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے لیے علم کے ذریعہ جد وجہد کرنا اسلامی صحافت کا بنیادی فریضہ ہے۔ یہ فریضہ اتنا عظیم الشان ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق اس فریضہ کی بجا آوری تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہوتی ہے۔“ (صحافت اور اس کی شرعی حدود)

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع نے اپنے ایک رسالے میں اسلامی صحافت کو اسوہ حسنہ میں گردانا ہے ۔ حضرت فرماتے ہیں : ”اگر دنیاوی اصول پر نظر کی جائے تو اخبارات وجرائد نہایت مفید اور کار آمد ذرائع اشاعت ہیں ، بلکہ آج کل قومی اور اجتماعی زندگی کا جز بن گئے ہیں۔ سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس حوالے سے ہمارے لیے اسوہ حسنہ موجود ہے۔ حضرت حسن رضی الله عنہ بحوالہ ہند بن ہالہ رضی الله عنہ ایک طویل حدیث میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی عادات وشمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” پھر میں نے سوال کیا جب حضور صلی الله علیہ وسلم مکان سے باہر تشریف لاتے تھے تو کیا طرز عمل ہوتا تھا؟ حضرت ہند ابن ابی ہالہ رضی الله عنہ نے فرمایا: حضور صلی الله علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ مفید اور ضروری کلام کے سواہر کلام سے اپنی زبان کو روکتے اور صحابہ رضی الله عنہم سے الفت ومحبت کا معاملہ فرماتے تھے، ہر قوم کی بڑی تعظیم فرماتے تھے اور اپنی طرف سے بھی اس قوم کا متولی اور امیر مقرر فرماتے تھے۔ لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈراتے تھے۔ لوگوں کے میل جول سے بچتے تھے، مگر اپنے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی، کسی سے نہ روکتے تھے او راپنے صحابہ کی خبر گیری فرماتے تھے۔ لوگوں سے ان واقعات کو دریافت فرماتے تھے جو لوگوں میں پیش آتے تھے او ران میں اچھی باتوں کی بھلائی اور بری یاتوں کی برائی اور ضعف بیان کرتے تھے۔“( شمائل ترمذی ، ص:23)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ” حضور صلی الله علیہ وسلم جب کسی کو دیکھتے کہ تین روز سے ملے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے تھے کہ وہ کہاں ہیں؟ پھر اگر وہ سفرمیں گئے ہوتے تھے تو ان کے لیے دعا فرماتے تھے او راگر حاضر ہوتے تو ان کی ملاقات کو تشریف لے جاتے تھے اورمریض ہوتے تو مزاج پرسی کرتے تھے۔“ (رواہ ابو یعلیٰ فی مسندہ از کنز العمال، ج4، ص:30)

مفتی صاحب ان دواحادیث سے چار باتوں کو اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
1… اس لیے سنت تفقہ ( خبرگیری) کے تحت میں آسکتا ہے۔
2… اس کے علاوہ مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ اس ذریعہ سے سہولت سے کیا جاسکتا ہے۔
3… مسلمانوں کی قومی شکایات ومظالم کو اس کے ذریعہ حکومت تک آسانی سے پہنچایا جاسکتا ہے۔
4… تبلیغی ضرورت اس کے ذریعہ سے بخوبی ادا ہو سکتی ہے۔
(صحافت او را س کی شرعی حدود، ص:29,28)

دور حاضر میں مسلمانوں کے اجتماعی حالات مکمل طور پر بگڑ چکے ہیں۔ اس طرف مسلمان مظلومیت کا شکار ہیں ۔ یہود قبلہ اول پر قابض ہیں ۔ انہوں نے اہل فلسطین کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہیں اپنے گھروں ، کھیتوں، زمینوں اور کاروبار سے بے دخل کر دیا ہے ۔ یہی حال آج شام، برما، افغانستان اور وزیرستان کا ہے، دشمنانِ اسلام جدید ہتھیاروں، میزائلوں، بموں اور طیاروں سے لیس ہو کر مسلم علاقوں پر چڑھائی کررہے ہیں۔ آگ وبارود کی بدستور بارش کر رہے ہیں مٹی کے گھر وندے پیوند زمین کر رہے ہیں افتادگان خاک لہو رزق خاک بنا رہے ہیں، انسانی جانوں کو زندہ بھٹی میں جلد رہے ہیں۔

تمام اہل دنیا کو علم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اس کو اسلامی جمہوریت کہا جاتا ہے، لیکن یہاں ناموس رسالت کا قانون ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دینی مدارس کے دروازوں پر تالے ڈالے جارہے ہیں، نصاب کو اسلامی تعلیمات سے پاک کرنے کی ناپاک سعی کی جارہی ہے ۔ اسلامی تاریخ وتہذیب کو شجر ممنوعہ بنایا جارہا ہے۔ اسلامی اقدار وروایات کو ذبح کیا جارہا ہے، جہاد کو دہشت گردی کا نام دیا جارہا ہے ۔ دینی حمیت کا گھلا گھونٹا جارہا ہے ۔ حق کو چھپایا اور باطل کو پھیلایا جارہا ہے۔ مگر نام نہاد آزاد میڈیا (پرنٹ ہو یا الیکٹرانک) اپنی فن کاریاں دکھارہا ہے۔ اہل قلم، حرف وبیاں کی میناکاریاں کر رہے ہیں، حکم ران اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے طاغوت کی ہم نوائی کر رہے ہیں۔

اس المیہ پر لکھنے والے نایاب نہیں تو کم یاب ضرورہیں ۔ عمومی فضا یہی ہے کہ کوئی بھی مسلمانوں کی حالت زار کو کھل کر بیان نہیں کرتا۔ کوئی کلمہ حق لکھ کر ان مسائل کو عوام الناس کی عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، حشرات الارض کی طرح اسلامی اخبارات اور رسائل تو بہت ہیں اور خوش آئند بھی ہیں ۔ لیکن خلا پر نہیں ہو رہا ہے، چند رسائل او راخبارات کے علاوہ اکثر گزرے ہوئے لوگوں کی تحریریں نقل کرتے ہیں، نئی نسل میں لکھنے والے بہت کم مل رہے ہیں۔

قحط رجالی کے اس دو رمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں ۔ صداقت کو رقم کرنے کے لیے قلم وقرطاس کے ساتھ وابستہ ہوں۔ قلم وبیان کے سپاہی بنیں، صحافت کے محاذ کو توانا کریں۔ غیرت ، حمیت، سوچ، تقریر وتحریر کے ساتھ صحافت کے میدان میں اتریں اور ان گھٹن کے حالات میں کلمہ حق سر بلند کریں، جہالت اور گم راہی کی تاریکیوں میں شمع یقین وایمان کو روشن کریں ۔ معاشرہ میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اذان حق بلند کریں، اپنے عقائد ونظریات میں لچک نہ لائیں ،نہ ہی زمین حقائق کی دیلیز پر سجدریز ہوں، بلکہ قلم کے ذریعہ اپنے عقائد ونظریات اور دین اسلام کا دفاع کریں۔

آئیے آپ بھی صحافتی میدان میں اتریں، اپنی تحریری صلاحیتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی یکجہتی، اسلام کے دفاع اور عظیم ترا سلامی انقلاب کے لیے سر گرم عمل دینی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیں۔ دین اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور ترقی کے لیے میدان تحریر میں شوق و جذبہ کے ساتھ اپنی کالم نگار ی کے ذریعہ ان کا ساتھ دیں، میڈیا اور دجالی پروپیگنڈہ کے اس دور میں مغربی یلغار اور لادینی افکار کے خلاف قلمی جنگ میں ان کے ہم نوا بنیں۔ ملی وحدت ، فکری حریت اور شرعی نظام کے اسلامی صحافت کے میدان میں ان کا دست وبازو بن کر طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیجیے۔ قدم اٹھائیے او روقت کی اس پکار پر لبیک کہیے اور اکابرین کے نفش قدم پر چلتے ہوئے دشمنانِ اسلام پر کاری ضرب لگائیے اور امر بالمعروف او رنہی عن المنکر او راعلائے کلمة الله کے لیے کمر بستہ ہو جائیے۔

محترم محمد احتشام الحسن

ماہنامہ الفاروق (جامعہ فاروقیہ کراچی)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں