روس میں تعمیر مساجد کی طرف رجحان

روس میں تعمیر مساجد کی طرف رجحان

روس موجودہ دنیا میں ایک بڑا ملک ہے، بین الاقوامی اثر و رسوخ بھی اچھا خاصا رکھتاہے، اگر چہ سوویت یونین بظاہر بکھر گیا ہے مگر سابقہ یونین میں شامل اور اس کے علاوہ بہت سے ممالک میں روسی عمل دخل آج بھی دیکھنے میں آتا ہے، عالمی مسائل و مشکلات میں روس اپنے طور پر کاؤشیں کرتا رہتاہے، اصل میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کو اپنی بقا ٔ کی پڑگئی تھی، پر ولادیمیر پوٹن کی شکل میں اسے ایک ایسا قائد مل گیا، جس نے ملک کے گرتے ہوئے مردِ بیمار کو سہارا دیا، اور اس میں نئی روح پھونک کر اس کی تقدیر بدل دی، یوکرائن کے علاقے کریمیہ پر دن دیہاڑے حملہ، پھر اسے باقاعدہ اپنے ملک میں ضم کرنا بین الاقوامی قوتوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پوٹن کی ایک ایسی جرأت اور جسارت تھی جو وہی کرسکتا تھا، چنانچہ وہ کر گیا، شام میں پوری دنیا کی مخالفت کے علی الرغم انقلابیوں کے مقابلے میں ایک خونخوار حاکم کی مستقل حمایت اور اسے اسلحہ سپلائی حالیہ دور میں روس کی کسی مہم جوئی سے کم نہیں تھی، لیکن روس نے عرب ممالک اور مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ و یورپ کو بھی خاطر میں لائے بغیر یہ مہم جوئی بڑی ڈھٹائی سے جاری رکھی، یمن کے مسئلے میں بھی ٹانگ اڑانے کی ناکام روسی دوڑ دھوپ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، البتہ وہاں ان کی ایک نہ چلی۔

اس وقت روس پاکستان کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، پاکستان کو بھی آگے بڑھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئیے تھا، جو یہ دونوں ممالک پچھلے کچھ عرصے میں کرچکے ہیں، لیکن ابھی ابتدائات و شروعات ہیں، اُتنا نہیں ہوا ہے جتنا امریکن میڈیا نے اچھالا ہے، ان کا کہنا تو یہ ہے کہ پاکستان عالمی معاملات میں اب امریکن کے بجائے رشین بلاک کے قریب تر ہے، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ خود روس گزشتہ کچھ مہینوں سے مسلم امہ کی قربتیں چاہتا ہے، مسلمان جو روس میں دوسری بڑی اکثریت ہے اور 18 سے 20 زبانوں والی اقوام پر مشتمل ہے، چیچنیا، داغستان، ابخازیا، انگوشتیا، کریمیہ اور تاتارستان جیسی اندرونی خود مختار مسلم جمہوریات کے علاوہ پورے ملک بشمول موسکو میں یہ مسلمان پھیلے ہوئے ہیں، روسی مسلمانوں میں مہاجرین نہ ہونے کے برابر ہیں، ان کی اکثریت یہاں کی قدیم آبادیوں میں سے ہیں، روس کیمونزم کی وجہ سے دہریت، الحاد و زندقے کا مرکز ہے، مگر پھر بھی یہاں آرتھوڈوک عیسائی اور مسلمان بہت ہیں، بس سب سے بڑا مسئلہ یہاں کا اور چین کا یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک بند ڈبے کی طرح ہیں، اِدہر اندرونی کیا ہورہاہے، کیا خاصیات ہیں، کیا قبائح ہیں اس کا پتہ باہر کو کم ہی ہو تاہے، اوپننگ نہ ہونے کی وجہ سے ان سے استفادہ کرنا قدرے مشکل ہے، یورپ اور امریکہ دیگر ممالک کے صحافیوں، سیاستدانوں اور معاشرے کے فعال کرداروں کو اپنے یہاں بلاتے ہیں، انہیں سیر و تفریح اور شکم سیری بھی کراتے ہیں، اپنا نقطۂ نظر بھی سمجھاتے ہیں، جبکہ یہ لوگ قندہاریوں کی طرح لین دین کے سِوا کچھ کرتے کراتے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے عالمی برادری میں ہوتے ہوئے بھی روس چین الگ تھلگ جزیرے ہیں، گلوبلائزیشن کے اس دور میں بھی یہ صحیح معنوں میں گلوبل نہیں ہیں، اِلا یہ کہ ان کے مفادات کو کہیں خطرہ ہو، تو وہاں ان کی رونمائی ہوتی ہے، حالانکہ ان کی جغرافیائی، اقتصادی اور سیاسی حیثیتوں کا تقاضا تھا کہ یہ بھی اگر قیادتِ عالم کا خواب اپنے سینے میں رکھتے ہیں، تو پہلے دنیا کو بڑی باریکی سے سمجھے اور اپنا آپ بھی تفصیل سے سمجھا دیں، اندھیرے میں تو کوئی ان کے قریب برضا و رغبت ہرگز نہ جائے گا، یہ اور بات ہے کہ کوئی گرتا ہوا انجانے میں ان کی جھولی میں جا گرے۔

شاید روس کو کچھ نہ کچھ یہ بات سمجھ میں آگئی ہے، انہوں نے اندرونی طور پر اقلیات کے ساتھ حسن سلوک کا ہاتھ بڑھایا ہے اور بیرونی طور پر ان کے ہم مذہبوں سے قریب ہونے کی مساعی شروع کردی ہیں، پاکستان اور عالم عربی کے بارے میں روسی وِژن میں تبدیلی نظر آرہی ہے، شام کے مسئلے میں بھی وہ اپنی انا اور ضد (بشار الاسد) کو چھوڑ کر قوم کی چاہتوں کی طرف دھیرے دھیرے قدم بڑھا رہاہے، اندرونی لحاظ سے روس نے مسلمانوں کے مفتیٔ اعظم کو ایک اتھارٹی تسلیم کرلیا ہے، گویا مسلم پرسنل لأ کو قانون کا ایک حصہ قرار دیا ہے، اور اب موسکو جیسے بڑے اور گنجان شہرمیں جہاں مسلمانوں کے لئے صرف چار(4) مساجد انتہائی ناکافی تھیں، لوگ سڑکوں، گلیوں اور پارکوں میں مسجد کے آس پاس نماز پڑھنے پر مجبور تھے، جس سے خود نمازی بھی تکلیف میں تھے اور عامۃ الناس کو بھی اشکالات تھے، وہاں نہ صرف روس بلکہ پورے یورپ کی سب سے بڑی مسجد تعمیرات کے اختتامی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جس کی افتتاحی تقریب میں خود روسی صدر پوٹن بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت فرمائنگے، عین ممکن ہے کہ اس موقعے پر وہ مسلمانوں کے لئے مزید مراعات کے بھی اعلانات کرینگے، عالمگیریت کے اس دور میں یہی روس اور اس جیسے دیگر ممالک کے مفاد میں ہے۔

ایک اور بالکل البیلا قدم یہاں روس میں یہ اٹھایا گیا ہے کہ شہری علاقوں میں پہلے تاتارستان کے دارالحکومت قازان میں اور اب موسکو میں موبائل مسجدوں کا تصور دیا گیا ہے، ایسی خوبصورت بسیں چلائی گئی ہیں کہ شاید و باید، جن میں استنجأ خانے، وضو خانے اور امام و مقتدیوں کے لئے حسین و جمیل جائے نمازوں کا بند و بست کیا گیا ہے، اس کے لئے جگہیں مختص کر دی گئی ہیں، ان کے فون نمبر بھی متعارف کرائے گئے ہیں، مارکیٹ میں جن لوگوں نے نماز پڑھنی ہے، وہ فون کر کے مسجد منگوالیتے ہیں، یہ بالکل نیا اور جدید انداز اپنایا گیا ہے، وہاں کے کچھ مفتیوں نے شروع میں اس جدت سے خائف ہوکر اس پر اعتراضات کئے، مگر مسلم عوام کی سہولت دیکھ کر اب وہ خاموش ہو چکے ہیں، لگتا ہے اسلام اب بھی اپنے آپ کو منوا رہاہے، اللہ کرے مسلمان بھی اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوں۔

بہرحال روس میں یہ تبدیلیاں بڑی عالمی سطح کی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے، اہل پاکستان، مسلم مخیًرین اور اہل علم و دانش کو چاہئیے کہ روسی مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوں، وہاں مساجد و مدارس کا یہ عمل تیزی سے آگے بڑھنا چاہیئے، روسی زبان میں اسلامی لٹریچر بھی بڑے پیمانے پر آنا ضروری ہے، اور اس پورے خطے کو اسلام اور مسلمانوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیئے عربی زبان کے فروغ کی بھٰ بڑی ضرورت ہے، مسلم مفکرین، علمأ اور تاجروں کو بھی روسی علاقوں کے دوروں کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے ان حضرات سے مدد لینے کی بھی ضرورت ہے جنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی ہے یا ان کے ہمارے علمأ، مفکرین اور مصلحین سے تلمّذ و استرشاد کا تعلق ہے اور ایسے حضرات کم نہیں ہیں۔

بقلم شیخ ولی خان علی مظفر-کراچی
بشکریه ہماری ویب


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں