عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کا مکروہ کرداراور ہماری ذمہ داریا ں

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کا مکروہ کرداراور ہماری ذمہ داریا ں

صراط مستقیم اور سبلِ شیاطین
اللہ تعالیٰ کے بے شماراحسانات میں سے ایک احسانِ عظیم یہ ہے کہ اس نے شیطان اور اس کے کا رندوں کی پھیلائی ہوئی کفر وضلالت کی ظلمتوں اور فسق وجہالت کی تار یکیوں میں اپنے بندوں کے لیے رشدوہدایت کا انتظام کر دیا اورحق کو باطل سے چھانٹ کر علیحدہ کرکے رکھ دیا…﴿قد تبین الرشد من الغی﴾!اللہ تعالیٰ نے اپنے نورسے صراطِ مستقیم کو تا قیادمت روشن کر دیا، تا کہ امتِ مسلمہ گم را ہیوں کے رستوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے محفوظ رہے اور حق کی اتباع سے دنیا وآخرت کی فوز وفلاح کو اپنا مقدر کر لے۔اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوادیا:﴿وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾ (الأنعام:153)
اور یقینا یہ میرا راستہ سیدھا (راستہ)ہے لہٰذا تم اسی کی پیروی کرو اور تم دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو ،کہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔اللہ نے تمہیں اس کی تاکید کی ہے، تاکہ تم پرہیزگار ی اختیار کرو“۔

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ فرماتے ہیں:”خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاًبیدہ، ثم قال”ھذا سبیل اللہ مستقیما“․ وخط علی یمینہ وشمالہ،ثم قال:”ھذہ السبل لیس منھا سبیل الاعلیہ شیطان یدعو الیہ“․

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے (زمین پر)ایک لکیر کھینچی اور پھر فرمایا:یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔اور پھر اس کے دائیں اور بائیں جانب لکیریں کھینچیں اور فرمایا:یہ(گمراہی کے) راستے ہیں اور ہر ایک پرشیطان بیٹھااس راستے کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہاہے۔“ (ذکرہ الطبری والسمر قندی والفنسی وغیرھم،واللفظ لابن کثیر)

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے دینِ اسلام کو مختص فرمایااور پھر ہدایت کے سرچشموں کو بھی واضح کردیا۔اب جو شخص بھی ان چشموں سے سیراب ہوگا تو وہ ہدایت پاجائے گا اور جوانھیں چھوڑ کر دوسرے مصادر اپنائے گا تو وہ یقینا سبلِ شیاطین کاراہ روبن کر صراطِ مستقیم سے کج رواوردین سے گمراہ ہو جائے گا۔امام ابو لیث سمر قندی لکھتے ہیں:
”﴿فتفرق بکم عن سبیلہ﴾یعنی :وفیضلکم عن دینہ“․
”وہ تمہیں اللہ کے راستے سے علیحدہ کردیں گے سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں دین سے گمراہ کردیں گے“۔(بحر العلوم ؛سورة الانعام ،آیة153) اس آیت میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حق کا راستہ صر ف ایک ہی ہے…جسے اپنے کلامِ پاک اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منور کردیا ہے اور جسے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نقوشِ صحابہ  واسلاف نے روزِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔اس ایک راستے کے سوا ہر دوسرا راستہ شیطان ہی کا راستہ ہے،وما بعد الحق الا الضلال۔

جدید ذرائع ابلاغ اور ان کا کردار
اس تمہید کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کررہے ہیں اور اس کے امتِ مسلمہ پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟تمہید کا مد عا یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ کسوٹی اور میزانِ حق کو سامنے رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے کردار کو پر کھیں اور بنظرِغائر دیکھیں کہ یہ ذرائع ابلاغ کس طرح سبلِ شیاطین کا کا م دیتے ہوئے امت کو صراطِ مستقیم سے دور اور گم راہی کے دلدل میں دھکیلتے چلے جارہے ہیں؟

ابتدا ًہم یہ بھی وضاحت کرتے چلیں کہ ہم اِن ذرائع ابلاغ کی تخصیص وتبعیض نہیں کریں گے،الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا…مغربی ہو یا، سرکاری نشریاتی ادارے ہوں یا غیر سرکاری …صحافتی ہوں یا ثقافتی…سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔لہٰذا ہم ان سب کو ایک ہی عصائے شریعت سے ہا نکیں گے۔

”لھو الحدیث“اور”احسن الحدیث“
اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مختصر سامطالعہ بھی کرتے چلیں، تاکہ اس کی راہ نمائی میں ہمیں اِس دور کے جدید ذرائع ابلاغ کا کردار سمجھنے میں آسانی رہے۔اللہ اپنے کلام میں ہمیں خبر دیتے ہیں:﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ﴾(لقمان:6)

اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں، تاکہ وہ (دوسرے کو)علم کے بغیر اللہ کی راہ سے گم راہ کریں اور اس کا مذاق اڑائیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسواکن عذاب ہے“۔

کتبِ تاریخ اور کتبِ تفسیر کے صفحات میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب مکہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسلام وتوحید کی دعوت کھلے بندوں دینی شروع کی اور معاشرے سے باطل کو ختم کرنے کے لیے صحیفہٴ ہدایت’قرآنِ مجید‘کی روشنی کو عام کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو معاشرے میں ایک کشمکش کی ابتدا ہو گئی ۔اہلِ مکہ میں سے کچھ افراد نے بڑھ کر اس ’احسن الحدیث‘(قرآن)کی دعوت کو قبول کیا اور کفر وشرک کی گندگی سے خود کو نکال کر اللہ مالک الملک کی ہدایت کو اپنے لیے مشرب بنایا۔ایسے میں معاشرے کے سوادِاعظم نے انکار کیا اور باطل پر قائم رہتے ہوئے مخالفت شروع کردی۔ تاہم جب انھوں نے دیکھا کہ حق کی دعوت تو روکے نہیں رک رہی اور پھیلتی ہی چلی جارہی ہے تو انھوں نے اپنے میں سے ایک شقی الفطرت اور خبیث النفس بندے کو منتخب کیا کہ وہ اس ’احسن الحدیث، کی دعوت کے راستے میں باطل کا بند باندھنے کا انتظام کرے ۔یہ شخص نضر بن حارث تھا۔وہ پہلے شام وفارس گیا اور وہاں سے عجمیوں کے قصے اور رستم ،بہرام ،اسفند یار،اکاسرہ اور شاہانِ حیرہ کی کہانیاں اپنے ساتھ لے آیا۔پھر اس نے مکہ میں گانے بجانے والیوں کا مجمع اپنے سا تھ لے لیا۔چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو رب کا کلام سناتے اور ہدایت کی باتیں بتاتے تو نضر بن حارث رقص وسرود کی محفلیں منعقدکرتا ،لوگوں کو گانے سنواتا،عجمیوں کے قصوں سے محظوظ کرتا اور شراب وکباب کا دور چلاتا۔لوگوں سے کہتا:”ھذا خیر مما یدعوک الیہ محمد من الصلاة والصیام وأن تقاتل بین یدیہ“․

”یہ سب کچھ جو میں تمہارے سامنے پیش کررہاہوں،اس نماز،روزے اورمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے دفاع میں قتال سے بہتر اوراچھاہے․ جس کی طرف تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) دعوت دیتے ہیں“۔(الدر المنثور لجلال الدین السیوطی؛سورةلقمان،آیة۶،والکشاف أیضًا)

یوں اس نے لوگوں کو گم راہ کرنا شروع کر دیا۔لوگ اللہ تعا لی کے کلام،نبی علیہ السلام اور صراط مستقیم کی بجائے اس کار ندئہ شیطان کی مجلسوں میں بیٹھتے اور سبیلِ شیطان اختیار کرلیتے۔نضربن حارث کی ان مجلسوں اور قصوں کے متعلّق اللہ تعالیٰ نے درج بالاآیت میں مسلمانوں کو خبر دار کیا،اِنھیں لھوالحدیث کہا اوربتا یا کہ اس کا مقصد اللہ کے راستے’صراط مستقیم‘سے مسلمان کو رو کنا ہے۔(انظر بحر العلوم، جامع البیان،الدر المنشور،الکشاف، سیرةابن ھشام،البدایة والنھایة وغیرھا)

پھر یہی نضر بن حارث تھاجو اپنے انھی کر تو تو ں کے سبب بالآخر اپنے انجام کو بھی جا پہنچا۔کتبِ سیرت میں درج ہے کہ جب غزوہ بدر میں مسلمانوں نے ستر (70) مشرکین کو قید کرلیاتھا تو ان میں نضر بن حارث بھی تھا۔ایسے میں جب کہ باقی قیدیو ں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا گیا تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔ (سیرة ابن ھشام وغیرھا)

جدید ذرائع ابلاغ …دورِ حاضر کا لھوالحدیث
گزشتہ سطور میں جس لھو الحدیث کا تذکرہ ہوا… یقینا ہر سلیم الفطرت مسلمان کے لیے آج کے دور میں جدید ذرائع ابلاغ کے ساتھ اس کی مما ثلت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ،کیوں کہ وہ تمام قبیح افعال جو نضر بن حارث نے سر انجام دیے ،آج ذرائع ابلاغ ان میں سے ہر ایک کام اس سے کئی گنا بڑھ کر انجام دے رہے ہیں ۔تاہم پھربھی ہم چیدہ چیدہ نکات اور مثالوں کے تحت ان کے کردارپر روشنی ڈالتے ہیں، تاکہ حقیقت پوری طرح آشکار ہو جائے۔

کفار کی فکری وتہذیبی جنگ کااہم ترین ہتھیار ؛ذرائع ابلاغ
عصرِحاضر میں برپا معرکہٴ ایمان وما دیت اور کشمکشِ حق وباطل کا فکری محاذ اہلِ کفر کی جانب سے بڑی حد تک ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں نے سنبھال رکھا ہے ۔ دراصل آج کفار مغرب کا سیاسی و عسکری غلبہ پورے جوبن پر ہے اور مسلمانوں کے بیشتر علاقے ان کے زیرِ تسلط ہیں۔تاہم وہ جانتے ہیں کہ یہ جزوی فتح ہے…قالب فتح کرلینے کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ قلوب بھی فتح ہو گئے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ جزوی فتح وقتی و عارضی ہی ہے اور تاریخ کے اور اق ان پرعیاں ہیں کہ ایسی ہر فتح کے بعد مسلمانوں نے اپنے دلوں میں موجود ایمان واسلام کی قوت سے دوبارہ انھیں شکست دے کر کفرکو مغلوب کیا ہے،وہ صلیبی جنگوں میں فتوحات کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی برستی تلوار اور بیت المقدس کی دوبارہ بازیابی کو نہیں بھولے ،نہ ہی بادشاہِ بازنطین کے تسلط کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے تاج دار سلطان محمد فاتح کی فتحِ قسطنطنیہ کو بھلا پائے ہیں ۔

لہٰذا اس دفعہ کفار اپنے عالم گیر غلبے کو مستحکم کرنے کے لئے مسلمانوں کے قالب کے بعد ان کے دلوں کو بھی مغلوب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اہداف میں سے اہم ترین ہدف”مسلمانوں کے دلوں میں سے اسلام کو کھرچ نکالنااور دجل کا سہارا لیتے ہوئے دین وثقافتِ اسلام ہی کو بدل ڈالنا“ہے۔یہی ان کی فکری جنگ کا عنوان ہے اور اس میں ان کا اہم ترین ہتھیار جدید ذرائع ابلاغ ہیں۔آج یہ ادارے اسی ہدف کی تکمیل کا کام بہت سر عت سے انجام دے رہے ہیں جب کہ ہم مسلمان اپنی سادہ لوحی کے سبب بہت آسانی سے ان کے دامِ فریب میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔

مغربی تہذیب و تصورات اور مغرب کی اقدار کا پھیلاوٴ
ملا حظہ کیجیے کہ وہ تمام شرکیہ تصورات جو مغرب میں رائج ہیں اور ان کی دجالی تہذیب کا شاخسانہ ہیں،کس طرح ہمارے معاشروں میں فروغ پارہے ہیں۔مثال کے طور پر تہذیبِ مغرب کی بنیادی تین اقدار یعنی ”آزادی“، ’مساوات‘ اور ’ترقی‘کو ہی لے لیتے ہیں۔سابقہ دو دہائیوں میں مسلم معاشروں میں بہت تیزی سے ان کا غلغلہ اٹھا ہے اور اب گلی گلی میں یہ دعوت عام ہو چکی ہے اوربچہ بچہ”جیسے چاہو جیو“کے فلسفے سے واقف ہے۔…یہ سب ذراع ابلاغ ہی کا کارنامہ ہے ۔بھانت بھانت کی وہ تنظیمیں اور این جی اوز جنھیں مغرب ہمارے یہاں درآمد کرتا ہے، تاکہ بطورِ ’مشنری مبلغین مسلمانوں میں اس کا ناسورپھیلائیں …انہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس تک رسائی حاصل کرتی ہیں ۔یہی نشریاتی ادارے ایسی تمام کانفرنسوں، سیمینارو ں اور مذاکروں کو…جن میں ’روشن خیالی‘اور ’اعتدال پسندی‘کا درس دیا جاتاہے…عام مسلمانوں کے سامنے خوش نمابناکر پیش کرتے ہیں اور یوں ہمارے دلوں کو ان سے مسحور کرتے ہیں۔

یہی معاملہ مغربی اصطلاحات کا بھی ہے۔کفار ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی انھیں ہمارے معاشروں میں ٹھونسنے کاکام لے رہے ہیں۔ مثال کے طورہر طرف ’انسانی حقوق‘اور ’جمہوری روایات‘ہی کی اصطلاحات کو دیکھ لیجیے ،آج ہر ایک نشریاتی ادارہ اور ہر ایک جریدہ واخبار انھی کار اگ الاپتا نظر آتا ہے ۔انھی کی بدولت یہ اصطلا حات ہم میں عام ہوگئی ہیں جب کہ ان کا ہم سے اور ہمارے دین سے کوئی تعلّق نہیں ۔

مرعوبیتِ کفار
کفار کی فکری جنگ ہی کے تسلسل میں ایک اہم خدمت جو ذرائع ابلاغ انجام دے رہے ہیں؛وہ یہ ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں میں کفار کی مرعوبیت پیدا کررہے ہیں۔اس ایک بات کے بھی ہمہ پہلوا ثرات مرتب ہورہے ہیں۔

پہلا اثر عسکری لحاظ سے یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان امریکہ ومغرب کی طاقت سے مرعوب ہورہے ہیں اور ان سے کفر واسلام کی جنگ میں کفار سے مقابلے کا حوصلہ چھینا جارہا ہے ۔مسلمان خود کو ان کے مقابلے میں نہایت کمزور تصور کرنے لگے ہیں ۔یہ بہت بڑی خدمت ہے جو ذرائع ابلاغ کفار کے لئے انجام دے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں ’ارادہٴ جنگ ‘ہی کو ختم کردیا جائے ۔اس کے لیے مغرب کی جنگی صلاحیتوں پر دستاویزی فلمیں بنائی جاتی ہیں اور دوسری جانب مسلمان مجاہدین کی بے سروسامانی کو حقارت سے دکھایا جاتا ہے ۔نیز یہ سب کچھ اس تکرار سے کیا جاتا ہے کہ سیکھنے والا متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ذرائع ابلاغ کے اس زہریلے اثر کے لیے 11 ستمبر 2001 ء کو نیو یارک اور واشنگٹن پر مجاہدین کے مبارک حملوں کی مثال ہی کافی ہے ۔ذرائع ابلاغ نے مغرب کو ایسا ناقابلِ تسخیر بنا کر پیش کیا ہے کہ گویا کسی میں بھی ان سے لڑنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت ان حملوں کومسلمانوں کا کارنامہ کہنے کے بجائے یہودی سازش کانام دیتی ہے،کیوں کہ یہ سوچنے کی صلاحیت ہی ان سے سلب ہوگئی ہے کہ مسلمان بھی اس قدر جرات و طاقت رکھ سکتے ہیں کہ وہ امریکا کو امریکا میں ہی نشانہ بنالیں۔

دوسرا اثر فکری لحاظ سے یہ ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے اذہان سے عداوت ونفرت ِ کفار (البغض فی اللہ)کا مسلّمہ عقیدہ مٹتا جارہا ہے۔مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت ختم ہوتی جا رہی ہے اور الٹا ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔اب مسلمان انھیں اپنے دشمن کے طور پرنہیں دیکھتے،بلکہ غیر شعوری طور پر ان کی مادی ،عسکری اور سا ئنسی برتری کے آگے سر تسلیم خم کرتے جا رہے ہیں۔

تیسرا اثر سے یہ ہورہا ہے کہ مسلمان کفار کی تہذیب اور ان کی اقدار کو اپنا رہے ہیں۔وضع قطع سے لے کر بو دو باش کے تمام طورطریقوں تک میں کفار کی مشابہت کا مرض بڑے پیمانے پر ہمارے نوجو انوں میں پھیلتا جارہا ہے، اپنے اسلاف واکابر کے طرزِ رہن سہن کو د قیا نوسی گردانا جارہاہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے معاشروں کی پوری فضا تبدیل ہو گئی ہے ۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے تا قیامت نمونہٴ عمل پیش کرنے کے لیے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمادیا تھا:﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ زَہْرَةَ الْحَیَاةِ الدُّنیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْْرٌ وَأَبْقَی﴾(طہ:131)

اور اے نبی!ان چیزوں کی طرف آپ اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے زندگانی ٴدنیا کی آرائش کے لیے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہیں،تاکہ ہم انھیں ان کے ذریعے آزمائیں اور آپ کے رب کا رزق بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے“۔

اسی ایک مضمون کی بہت سے آیات اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں،تاکہ مسلمانوں میں کفار سے مرعوبیت کا مرض پنپنے بھی نہ پائے۔

حبِ دنیا کی افزائش اور معیاِ زندگی پر اثرات
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں مسلمانوں کوبارہا تنبیہ فرمائی ہے کہ ان کے قلوب ہر دم ’حبِ دنیا‘ کے مرض سے محفوظ رہیں…کیوں کہ اگر فقط یہ ایک مرض کسی قلبِ مسلم میں جاگزیں ہو جائے تو وہ ازخود دیگر کئی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔حبِ دنیا برائیوں کے مقابلے میں قوتِ مدافعت سلب کرلیتی ہے۔اس کیبرعکس آخرت کا تصورہر قسم کی خیر کا موجب ہوتا ہے اور مسلمان کو صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھتا ہے ۔یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ نے حبِ دنیا کو قرآن مجید میں بالخصوص یہود اور با لعموم دیگر کفار کی صفت کے طور پہ بیان کیا اور آخرت کی محبت وفکر کو مسلمانوں کاخاصہ بتایا۔

اب جہا ں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو چو ں کہ یہ کفارکے ہاتھ کے کھلو نے ہیں …اس لیے ہر ممکن طریقے سے یہ مسلمانوں میں حب دنیا کے مرض کو پھیلا رہے ہیں۔اسے سمجھنے کے لیے صرف ان کے نشر کردہ اشتہارات ہی پر غور کرتے ہیں۔ان اشتہارات کے ذریعے مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ مارکیٹ میں آنے والی نئی ’پروڈکٹ‘کو آزمائیں اور ان کواس دل کش انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں۔کہیں ”دل ہے تو مانگواور“ اور کبھی”آپ کے اپنے گھر کی ضرورت“کے خوش نما جملوں کے ذریعے تارِ فریب بچھایا جاتاہے۔

ان کے اثرات کا بھی کئی پہلوؤں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ایک جانب ان سے مغرب کا سرمایہ دارنہ نظام مستحکم ہوتاہے اور مسلمانوں کا بیشتر مال کفار کے بینکوں میں جا پہنچتا ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں میں دنیا کی محبت پیدا ہوتی ہے، دنیا کی جانب رغبت بڑھتی ہے اور ان کی زندگیوں میں تعیش کا سامان بڑھتا چلا جاتا ہے۔یوں مسلمانوں کا معیارِ زندگی …مغرب کی اصطلاح میں …بہتر ہوجاتا ہے اور بندئہ مومن کی نگاہ سے دیکھیں ،تو دین سے اعراض میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ، فیاأسفی!

دین کی جدید تعبیر اور ذرائع ابلاغ بطورِمصدرِدین
کفار مغرب کی فکری جنگ کا ہدف جس کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں …اس کے حصول کی ایک کڑی یہ ہے کہ باطل وجہالت کو اس دجل کے ساتھ پیش کیا جائے کہ وہی حق نظر آئے۔نیز خیر وشر کے معیار کو ہی بدل ڈالا جائے،اس طرح کہ دین کی سند بھی مل جائے۔آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ دین کی جدید تعبیر کی جائے۔گم راہی کے فروغ اور باطل کی جیت کے لیے یہ موثر ترین حربہ ہے۔اب ظاہر ہے کہ دین کو جدید تعبیر دینے کے لیے مصادرِ دین بھی ازخود بدل جائیں گے، کیوں کہ دینِ اسلام کے اپنے مصادر کے ذریعے تو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔

آج کے دور میں مسلمانوں میں دین کی جدید تعبیر کو متعار ف کرنے کے لیے بھی کفار کا بنیادی ہتھیار یہی ذرائع ابلاغ ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ ادارے اپنے اس مکروکید میں بڑی حدتک کام یا ب رہے ہیں اور اب ہم میں سے بیشتر افراد اسی مصدر سے حق کو تلاش کرتے ہیں۔جو کچھ ذرائع ابلاغ دکھائیں اور سنائیں اسے بلاچوں وچراحق تسلیم کرلیا…یہ کہتے ہوئے کہ یہ تو آزاد صحافت کرتے ہیں ،سچ ہی دکھاتے ہیں۔

افسوس کہ یہ معاملہ صرف احوال کی خبروں تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے یہاں انھی نشریاتی اداروں اور اخبارات وجرائد میں بولنے اور لکھنے والے افراد دین کے معاملات میں بھی اپنی بے لگام زبانوں کو حرکت دینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور پھر ان کی با تیں ہمارے دین کا درجہ بھی حاصل کرلیتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ فساد کا باعث ٹاک شوز اور وہ پروگرامات ہیں جنھیں اسلامی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ان ٹاک شوز میں اکثریت ایسے لوگوں کی مدعو کی جا تی ہے کہ جن کا دین سے بعید کا تعلق بھی نہیں ہو تا اور کچھ ایسے افراد کو بھی دعوت دی جاتی ہے جووضع قطع میں با شرع ہوں۔پھر سیاست وحالات حاضرہ سے لے کر عقائد وعبادات اور دعوت وجہاد ایسے دینی موضوعات تک پرچہ میگوئیاں او رموشگافیاں کی جاتی ہیں۔

ایسے میں پرویز ہود بھائی جیسے ملحد لوگ ہمارے مسلمانوں کو سمجھاتے ہیں کہ اس دور میں زندگی کیسے گزارنی چاہیے اور جسٹس جاوید اقبال کی طرح کے افراد ہمیں اس عہد میں دین کی جدید تعبیر اور اجتہاد کرنا سکھلاتے ہیں۔ زید حامد کو بلایا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو سکھائے کہ جہاد کیا ہوتا ہے اور کیسے اور کس کے خلاف کیا جاتا ہے۔ اور پھر دینِ خالص سے مسلمانوں کو روشناس کرانے کے لیے غامدی جیسے جدت پسند اسکالرز آتے ہیں او راپنی لن ترانیوں کے ذریعہ لوگوں کو گم راہ کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ ان نشریاتی اداروں ہی کی چال ہوتی ہے کہ اپنے پروگرامات میں کسی سیدھے سادھے باشرع فرد کو دیگر بدباطن وفاسق لوگوں کے درمیان بٹھا دیا جاتا ہے، تاکہ اس کی اچھی بات کو بھی یوں پیش کیا جائے کہ جیسے نقارخانے میں طوطی کی آواز ہو اور مسلمان اس کی بجائے دوسروں کی بو قلمونیوں میں ہی سردھنیں۔ یہ تو نشریاتی اداروں کے کمالات ہیں جب کہ اخبارات وجرائد کا کردارتو اس پر مستزاد ہے۔ اپنے کالموں او رمضامین کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں میں ایسا زہر گھولا جاتا ہے کہ الامان!

اس پورے منظر نامے پر غور کیجیے اور پھر اپنے حالات ، اپنے معاشرے کی صورت حال او رمعظم طبقے کے معمولات وتصورات کو دیکھیے! آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے غیر محسوس انداز میں ہمارے یہاں دین کا مصدر تبدیل ہو رہا ہے او راس کے نتیجے میں عصر حاضر کی جدیدیت ( یعنی جہالت) کے موافق دین کی ایک نئی تعبیر ہم میں متعارف ہو رہی ہے۔ پھر ذرا اس حدیث مبارکہ کا مطالعہ بھی کیجیے جس میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہمیں آخری زمانے کے فتنوں سے خبردار کرتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”سیأتی علی الناس سنوات، خداعات یصدق فیھا الکاذب، ویکذب فیھا الصادق ویؤتمن فیھا الخائن، ویخون فیھا الأمین وینطق فیھا الرویبضة․ قیل: وما الرویبضة؟ قال: الرجل التافہ (یتکلم) فی أمر العامة“․

ترجمہ:” لوگوں پر ایک شدید دھوکے باز زمانہ آنے والا ہے، جب جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا گردانا جائے گا، جب خائن امانت دار اورامانت دار خائن قرار پائے گا اور اس وقت رویبضہ گفتگو کریں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ رویبضہ سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” وہ بیوقوف آدمی جو عوام الناس کے معاملات میں گفتگو کرے۔“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، ومسند احمد)

اور بعض روایات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رویبضہ کا مطلب یہ بیان کیا:” الفویسق یتکلم فی أمر العامة“․
” وہ فاسق جو عوام الناس کے معاملات میں گفتگو کرے۔“ ( مسند احمد مسند أبی یعلی)

اسی طرح ایک دوسری روایت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”إذا وسد الأمر إلی غیر أھلہ فانتظر الساعة“․
”جب امور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دے دیے جائیں جو اس کے (قطعاً) اہل نہیں تو تم قیامت کا انتظار کرنا“۔ (صحیح البخاری ، کتاب العلم، باب من سئل علما وھو مشتغل فی حدیثہ…)
(جاری)
محمد متنٰی حسّان
ماہنامہ الفاروق (جامعہ فاروقیہ کراچی)
ذوالقعده 1434


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں