فلسطینی مکان کو نذرآتش کرنے کے الزام میں متعدد یہودی گرفتار

فلسطینی مکان کو نذرآتش کرنے کے الزام میں متعدد یہودی گرفتار

اسرائیلی فورسز نے غرب اردن کے شہر نابلس کے نواح میں واقع گاؤں الدوما میں ایک فلسطینی خاندان کے مکان کو نذرآتش کرنے کے الزام میں متعدد مشتبہ یہودیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
یہودی انتہا پسندوں کے 31 جولائی کو اس مکان پر حملے میں اٹھارہ ماہ کا فلسطینی شیر خوار علی دوابشہ زندہ جل گیا تھا اور اس کے والدین شدید زخمی ہوگئے تھے۔اس کے والد سعد دوابشہ ایک ہفتے تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ہفتے کے روز چل بسے ہیں۔
اس حملے میں کم سن پھول کی والدہ اور چار سالہ بڑا بھائی بھی زخمی ہوگئے تھے۔فلسطینیوں نے اسرائیلی حکام پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ انتہا پسند یہودی آباد کاروں کے تشدد کی روک تھام کے لیے ناکام رہے ہیں۔
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان مشتبہ افراد کو دوما میں رونما ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں سے چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔تاہم پولیس نے پکڑے گئے مشتبہ افراد کی تعداد نہیں بتائی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے فلسطینی خاندان کے مکان پر آگ بم برسانے اور 30 جولائی کو مقبوضہ بیت المقدس میں گے پرائیڈ مارچ کے دوران چاقو گھونپنے کے واقعات کے بعد یہودی انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ہم جنس پرستوں کی ریلی کے دوران ایک انتہا پسند نے چاقو گھونپ کر ایک سولہ لڑکی کو ہلاک اور پانچ افراد کو زخمی کردیا تھا۔
قبل ازیں اسرائیل نے غرب اردن کے علاقے میں گذشتہ ہفتے ایک فلسطینی خاندان کے مکان کو نذرآتش کرنے کے واقعے میں ملوّث انتہا پسند یہودی گروپ کے سرغنہ کو گرفتار کیا تھا۔اسرائیل کی داخلی سکیورٹی کی ذمے دار ایجنسی شین بیت کے مطابق میرایٹنگر نامی اس تیئس سالہ مشتبہ نوجوان کو ایک انتہا پسند یہودی تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔شین بیت کا کہنا ہے کہ گرفتار ایٹنگر انتہا پسند تحریک کا سربراہ تھا جو مسیحیوں کے مقدس مقامات اور فلسطینیوں کے مکانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔
اسرائیلی میڈیا نے میر ایٹنگر کو شین بیت کو سب سے زیادہ مطلوب یہودی انتہا پسند قرار دیا ہے۔اس کو ماضی میں بھی متعدد مرتبہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔وہ انتہا پسند قوم پرست آنجہانی ربی میر کہان کا پوتا ہے۔اس یہودی ربی پر 1988ء میں اس کے انتہاپسندانہ ںظریات کی وجہ سے اسرائیلی پارلیمان نے پابندی لگا دی تھی۔اس کو 1990ء میں ایک عرب نے گولی مار کر قتل کردیا تھا۔
شین بیت نے میر ایٹنگر کی انتہاپسندانہ سرگرمیوں کے پیش نظر اس کے مقبوضہ بیت المقدس اور غربِ اردن کے علاقے میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔اس کی دہشت گرد تحریک پر غرب اردن میں دو گرجا گھروں پر حملوں کے الزامات بھی عاید کیے جاچکے ہیں لیکن شین بیت نے دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے باوجود اس انتہا پسند گروہ کے خلاف اس سے پہلے کوئی کارروائی نہیں کی تھی اور اب اس نے اسرائیلی رائے عامہ کے دباؤ کے بعد اس کی جانب رُخ کیا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں