کیا ہم نے رمضان سے فائدہ حاصل کیا ہے ؟؟

کیا ہم نے رمضان سے فائدہ حاصل کیا ہے ؟؟

دنیا کا ایک اصول ہے کہ کسی چیز کی حفاظت اور اسکو صحیح حالت میں برقرار رکھنے کے لئے برابر اس چیز کی دیکھ ریکھ کی جاتی ہے اوروقفہ وقفہ سے اس چیز میں اگرکمی پائی جاتی ہے تو مرمت اورٹھیک کیا جاتا ہے تاکہ وہ چیز دیرپا ثابت ہو اور ایک لمبے عرصے تک وہ چیز چلتی رہے ، اسی طرح جسم انسانی میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو فورا ہم ڈاکٹر سے رجوع ہوتے ہیں تاکہ اس جسمانی خرابی کو دور کیا جاسکے۔
اگر انسان کے اندر روحانی خرابی پیدا ہوجائے تو اللہ تبارک وتعالی جو انسان اور دنیا کی ہرچیز کا خالق ومالک ہے اس نے انسان کے اندر اس روحانی خرابی کو دور کرنے کے لئے کئی ترکیبیں بتادی ہے ،اور یہ ترکیبیں ایسی ہیں جو جسمانی ، روحانی،مالی، معاشرتی ہر ایک پر مشتمل ہے ، اور یہ سب ایسی ہیں کہ آدمی کے اندر وہ کمی ایک دفعہ کے علاج سے ٹھیک نہ ہوسکا تو بار بار علاج کی ضرورت پیش آتی ہے ،جس طرح نماز کو اللہ نے دن میں پانچ دفعہ فرض کیاہے ، اور جب تک انسان زندہ ہے اس وقت تک اس پر فرض کیا ہے، تاکہ اس کی اصلاح ہوتی رہے اور انسان کے اندر اگر کوئی روحانی مرض پیدا ہوجائے تو نمازوقت پراداکرکے اللہ کے سامنے اپنا جسم وجان جھکا کر اس روحانی مرض کا علاج کرلے۔
اسی طرح اللہ عزوجل نے انسان کو پیدا کر کے اس کی جسمانی اور روحانی حفاظت کے لئے روزہ کو فرض قرار دیا تاکہ انسان کے اندر جسمانی اور روحانی امراض کا خاتمہ ہوسکے، روزہ کے جسمانی فوائد کسی سے مخفی نہیں ہے ، آدمی جب روزہ رکھتا ہے تو معدہ کو مسلسل کھانے کے بعد روزہ میں آرام ملتا ہے کیونکہ وہ بھی عام مشین کی طرح ہے اگر کسی مشین کو لگاتار مشغول رکھا جائے گا تو وہ مشین دیر تک کام نہیں کریگا اور بہت جلد بیکار ہوجائیگا، اس لئے ضروری ہے کہ اس مشین کو آرام وسکون نصیب ہو تاکہ وہ دوبارہ کام کرنے کے لائق رہ سکے ۔
روزہ بھی انسان کے لئے اللہ رب العزت کی جانب سے جسمانی اور روحانی امراض کے لئے ایک بیش قیمت علاج ہے ، انسان سال بھر مسلسل خوراک لیتا رہتا ہے اور اس ایک مہینہ کے لئے اس سے فرمان خداوندی کے تحت رک جا تا ہے تو اس کا جسمانی علاج بھی ہوجاتا ہے اور اس سے بڑھ کر سال بھر کے لئے ایک مشق وتمرین ہوجاتا ہے تاکہ پورا سال بندہ اسی مشق وتمرین پر عمل کرتے ہوئے اطاعت خداوندی میں اپنا جسم وجان کو تابع بنا دے ،روزہ سے جو مقصد حاصل ہوناہے وہ تقوی وپرہیزگاری ہے ،قران کریم نے روزہ کا یہی مقصد بتایا ہے ( اے ایمان والوتم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاو)۔
تقوی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق ( التقوی ہی الخوف من الجلیل، والعمل بالتنزیل ، والقناعہ بالقلیل،والاستعداد لیوم الرحیل )، تقوی نام ہے اللہ رب ذوالجلال والاکرام سے ہر وقت خوف کھانے کا،اور قران کریم پر عمل کرنیکا ،اور تھوڑی چیز پر صبر کر لینے کا، اور دنیا سے جدا ہونے کے دن کے لئے بھر پور تیاری کرنے کا نام تقوی ہے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے تقوی کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک کانٹے دار راستے میں آدمی جب چلتاہے تو کس طرح اپنے آپ کو بچا کے اور اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر چلتا ہے بس سجھو یہی تقوی ہے۔
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں بندہ کے اندر اخلاص اور تقوی نہ ہو تو اس کی پابندی نہیں کر سکتا ہے کیونکہ یہی وہ اخلاص وتقوی ہوتا ہے جو آد می کو کھانے پینے سے منع کر دیتا ہے نہیں تو وہ انسان اکیلے میں جاکر تنہائی میں کچھ بھی کھا پی سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ ہر نیکی کا اجر دس گنا تک دیتا ہے لیکن روزہ کا اجر الگ سے اللہ بذات خود اپنے طور دیگا ( حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ابن ادم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے کیونکہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ) متفق علیہ۔
رمضان المبارک کا ہر پل ہر لمحہ قابل رشک اور سنہرا موقع ہے ان لوگوں کے لئے جو اس کے لمحات کو غنیمت جان کر گزارتا ہے ورنہ بہت سے ایسے بدنصیب ہیں جو اس کے قیمتی لمحات کو یونہی فضول اعمال میں ضائع کردیتے ہیں ۔سنن نوافل جو رمضان کے ایام میں فرائض کے برابر ہوجاتے ہیں بس بے اعتنائی سے کہ دیتے ہیں کہ فرائض ہی ادا ہوجائے یہی بس ہے ، اور فرائض جو کہ ستر فرض کے برابرہوجاتے ہیں اس کا بھی وقت پر خیال نہیں رکھا جاتا ۔یہ نہیں سمجھتے کہ پتہ نہیں اگلا رمضان مجھے نصیب ہوگا یا نہیں ؟
لیکن جو لوگ اس کو غنیمت جان کر رمضان المبارک کے ایام گزارتا ہے فرائض کے ساتھ ساتھ سنن ونوافل کثرت سے پڑھتا ہے اور ذکر واذکار ،قران کریم کی تلاوت کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے ، گویا وہ اس پورے مہینے میں ایک روحانی مشق کرتا ہے اور اس مشق کا نتیجہ سال کے ۱۱ مہینے بھی اس کی زندگی پر نظر آتا ہے تو یقینا اس شخص نے اس مبارک ایام سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور اپنی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر ڈال دیا ہے۔
اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس کے باقی ایام کو سراپا غنیمت جان کر بھر پور نیکی کما لیں اور اس ایک مہینہ کے مشق سے یہ تہیہ کر لیں آئندہ پوری زندگی اللہ کی اطاعت وبندگی اور رسول ﷺ کے طریقے کے مطابق گزاریں گے ۔ یہی وہ روزہ کا پیغام اور درس ہے اس کے لئے جو اس کو سمجھے اور نصیحت حاصل کرے۔۔۔۔ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو سچی توبہ کرکے باقی ایام میں نیکی لوٹنے اور صحیح راستہ پر چلنے کی تاحیات توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ۔۔

فیروز احمد ندوی
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں