چین کے دو سینیئر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے جنوبی علاقے سنکیانگ میں جدید تہذیب کے فروغ اور یہاں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے چینی فوج کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کمیونسٹ پارٹی میگزین ’قیشی‘ کے حالیہ ایڈیشن میں جنوبی سنکیانگ ملٹری ریجن کے کمانڈر لی ہائی یانگ اور فوجی افسر میاؤ وینجیانگ نے لکھا ہے کہ سپاہیوں کو اس علا قے سے ’محبت کی آرزو‘ کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’ہمیں اپنی آنکھوں کی دیکھ بھال کی طرح نسلی وحدت پسندی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور انار کے بیجوں کی طرح تمام نسلی گروپوں کے لوگوں کو ایک ساتھ مل جل کر رہنے کی ضرورت ہے‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوغور لوگوں میں ناراضگی اور بدامنی کی وجہ روزگار میں امتیازی سلوک اور ملازمتوں کے حصول میں نسلی پرستی ہے۔
بیجنگ حکومت نے حالیہ چند سالوں میں اس علاقے کی ترقی کے لیے اپنی توجہ مرکوز کی ہے، خاص طور پر ان جنوبی علاقوں میں جہاں یوغوروں اور مذہبی قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔
میگزین میں شائع ہونے والی تحریر میں کہا گیا ہے کہ فوجی سپاہیوں کو جنوبی سنکیانگ کی معاشی ترقی میں مدد کرنی چاہیے اور دیہات کے افراد کو سائنس، تہذیب، قانون اور صحت تک رسائی فراہم کرتے ہوئے، ’جدید تہذیب کی جانب راغب کرکے، مذہبی انتہا پسندی سے دور کرنے کے لیے‘ مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں تک رسائی اور پینے کے پانی کی کمی کے مسائل کو دور کرنے کے لیے ہر سال تمام فوجی یونٹس کو فنڈز میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بچوں کو اسکولوں میں ’پڑھنا، رہنا اور بڑھنا‘ چاہیے۔
یاد رہے کہ یوغور قوم کی اکثریت معتدل اسلام پر عمل پیرا ہے تاہم ان میں کچھ لوگ سعودی عرب اور افغانستان میں نافذ اسلامی طریقہ کار پر کاربند ہیں جیسا کہ خواتین کا نقاب کرنا اور مردوں کا داڑھیاں رکھنا، جن کے خلاف حالیہ سالوں میں چینی سیکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن بھی کیا۔
گذشتہ چند سالوں میں سنکیانگ میں ہونے والی کشیدگی کے باعث سینکٹروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ چینی حکومت کی جانب سے یہاں امن و امان کی خراب صورت حال کا ذمہ دار اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ مشرقی ترکستان کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بنانے والوں کو قرار دیا جارہا ہے۔
ڈان نیوز
آپ کی رائے