کاش ہماری توجہ اس طرف بھی ہو!

کاش ہماری توجہ اس طرف بھی ہو!

مئی جون کی گرمی میں دوپہر کے وقت سڑک سے گزر رہے ہوں، چلچلاتی دھوپ ہو، جسم پسینہ سے شرابور اور حلق پیاس سے کانٹا بنا ہوا ہو،ایسے وقت اگر کہیں پانی کی سبیل نظرآجائے، ٹھنڈا پانی تقسیم ہوتا ہوا دکھائی دے تو آپ کیسا محسوس کریں گے، اور پھر آسودہ ہوکر پانی پینے کے بعد آپ کے دل سے کس قدر دعائیں نکلیں گی۔
آج کل راستہ چلتے ہر فرد کا یہی حال ہے، پیدل چلنے والوں، رکشہ والے، غریب مسافر اور متوسط درجہ کے لوگوں کے لئے راستوں پر، چوراہوں پر ٹھنڈے پانی کا انتظام نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں ہوتا۔ ستائش کے قابل ہیں وہ افراد اور تنظیمیں جو شہروں کے چوراہوں پراس طرح بلاتفریق مذہب و ملت تمام انسانوں کے لئے ٹھنڈے پانی کا انتظام کرتے ہیں، صد آفریں ہے ان کا حوصلہ اوران کی فکر، یہ عمل جہاں بڑا کارخیر اور انسانیت دوستی کی علامت ہے و ہیں اپنے آپ میں ایک خاموش پیغام بھی ہے کہ آج بھی انسانیت کے دکھ درد کومحسوس کرنے والے موجود ہیں، منافرت کے ماحول اور فرقہ واریت کی مسموم فضا میں انسانیت کی شمعیں روشن کرنے والے زندہ ہیں۔
عام طور پر اس طرح کا انتظام غیرمسلم بھائیوں یا ان کی تنظیموں کی طرف ہوتاہے، بعض تنظیمیں تو مستقل اس کام کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں، اور ہر سال ان کی طرف سے متعین جگہوں پر پانی کا انتظام ہوتاہے۔ ہر گرمی میں وہ انسانوں کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض علاقوں میں ایک خاندان کے افراد مل کر بھی یہ کار خیر انجام دیتے ہیں۔ یہ ساراعمل بڑے جذبے اور خلوص کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے۔
اس کے مقابل مسلم تنظیمیں ہیں ان کی سرگرمیاں اس سمت صفر کے برابر ہیں، شہر کی سڑکوں اور چوراہوں سے گزرتے ہوئے شاید باید ہی کسی مسلم تنظیم کی طرف پانی کا انتظام دکھائی دے گا، حالانکہ یہ ایسا زبردست کام ہے جس میں مسلم تنظیموں کو خوب پیش پیش رہنا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کے متمول طبقہ کو بھی ایسے انتظامات کے لئے کوشش کرنا چاہیے۔ یہ بظاہر چھوٹا کام ہے، لیکن حقیقت کے لحاظ سے بہت اہم اور انتہائی مفید و ضروری ہے۔ پھر انسانی خدمت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے دین کی خدمت بھی ہے، ہمارا دین ایسے تمام انسانی خدمات کے لئے مسلمانوں کو مہمیز کرتا ہے، اور ایسی سرگرمیاں اللہ تعالی کے نزدیک بہت پسندیدہ ہیں، یہ جنت میں داخلہ کا بہترین ذریعہ ہیں، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں، اسی طرح بلاتفریق مذہب رفاہی اور سماجی کاموں سے انسانوں کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں، بھائی چارہ کا فروغ ہوتاہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی قدریں جومٹتی جارہی ہیں اور انسانیت کے سوتے جو خشک ہوتے جارہے ہیں ان کو توانائی ملے گی، اور خودغرضانہ مزاج جس طرح فروغ پا رہا ہے اس پر روک لگ سکی گی۔
احادیث میں انسانی خدمات اور بطور خاص پانی پلانے، پانی کا انتظام کرنے سے متعلق بڑے فضائل مذکور ہیں۔ جب حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے لئے کس طرح کا صدقہ کرنا بہتر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانی، یعنی پانی کا انتظام کرو، چنانچہ حضرت سعد بن عبادہ نے کنواں کھودوا یا اور کہا کہ یہ کنواں میری والدہ کے نام سے وقف ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۱۶۸۳)
ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سعد! میں تجھے ایسے کام بتاؤں جوکرنے کے اعتبارسے ہلکے پھلکے ہیں، لیکن اس کا اجروثواب بہت زیادہ ہے، وہ عمل یہ ہے کہ تم لوگوں کوپانی پلایا کرو۔ (مجمع الزوائد، حدیث نمبر:۴۷۳۰)
حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی ایسے مسلمان کو کپڑا پہنایا جو کپڑے کا ضرورتمند تھا، اللہ تعالی اسے جنت کا کپڑا پہنائیں گے۔ جس نے کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلایا اللہ تعالی جنت کے پھلوں سے اس کی ضیافت فرمائیں گے۔ اور جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے گا اللہ تعالی اسے جنت کی مہربند شراب پلائیں گے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۶۸۴)
ایک صحابی نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول! وہ کون سی چیز ہے جس سے روکنا درست نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نمک، اس صحابی نے دوسری بار یہی سوال کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: پانی، تیسری بار یہی سوال کیا۔ توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: “خیر کے کام کرنا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے”۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۳۴۷۸)
بعض احادیث میں تین آدمیوں کے لئے سخت وعید آئی ہے، ان میں ایک وہ آدمی بھی ہے جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو، لیکن وہ پیاسے مسافر کو پانی نہ دے۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے: “لاینظراللہ الیہم یوم القیامۃ ولایزکیہم ولہم عذاب الیم”۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۲۳۵۸) اللہ تعالی ایسے انسان کی طرف قیامت کے دن نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا، نہ ان کو پاک فرمائے گا، اور ایسے آدمی کے لئے دردناک عذاب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کاشتکاروں سے متعلق فرمایا: کوئی اپنی ضرورت سے زائد پانی دوسروں کو لینے سے منع نہ کرے، اگر ایسا کروگے تواس کی وجہ سے فصل کی کمی ہوجائے گی۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۲۳۵۳)
ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا عمل دریافت کیا جو جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے اس سائل سے پوچھا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں، انہوں نے کہا: نہیں۔ رسول ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو پانی پلاؤ، جب لوگ موجود نہ ہوں توان کے گھروں میں پانی پہونچاؤ اور جب لوگ موجود ہوں تو ان کے لئے پانی کا انتظام کرو۔ (مجمع الزوائد، حدیث نمبر: ۴۷۲۵)
اسلامی شریعت میں انسانوں کے علاوہ جانوروں کو بھی پانی پلانا ثواب ہے؛ احادیث میں اس کا بھی ذکر موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی زمانہ میں ایک آدمی راستہ چل رہاتھا، اسے شدت سے پیاس محسوس ہوئی، اس نے پانی تلاش کیا تو ایک کنواں نظرآیا، وہاں ڈول رسی نہیں تھی، چنانچہ وہ کنواں کے اندر اترا اور سیراب ہو کر پانی پیا، جب وہاں سے آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے بلبلا رہاہے، اس مسافر نے سوچا کہ جس طرح پیاس سے میرا برا حال تھا اسی طرح کتابھی پیاس سے بے چین ہے، چنانچہ وہ کنواں میں اترا، پانی لے جانے کے لئے اس کے پاس کوئی چیز نہیں تھی، لہذا اس نے اپنا خف (چمڑے کا موزہ) نکالا، اس میں پانی بھرا، پھراس خف کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور اس طرح کنویں سے باہرآیا، باہرنکل کراس نے وہ پانی کتا کو پلایا، اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۰۰۹)
پانی پلانے سے متعلق ان خاص فضائل کے پیش نظرمسلمانوں نے ہر دورمیں رفاہی کاموں اور خصوصا کنویں کھودوانے، نہریں بنوانے پر خاص توجہ دی ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات کثرت سے مذکورہیں، خلیفہ ہارون رشید کی اہلیہ زبیدہ کے نہریں کھودوانے کا ذکر کثرت سے کتابوں میں ملتا ہے۔
آج ہر شہر میں مسلم تنظیمیں کثرت سے موجود ہیں، یہ تنظیمیں اپنے کاموں میں اس کام کو بھی شامل کرلیں تو یہ انسانیت کی بڑی خدمت ہوگی، ساتھ مسلمانوں کی نیک نامی کا ذریعہ بھی، یہ تنظیمیں اس کام کو بہتر طریقہ سے انجام دے سکتی ہیں، تھوڑی کوشش کی جائے تو بہت سے نوجوان رضاکارانہ طور پر اس کے تیار ہوجائیں گے۔
ذی حیثیت افراد جو رفاہی اور سماجی کاموں کے لئے سرگرم رہتے ہیں، اگر گرمی کے موسم میں کم ازکم اپنے اپنے گھروں کے سامنے ہی ٹھنڈے پانی کا انتظام کرادیں تو ہزاروں لوگوں اس سے سیراب ہوسکیں گے اور اس کاثواب ان کو اور ان کے مرحومین کوملے گا۔ بڑے اسٹیشنوں پربھی اس طرح کا انتظام ہو تو مسافروں کو بڑی سہولت ہوجائے گی۔ کاش ہماری توجہ اس طرف بھی ہو!

بقلم منورسلطان ندوی، لکھنؤ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں