حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ اور خدمت حدیث

حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ اور خدمت حدیث

جب بھی کسی فن کی خدمت کا تذکرہ آتا ہے، تو لوگوں کا ذہن تصنیفی اور قلمی خدمات کی طرف جاتا ہے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ خدمت کسی علم و فن کی صرف قلمی نہیں ہوتی، اس کے ذرائع تدریس بھی ہیں۔ تقریر بھی، تصنیف بھی تالیف بھی، اور اس فن کو زندہ رکھنے اورآگے بڑھانے کی جدوجہد بھی اسی طرح معاملہ ’’خدمت حدیث‘‘ کا بھی ہے، حضور نبی کریم علیہ التحریم و التسلیم کے اقوال و افعال اور ان کے تصدیق کردہ امورکے مجموعہ کا نام حدیث ہے۔ یہ مجموعہ ہدایت اس لئے ہے تاکہ زندگی کو روشنی ملے،عمل کی راہیں کھلیں، اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو جیسا بنانا چاہا تھا ویسابننے کی کوشش ہوتی رہے۔ اس لئے پہلے لوگوں نے اس مجموعہ ہدایت، حدیث شریف کو یاد کیا سمجھا، سیکھا سکھایا، برتا ، پھر اسے محفوظ کرنے کے لئے کتابیں لکھیں، یہ سارے کام خدمت حدیث سے متعلق ہیں، اسی لئے ہمارے عنوان’’ حضرت امیر شریعت اور خدمت حدیث‘‘ کو بھی دیکھا جائے۔ حضرت اقدس امیر شریعت مولاناسید شاہ منت اللہ صاحب رحمانیؒ نے حدیث کو یاد بھی کیا، سمجھا اور سیکھا بھی، اس پر عمل بھی کیا دوسروں کو سکھایا بھی، اس پر عمل کرنے کی فضا بھی بنائی، اور اس موضوع پر لکھا بھی۔ یہ سب گوشے ہیں جہاں حضرت اقدس امیر شریعت کی خدمات بہت روشن ہیں۔

خدمت حدیث بذریعہ تحریک
حدیث شریف پر عمل کی واضح راہ قانون شریعت پر عمل ہے، حضرت اقدس امیر شریعت نے قانون شریعت کی حفاظت اور اس پر عمل کی راہ کو مستحکم رکھنے کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کیا۔ لوگوں کی ذہنی آبیاری کی، اور قانون اسلامی پر عمل کا جذبہ بیدار کیا۔ انھوں نے مسلم پرسنل لا جیسے خشک اور خالص قانونی اصطلاح کو عوام کے دلوں کی ڈھرکن بنادیا،اور مسلسل ایسی فکری غذا فراہم کرتے رہے اور تحریکی مزاج بناتے رہے کہ مسلم پرسنل لا مسلمانوں کا مسئلہ نمبر ایک بن گیا، اور حدیث شریف کی خدمت تحریکی طور پر جاری ہوگئی۔ اور اس موضوع پر قرآن حدیث کی روشنی میں
*اسلامی قانون (متعلق مسلم پرسنل لا )
*خاندانی منصوبہ بندی
*قانون شریعت کے مصادر اور نئے مسائل کا حل
* مذہب اخلاق اور قانون
* مسلم پرسنل لاکا مسئلہ نئے مرحلہ میں
*مسلم پرسنل لاء بحث و نظر کے چند گوشے
* مسلم پرسنل لاء
* یونیفارم سول کوڈ
جیسی قیمتی کتابیں لکھ کر اس فن کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھنے کی جدو جہد فرمائی۔

حدیث شریف کی تعلیم کا انتظام
صوبہ بہار میں حدیث شریف کی تدریسی اور دورۂ حدیث کی تعلیم کا اہتمام ایک عرصہ سے باقی نہیں رہا تھا، جو ایک بڑا خلا تھا، حضرت اقدس امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے جامعہ رحمانی مونگیر میں تاریخ سازپر وقار اجلاس منعقد فرمایا،اور ملک کے ممتاز علما اور شیوخ (۱)کو بلا کردورۂ حدیث شریف کا افتتاح کروایا، جس سے طلبہ مسلسل فیض یاب ہورہے ہیں، اور جامعہ رحمانی مونگیر میں یہ سلسلہ پچاس سالوں سے قائم ہے، اور حضرت امیر شریعتؒ کی اس خدمت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس طرح بھی حضرت امیر شریعتؒ نے حدیث شریف کی خدمت انجام دی۔

حدیث شریف کے درس کا اہتمام
حضرت اقدس امیر شریعت ؒ نے جامعہ رحمانی کے طلبہ کو دوسری درسیاتی کتابوں کے علاوہ پورے اہتمام کے ساتھ ’’مؤطا امام مالک‘‘ کا درس تقریباً ۲۶ سالوں تک دیا، اپنے درس میں حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے کا طریقہ، حدیث شریف کے آداب، حدیث شریف کی فضیلت اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی ایسی تعلیم دی کہ آج بھی حضرت امیر شریعتؒ کے شاگردوں کے اندر وہ خوبی ہے اور وہ پورے اہتمام کے ساتھ حدیث شریف کے درس دینے کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور درس حدیث کے ذریعہ حدیث شریف کی خدمت جاری ہے،جس خاص اندازہ کے ساتھ حضرت اقدسؒ کی کی گئی خدمت حدیث شریف کی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔اور جامعہ رحمانی میں منعقد ہونے والے اجلاس ختم بخاری شریف کے اہتمام سے ہوتا ہے۔
حضرت امیر شریعتؒ نے درس و تدریس کے ساتھ خدمت حدیث کا ذریعہ اپنے خطابات کو بنایا ہے، اور اپنے خطابات میں حدیث شریف پر عمل اور اس کی حفاظت کی تعلیم اور ہدایت فرماتے رہے۔

خدمت حدیث
قانون شریعت پر عمل نہیں کرنے کا ارادہ انسان کو منکر حدیث بناتا ہے، اسی لئے مختلف ادوار میں انکار حدیث کا فتنہ اٹھا اورمختلف عنوان سے لوگوں نے حدیث کی دینی، شرعی اور عملی حیثیت کو چیلنج کیا۔۶۵؍ سال قبل بھی جب انکار حدیث کی تحریک اٹھی، تو ایک صاحب نے متاثرہوکر حضرت اقدس امیرشریعت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ جب حدیث کی کتابت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عرصہ کے بعد ہوئی، تو پھران سنی سنائی باتوں پر عمل کیسے کیا جائے، اورانھیں دین کی تشریح و تفصیل میں بنیادی حیثیت کس طرح دی جائے، حضرت اقدس امیر شریعتؒ نے اس سوال کا مفصل اور مدلل جواب دیا،اور بتایا کہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن سن کر احادیث لکھا کرتے تھے، بعض صحابہ نے احادیث کا مجموعہ تیار کرلیا تھا،اور اس کا نام بھی رکھا، تابعین اور تبع تابعین بھی احادیث کو جمع کرنے اور قلمبند کرنے میں بڑی جانفشانی سے کام لیتے تھے،اس لئے حدیث کو سنی سنائی باتوں کامجموعہ اور غیر مستندذخیرہ قرار دینا غیر حقیقی اور غیر علمی بات ہے۔
حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جواب کتابی شکل میں بھی شائع ہوا، جس کا نام کتاب حدیث ہے، یہ کتاب مختصر ہے، اور ااسیّ صفحات پرمشتمل ہے، اسمیں بڑی محققانہ گفتگو کی گئی ہے، کتاب کی بڑی ی خصوصیت یہ بھی ہے، کہ خالص علمی بحث وتحقیق کو اتنی آسان زبان میں پیش کیاگیاہے، کہ عام انسان بھی اس سے آسانی کے ساتھ استفادہ کر سکتاہے، کتاب پڑ ھ جائیے ، تواندازہ ہوگا، کہ ان کی نظر حدیث اور تاریخ حدیث پر کتنی گہری تھی ، یہ تحریر ۱۹۵۰ء کی ہے، اس زمانہ میں اس موضوع پر بہت کم کتابیں تھیں، انہوں نے اصل مآ خذکے ہزراروں صفحات کے مطالعہ اور تحقیق کے بعد۸۰؍صفحات میں خلاصہ لکھ دیاہے، اور منکرین حدیث کابہت واضح اور مد لل جواب عالما نہ اندازمیں دیاہے، منکرین حدیث کی بری اہم دلیل یہ ہے، کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے سے روکاتھا ، روایت ہے:
’’عَنْ أَبِیْ سَعِیْد الخُذْرِیؓ قَالَ کُنَّا قُعُوْداً نَکْتُبُ مَا نَسْمَعُ مِنَ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَخَرَجَ عَلَیْنَا فَقَالَ مَا ہٰذا تَکْتُبُوْنَ فَقُلْنَا مَا نَسْمَعُ مِنْکَ فَقَالَ أَ کِتَابٌ مَعَ کِتَابِ اللّٰہِ إِمْحَضُوْا کِتَابَ اللّٰہِ واخْلُصُوہ قَالَ فَجَمَعْنَا مَا کَتَبْنَاھٗ فِی صَعِیْدٍ وَاحِدٍ ثُمَّ اَحْرَقْنَاہٗ‘‘
(مجمع الزوائد ص؍۵۹؍ج۱)
تر جمہ یہ ہے، کہ’’ حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، کہ جوکچھ بھی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا۔ اسے بیٹھ کرلکھ رہے تھے ، کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایاکہ تم لو گ کیالکھ رہے ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ جو کچھ بھی آپ سے سناتھا، ااپ نے فرمایا، کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ساتھ ایک اور کتاب لکھی جارہی ہے، اللہ کی کتاب کو علحدہ کرو اور خالص کر و ، بس ہم نے جو کچھ بھی لکھ تھا ، جمع کرکے جلادیا ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاخود حدیث شریف کالکھوانا،صحابہ کالکھنا، مجمو عے تیار کرنا، نقل کرنا بڑی مضوط حقیقت ہے، دوسری طرف یہ روایت ہے، بظاہر دونوں میں ٹکراؤ نظرآتاہے، حضرت امیرشریعت ؒ نے مختلف روایتوں میں بڑی عمدہ اور واضح تطبیق کی ، اور پھر منکرین حدیث جواس روایت کو بنیادبناکر پورے ذخیرہ حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دے رہے تھے، اسکا بڑ ے لطیف پیرا یہ میں یہ جواب تحریر فرمایا:وہ فرماتے ہیں ’’ اس سلسلہ میں ایک اور بات بھی صاف طریقہ پرسونچنے کی ہے، وہ یہ کہ منکرین حدیث منع کتابت والی حدیث کامطلب غلط بیان کرکے حدیث کے بیش بہااور مستند ذخیرہ کوناقابل اعتبار کہتے ہیں، لیکن آخریہ منع کتابت والی حدیث ان کو ملی کہاں سے؟یہ حدیث بھی ، توانہیں کتابوں میں ہے، جسے وہ غیر مستند تیارہے ہیں، تو پھر تحقیق کا یہ کون ساطر یقہ ہے، کہایک ہی کتاب کی ایک حدیث کوقابل اعتبار قرار دے کر بقیہ پوری کتاب کورد کردیاجائے ، ااور اس کتاب میں جو روایت اپنے خیال کی تا ئید کرتی ہو، اس کوتو صحیح کہاجائے ، اور بقیہ تمام روایتیں غیر مستند ٹھرائی جائیں ،اگر منکرین حدیث ک خیالمیں واقعی پورا ذخیرہ حدیث ناقابل اعتبار ہے، تو منع کتابت والی حدیث کوبطور استدلال پیش کرناکسی طر ح بھی صحیح نہیں‘‘۔ص۶۰
یہ پرزور تر دیدان کے گہرے غور و فکر، استنباج کی صلاحیت اور استد لال کی قوت کاپتہ دیتی ہے، اپنی اس خداداصلاحیت کاحضرت امیرشر یعت رحمتہ اللہ علیہ نے بھر پور استعمال کیا، اور تحریر، تقریر ، تحریک ، وتدریس ، زبان وعلم کواپناکرنہ صرف حد یث شریف کی ناقابل فراموش خدمت انجام دی ، بلکہ دین کے مختلف شعبوں کی بھر پور خدمت کی ،اللہ تعالی ان کی خدمات قبول فرمائے ،اور درجات بلندکرئے(آمین)

حافظ محمد امتیاز رحمانی
بصیرت فیچرس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں