حضرت قاضی شمس الدین گواجرانوالہ رحمہ اللہ

حضرت قاضی شمس الدین گواجرانوالہ رحمہ اللہ

آپ سنہ ۱۹۰۱ء میں پڑی داخلی ناڑاپنڈی گھیپ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی قاضی شیرمحمد مرحوم ہے اور قومیت کے لحاظ سے آپ اعوان تھے۔ آپ نے قرآن کریم تو بعد از فراغِ علوم پنڈی گھیپ میں تدریس کے زمانہ میں حفظ کیا۔ آپ نے ابتدائی کتب اپنے بھائی حضرت مولانا قاضی نورمحمد صاحب سے پڑھیں اور درس نظامی کی بعض کتب حضرت مولانا غلام رسول صاحب انہی شرہف والوں سے پڑھیں اور پھر واں بچھراں ضلع میانوالی میں حضرت مولانا حسین علی صاحب قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تفسیر قرآن سمیت مثنوی مولانا روم اور کچھ مسلم شریف پڑھیں۔
سنہ ۱۹۲۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے وہاں صحیح بخاری اور جامع ترمذی حضرت مولانا سید محمدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کے پاس اور صحیح مسلم حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ سے پڑھی۔ سنن ابی داؤد حضرت مولانا سید اصغر حسین رحمہ اللہ کے پاس اور تفسیر بیضاوی اور معانی آثار طحاوی اور شمائل ترمذی حضرت مولانا رسول خان ہزاروی رحمہ اللہ کے پاس پڑھیں۔ اسی طرح سے کچھ کتب حضرت مولانا اعزازعلی امروہی رحمہ اللہ سے پڑھیں اور سندِ فراغ حاصل کی۔
بعد از فراغت تعلیم آپ ایک سال مدرسی انوارالعلوم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں مدرس رہے اور یہاں آپ نے شرح جامی اور ہدایہ شریف و غیرہ کتب پڑھائیں۔ پھر ۱۹ برس تک مدرسہ خادم الاسلام شرعیہ محلہ دارے والی میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ سنہ ۱۹۴۲ء میں اکابر دیوبند کی دعوت پر دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ جہاں ملاحسن، شرح مسلم العلوم، ہدایہ اخرین، حاشیہ شرح عقائد اور قاضی مبارک و غیرہ کتب زیر درس رہیں۔ بعدازاں ایک سال پنڈی گھیپ میں اور دو سال مدرسہ اشاعت العلوم جامع مسجد فیصل آباد میں پڑھاتے رہے۔ پھر وہاں سے سنہ ۱۹۴۶ء میں گوجرانوالہ تشریف لے آئے اور بارہ تیرہ برس تک مختلف مدارس میں علوم دینیہ پڑھاتے رہے۔
سنہ ۱۹۶۰ء میں آپ نے جامعہ صدیقیہ مجاہد پورہ گوجرانوالہ کی بنیاد رکھی اور آخر دم تک بحیثیت شیخ الحدیث و التفسیر حدیث رسول صلی اللہ علیہ ولسم کے چراغ جلاتے رہے۔ اس دوران تدریس مین ہزاروں طالبان علوم حدیث و تفسیر نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ جن میں حضرت مولانا سرفراز خان صفدر، حضرت مولانا عبیداللہ انور، حضرت مولانا صوفی عبدالحمید، حضرت مولانا مفتی عبدالواحد، حضرت مولانا شاہ زمان محدث دیوبند، حضرت مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری، حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ، حضرت مولانا احمد سعید خان ملتانی۔ حضرت مولانا عبدالرحمن خان، اور حضرت مولانا نصر احمد خان، ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں۔
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور آپ کے قلم فیض رقم سے کئی شاہکار تصانیف منظر عام پر آئیں، جن میں قرآن کریم کی تفسیر ’’تبسیر القرآن‘‘ بخاری کی شرح ’’الہام الباری‘‘ مسلم کی شرح ’’الہام الملہم‘‘، ’’کشف الودود‘‘، ’’شرح سنن ابی داؤد‘‘، ’’تسکین الصدور‘‘، ’’شرح مشکوۃ‘‘، ’’شرح عبدالرسول‘‘، ’’رسالہ تراویح‘‘، ’’مسالک العلماء فی حیات الانبیاء‘‘، ’’انوار البیان فی اسرار القرآن‘‘، اور ’’افادات حسینیہ‘‘ و غیرہ قابل ذکر ہیں۔
آپ نے اپنی حیات طیبہ، دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ، احیائے سنت اور رد بدعت کی خاطر علمی و عملی جد و جہد میں گزاری اور اس سلسلے میں حضرت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان مرحوم اور خطیب الاسلام حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری مدظلہ کے ساتھ مل کر جمعیت اشاعت توحید و سنت کے لائحہ عمل کے مطابق توحید و سنت کی اشاعت و تبلیغ میں مصروف رہے۔ اسی اثناء مین مولوی سلطان محمود پپلوی ضلع میانوالی بریلوی سے اور مولوی محمدعمر اچھروی بریلوی سے مناظرے کئے۔ اور فتح یاب ہوئے۔ اسی طرح مولوی بشیر شیعہ ٹیکسلا والے سے بمقام ڈھیرمونڈ ضلع اٹک میں مناظرہ ہوا۔ اللہ تعالی نے آپ کو کامیابی عطا کی اور باطل کو شکست فاش ہوئی۔ پنڈی گھیپ اور فتح خان میں کچھ مرزائی مبلغین سے مناظرہ ہوا۔ یہاں بھی حق تعالےٰ نے آپ کو سُرخ رو کیا اور مقابل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
الغرض آپ نے ہمیشہ حق و صداقت کا عَلَم بلند رکھا۔ ذاتی غرض و عناد سے نہ صرف اپنی نجی زندگی بلکہ جماعتی زندگی کو بھی پاک رکھا۔ آپ کی جلالت علمی تقوی و ریاضت کے صرف اپنے ہی نہیں غیر بھی معترف تھے۔ آپ نے حضرت مولانا حسین علی صاحب واں بچھراں سے سلوک و تصوف کے منازل طے کئے اور انہی کے ارشادات پر عمل پیرا رہے اور خلیفہ مجاز ہوئے۔
سینکڑوں افراد نے آپ کے فیض علمی و روحانی سے استفادہ کیا اور بالآخر یہ مرد حق ۲۱؍مئی ۱۹۸۵ء ؍۱۱ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ بروز جمعۃ المبارک اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ و اناالیہ راجعون
نماز جنازہ مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری مدظلہ نے پڑھائی اور ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اللہ تعالی درجاتِ عالیہ نصیب فرمائیں۔ آمین!

(مشاہیر علماء جلد ۲؍ ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی)
اکابر علمائے دیوبند، ص۳۹۰۔۳۹۲


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “حضرت قاضی شمس الدین گواجرانوالہ رحمہ اللہ

  1. Huzaifa says:

    in k byanaat kahan se mil sktey hen??

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں