امن مذاکرات ایک دھوکہ

امن مذاکرات ایک دھوکہ

آپ نے بارہا’’امن مذاکرات‘‘ کے متعلق سنا و پڑھاہوگا، آخر یہ کیسا امن مذاکرہ ہے کہ بجائے قیامِ امن وسکون کے مزید بدامنی پھیلتی جارہی ہے۔

درحقیقت یہ امن مذاکرہ جس کو اسرائیل اور اس کو شہ دینے والے امریکہ (بلکہ اقوام متحدہ)شروع کرتے ہیں اس کے پشِ پست ایک تاخیری عمل کا راز مضمر ہے۔
جب جب عالم عرب خصوصاً فلسطینی مجاہدین اور ان کے ہم نوااپنی دفاعی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں اور کسی ٹھوس عملی اقدام کی حیثیت میں آتے ہیں فوراً اسرائیل اوراس کے آقا عالم عرب کو اس اقدام سے باز راکھنے کے لئے اور کسی بھی کاروائی کو مؤخر کرنے کے لئے اور اس درمیان اپنی صلاحیتوں اور پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے’’امن مذاکرات‘‘ کااعلان کردیتے ہیں۔ امن مذاکرات کی ایجاد اور اس کو بروئے کار لانے میں’’ شمعون پیریز‘‘کا بڑاکردار رہا ہے۔
اب یہاں دوچیزیں قابل غور ہیں اولاً ’’عظیم اسرائیل‘‘ دوسرے ’’امن مذاکرات ‘‘۔
’’عظیم اسرائیل‘‘ یہودی حکومت کے کارندوں کے درمیان عظیم اسرائیل کی تشکیل کے لئے اس بات پر اتفاق ہے کہ اس مقصد کا حصول مختلف مراحل سے گزر کر ہوگا ۔ جس کے لئے ’’ لیکوڈ پارٹی اور لیبر پارٹی‘‘ دونوں کے نقطہائے نظریکساں ہیں۔جس وقت جیسے حالات ہوتے ہیں اس وقت ویسی ہی پارٹی کرسی اقتدار پر براجمان ہوکر اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
عظیم اسرائیل کی حد بند ی یانقشہ کھینچتے ہوئے ڈاکٹر پوسٹ قدیم نصوص اور حوالہ سے کہتا ہے کہ ’’ابراہم ؑ سے جس سرزمین (سرزمین موعود یا عظیم اسرائیل ) کاوعدہ موسی ؑ کی کتاب میں کیاگیا تھا وہ طور پہاڑ سے حماۃ کے گیٹ تک اور مصر کی نہر نیل سے نہر فرات تک ہے ۔ اور یہ ساری زمین حضرت سلیمانؑ کے اقتدار کے ماتحت تھی جس کی شمالی سرحد پر ملک شام تھا اور مشرقی سرحد پر فرات اور جنوبی سرحد سینا تک تھی اور مغربی سرحدبحرمتوسط تک تھی‘‘ ۔
مذکورہ بالا خاکہ جو ڈاکٹر پوسٹ کا ہے اس کی ترجمانی کرتے ہوئے تحریک صہیونیت کے عملبرداروںجن میں آسٹریلیا کا مشہور صہیونی صحافی تھیوٹ ہرزل نمایاں اور اولین حیثیت رکھتا ہے جس نے اپنی کامل زندگی ان خو ابو کی تعمیر اور عزائم وارادوکی تنفیذ میں خرچ کردی کہتا ہے کہ ’’ ہمیں داؤد وسلیمان کے فلسطین کو اپنا شعار بناناچاہئے ‘‘۔
ہرزل نے اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے لئے پچاس سالہ منصوبہ بنایا تھا ٹھیک اتنی ہی مدت میں پورہ ہوگیاجس کا اس نے اپنے روزنامچہ میں تذکرہ کیا ہے۔
۱۹۴۷ ؁ء میں جب اقوام متحدہ نے ایک انٹرنیشنل کمیٹی اسرائیلی مملک کے حدود اربعہ کے متعلق تشکیل دی گئی تھی اس وقت ایک یہودی نمائندہ حاخام فیشمین نے ایک نقشہ سامنے رکھاتھا جو یہودی مملکت کے حدودِ اربعہ کی وضاحت کرتا تھا چناچہ اس نے میٹنگ کے دوران برجستگی سے کہاتھا کہ ’’اسکندریہ کے شہر مصرف کے پچھم میں ڈیلٹا کے علاقہ سے دریائے نیل کی طرف جنوبی رخ پر بڑھتے ہوئے،پھر مشرق کے رخ پر سیدھے بڑھ کر جزیرۃ العرب سے گزرتے ہوئے دریائے فرات کے دہانے تک پھر دریائے فرات کے ساحل ، ساحلِ ترکی کے حدود اور شام کی سرحدوں سے گزرتے ہوئے بحر ابیض متوسط کے مشرقی حدود تک ‘‘ اسرئیل ہے جس کو بالاختصاردریائے نیل سے دریائے فرات تک کہ دیا جات ہے ۔
عظیم اسرائیل کی حدود یہیں پوری نہیں ہوتیں بلکہ اس کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے جس کو اسرائیلی دونیلی پٹیوں والے پرچم پر غور سے دیکھا جاسکتا ہے جو درحقیقت دریائے نیل اور دریائے فرات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔اسی طرح اس چھ گوشیہ ستارے کوبھی دیکھا جاسکتا ہے جو یہودیوں کا شعار ہے، اور جس سے اشارہ نام نہاد ستارہ داؤد کی طرف ہے اور جس سے اشارہ حضرتِ داوؤد و سلیمان کی وسیع مملکت کی طرف ہے۔ اسی طرح اسرائیلی پارلیہ مینٹ کے گیٹ پر جو بورڈ لگا ہوا ہے جس میں وعدۂ تورات کا تذکرہ ہے اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ایسے ہی دھات والے اسرائیلی سکے پر بھی ایک نگاہ ڈالی جاسکتی ہے جو گزشتہ دودہائی سے استعمال ہورہا ہے جس پر دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا نقشہ بنا ہوا ہے۔
بہرکیف اس اختصار کے ساتھ ’’ امن مذاکرات ‘‘ پر بھی ایک نظر ڈالئے۔
لیبر پارٹی کا سب سے بڑاداعی ’’شمعون پیریز‘‘ امن معاہدوں کا موجد اول اور منصوبہ ساز رہا ہے ۔ شمعون پیریز اسحاق رابین کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانہ میں رباط، مراکش سے مسقط وعمان تک نام نہادامن وسلامتی کی خاطر دورے کرتا تھا ۔
حاخام ’’ جو ہاشیم برنر‘‘ آخری منصوبہ کی وضاحت کرتے ہیں ۔ ’’متفق علیہ منصوبہ اپنے مظہر اور نفاذ کے لئے بہت آسان ہے اور اس پر کام کرنے والوں کے لئے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے ، اصل بات یہ ہے کہ اس منصوبہ کے رازکا افشاء نہ ہوجس کا نام ’امن منصوبہ ‘ ہے اس پرعمل کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلسل امن وسلامتی کی دعوت دیتے رہیں‘‘ اوراس کے دو مقاصد ہیں :
ایک یہ کہ ہمیں اپنی افواج کو مسلح کرنے اور اپنے جنگی اداروں کو طاقت بہم پہوچانے کا مناسب وقت مل جائے کیوں کہ ابھی تک ایک مناسب اور بڑی جنگ کے لئے ہمارے پاس سازوسامان مکمل نہیں ہے۔
دوسرے یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ روکنا ہے اور حکومتوں کو اپنے مہلک ہتھیا رتباہ کرنے اور اپنے افواج کی تعداد کم کرنے پر مجبور کرنا ہے، ان حکومتوں کے اندر سے فوجی طاقت کو بالکلیہ ختم کرنا ہے، ان کے اندر فوجی اور جنگی اقدامات سے نفرت پیداکرنا ہے ۔جب کہ اسی دوران ہم کو اورہمارے حلیفوں کو آخری درجہ کی جنگی تیاری کرلینی ہے۔
اس مقصد کے حصول وتکمیل کی خاطر آپ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ پوری قوت کے ساتھ امن وسلامتی کی بات رکھیں اور ہر اس طریقۂ کار و نقطۂ نظر کو احمقانہ قرار دیں جو ہتھیار بندی کا داعی ہو، اور ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے ہر اس شخص کو مطعون کیا جائے جو عسکریت کی تائید کرتا ہو، اور دفاعی منصوبہ کی شدید مذمت کی جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دی جائے کہ فوجی مقاصد سے اپنے کو دور کھیں اور اسلحہ و جنگ پر آنے والے اخراجات کو تنقید کا موضوع بنایاجائے۔
برادرانِ اسلام! ہماری اس یک لخت اور اچانک تبدیلی حکمت ِ عملی پر آپ کو تعجب ہوگا اور یہ سوال پیدا ہوگا کہ جنگ کے داعی امن کے داعی کیسے بن رہے ہیں ؟آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جن محرکات نے ہمیں فرانسیسی انقلاب ، پھر روسی انقلاب کو آگ لگانے اور دونوں عالمی جنگوں کو بھڑکانے پر آمادہ کیا تھا آج تاریخ میں پہلی مرتبہ وہی محرکات ہمیں ’’ امن ‘‘ کاداعی بنارہے ہیں آپ پر وہ محرکات مخفی نہیں ہے آپ ہمارے مخصوص منصوبوں سے خوب آگاہ ہیں جنکا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کو ان کے ہتھیاروں سے خالی کردیں تاکہ ہم اپنے اگلی کارروائیوں کے لئے مکمل طور پر مسلح اور تیار ہوجائیں۔
جب ہمیں اپنے منصوبوں کی تکمیل کا یقین ہوجائے گا اس وقت سیٹی بج جائے گی، ہمارے لشکر متعین میدانِ جنگ کی طرف بڑھیں گے اور دشمنوں کے مقابلہ پر بہت آسانی سے قابو پالیں گے کیوں کی ان کی طاقت نہات کمزور ہوگی ۔ اور گرتی ہوئی حکومتوں کوہم ختم کرکے اپنے فتح مندی کا اعلان کردیں گے اور متحدہ حکومت کے سایہ تلے اور اس کے مقدس ستارہ والے پرچم کے نیچے ہم اپنا اقتدار نافذ کردیں گے ‘‘۔
یہ ہے وہ ’’ امن مذاکرہ و امن منصوبہ‘‘ جس پر عرب حکام اسطرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے پروانے شمع پر ٹوٹ تے ہیں ، ان کے وفود ، اعلانیہ اور خفیہ گفت وشنید اور امن معاہدوں کی چوکھٹ پر حاضری دیتے نہیں تھکتے۔ وہ امن کے حال مستقبل کے ساتھ جوا کھیلنے میں مشغول ہیں ۔ یہ سیکولر عربوں کی نادانی، بھول اور حماقتوں کی بدترین مثال ہے۔

ابوالحسنات قاسمی
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں