معاشی استحکام کے 4 نبوی اصول

معاشی استحکام کے 4 نبوی اصول

 

دو چیزیں ایسی ہیں جس فرد ، جس قوم اور جس معاشرے میں پائی جائیں ، وہاں کی معیشت و تجارت روز بروز ترقی کرتی جاتی ہے۔

بالآخر کامیابی و کامرانی اس کی قدم بوسی کرتی ہے اور وہ ملک و قوم، ایک ناقابلِ تسخیر طاقت بن کر عالمِ افق پر تابندہ ستارے کی طرح جگمگانے لگتے ہیں۔ جو دیگر اقوام کو اپنی پیروی کا اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔یہ دو اوصاف صدق و دیانت ہیں۔جبکہ دو ہی چیزیں ایسی ہیں جو معیشت اور تجارت کے لیے سراسر نقصان دہ ہیں۔ جس طرح پہلی دو صفات کی ترغیب اور کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح ان دو بری صفات سے گریز کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ دو چیزیں ہیں: جھوٹ اور منافقت۔
سچائی و صفائی اور دیانت و امانت، جن کی اسلام اپنے پیروکاروں کو بہت ہی زیادہ تاکید کرتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتاہے: ’’قیامت کے دن ایمان دار سچے تاجر کا حشر انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔‘‘ سچائی اور دیانت کی جب مسلمانوں میں پائی جاتی تھی تو مسلمانوں کی نہ صرف معیشت و تجارت بامِ عروج پر تھی، بلکہ ان کی سلطنت کی دھاک بھی اغیار پر بیٹھی ہوئی تھی۔
اس کے بالمقابل دو چیزیں جھوٹ اور منافقت ایسی ہیں کہ اگر کوئی ایک کسی انسان میں داخل ہوجائے تو دوسری بھی ضرور بالضرور اس کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتی ہے۔ کیوں کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جھوٹ اور منافقت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک آدمی جھوٹا ہو اور منافق نہ ہو۔ یعنی جو آدمی جھوٹ بولتا ہے،یہ جھوٹ ہی اس کو منافق بنا دیتا ہے۔ جو منافق ہو، یہ منافقت اس کو جھوٹا بنادیتی ہے۔ ان دونوں کی خاصیت یہ ہے کہ جب یہ کسی معاشرے میں داخل ہوجائیں تو سمجھ لینا چاہیے وہ معاشرہ تباہ و برباد ہونے والا ہے۔

شریعہ اینڈ بزنیس ڈاٹ کام

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں