مطلوب انسان

مطلوب انسان

انسان کی خاصیت ہے کہ وہ ظاہر پرست ہے، وہ اپنے حواس خمسہ سے چیزوں کو دیکھنا، سننا اور تجربہ کرنا چاہتا ہے۔ چنا ں چہ اسی معیار پر وہ کام یابی، ترقی اور خوشی ناخوشی کو بھی پرکھتا ہے، حتی کہ سچ اور جھوٹ، حق اور باطل کافیصلہ کرنے میں بھی اس معیار کو اختیار کرنے میں ذرا تردّد نہیں برتتا۔

 

لیکن یہ انسان کی خوبی نہیں، اس کی کمزوری ہے۔ انسان اپنے ظاہری حواس اور قُویٰ پر کتنا ہی بھروسا کر لے، وہ محدود ہیں او رایک خاص حد تک جاکر ان کی قوت واثر پذیری ختم ہو جاتی ہے۔ آج کی دنیا اس ظاہر پر قائم ہے اور اسی مادی اساس پر بھروسا کرتی ہے۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان زید مجدہ بتایا کرتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے مہتمم حضرت رفیع الدین رحمہ الله تعالیٰ اُمی تھے۔ لکھنے پڑھنے کا کام نہیں کر سکتے تھے جو کچھ لکھنا ہوتا ، کسی آدمی کو بلا کر لکھواتے اور اس کے بعد اپنے نام کی مہر لگاتے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ نے جب انہیں دارالعلوم کا مہتمم مقرر کیا تو مولانا رفیع الدین نے عرض کیا، میں تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا، اہتمام کا کام کیسے کروں گا۔ اس کے لیے تو پڑھا لکھا آدمی چاہیے۔ حضرت نانوتوی نے فرمایا: ضرورت اس کی نہیں کہ پڑھا لکھا ہو، ضرورت اس کی ہے کہ دل پاک ہو۔ یہاں ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس کا دل پاک ہو۔

دل کی اس پاکی کا تعلق، تقوی سے ہے۔ تقویٰ ظاہر کی چیز نہیں اند رکی چیز ہے۔ اس کا اگر ظاہری حواس سے تجربہ کرنا چاہیں اور جدید پیمانوں پر اس کا وزن کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔

الله تعالیٰ کو اصل مطلوب اس کی ظاہری ترقی او رمادّی وجاہت نہیں، الله کا مطلوب انسان تو روحانی ترقی اور الہامی وجاہت سے مزّین ہے۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک اور پھر عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم سے لے کر آج اکیسویں صدی تک اپنے دین کی خدمت کا کام انہیں بوریا نشینوں سے لیا ہے۔

آج دینی مدارس اسی نقش قدم پر محو سفر ہیں ، جہاں دنیاوی ترقی اور عروج کی چمک دمک سے یک سو ہو کر الله کی معرفت کا علم حاصل کرنے اور دنیا کو الله کی معرفت کرانے میں مصروف ہیں۔

مولانا عبید اللہ خالد
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ کراچی)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں