مصر کاصدارتی انتخاب:یہ انتخاب تھا یا انتخاب کا مذاق تھا؟

مصر کاصدارتی انتخاب:یہ انتخاب تھا یا انتخاب کا مذاق تھا؟

مصر کے نئے فرعون جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر میں آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کی ایک اور مثال قائم کردی ہے۔

اسلام پسندوں پر شکنجہ کس کے منصب صدارت پر فائز ہونے کا خواب دیکھنے والے السیسی کو عوام نے زبان حال سے صاف لفظوں میں یہ کہ دیا ہے کہ مصر ی عوام کی پسند اخوان المسلمین ہے، اسلام پسندتنظیمیں ہیں، محمد مرسی ہیں کوئی اور نہیں۔ تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہاریہ کی تحریک سب سے پہلے مصر میں پہونچی تھی۔ جد وجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد حسنی مبارک کے ظالمانہ نظام کا خاتمہ اور اسلامی نظام پر مبنی حکومت کا عظیم تحفہ ملا تھا لیکن اسلام دشمنوں کو یہ راس نہیں آیا اور ٹھیک ایک سال بعد ایک معمولی تحریک کا بہانہ بناکر محمد مرسی کو معزول کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ اخوان المسلمین پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے اس کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔اور اس طرح ایک سال بعد پھر وہی حسنی مبارک کا دور لوٹ کر آگیا۔
جنرل عبد الفتاح السیسی نے قانونی طور پر مصر کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے لئے انتخاب کا سہارا لیا لیکن یہاں بھی کامیابی نہیں ملی ۔گذشتہ 27،28مئی کو مصر میں صدارتی انتخاب ہوا تھا۔ اس انتخاب میں السیسی اور حمد ین صباحی امیدوار تھے ۔دو دن گذرگئے لیکن ووٹنگ بالکل نہیں ہوئی۔ عوامی بائیکاٹ کو دیکھ کر السیسی نے انتخاب کی مدت میں ایک دن اور اضافہ کردیا ۔ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ الیکشن میں شریک نہ ہونے والوں کوسزا دی جائے گی۔ السیسی کی اس دھمگی کا عوام پہ کوئی اثر نہیں ہوا اور ایک دن کے اضافہ کے باوجود عوام نے ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ الیکشن کے دنوں میں پولنگ بوتھ خالی اور ویران پڑاتھا۔ کوئی ووٹ دینے والا نہیں تھا۔ اس صورت حال کی منظر کشی کرتے ہوئے وہاں کے ایک اخبار نے شہ سرخی لگائی تھی۔ حکومت ووٹ کی تلاش میں۔ مصر میں کل پانچ کروڑ 40 لاکھ رجسٹرد ووٹرس ہیں۔ گذشتہ انتخاب میں 52 فی صد سے زائد پولنگ ہوئی تھی۔ محمد مرسی 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے صدر بنے تھے جبکہ حالیہ الیکشن میں پولنگ کی شرح صرف 10 فی صد تھی۔ اخبار نیوز چینل اور سوشل میڈیا میں سے کہیں بھی ووٹنگ کے دوران لگے قطار کی کوئی تصویر شائع نہیں ہوئی۔یہ دس فی صد ووٹ بھی وہاںکے عیسائی شہریوں کے ہیں مسلمانوں کے نہیں ۔
مصر کے حالیہ صدارتی انتخاب کا نتیجہ یہ صاف بتارہا ہے کہ السیسی کو حاصل ہونے والا 93 فیصد ووٹ عیسائیوں کا ہے مسلمانوں کا نہیں ۔وہ مسلمانوں کے درمیان مقبول نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے انہیں نے اپنا صدر منتحب نہیں کیا ہے۔ ان لوگوں نے عالم اسلام کے نامور عالم ‎ ‎دین شیخ یوسف القرضاوی کے اس فتوے کو سرآنگھوں سے لگایا ہے جو انہوں نے بیس روز قبل جاری کیا تھاکہ اقتدار پر شب خون مارنے والے کوووٹ دینا جائز نہیں ہے۔
السیسی نے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لئے میڈیا کے ذریعے 39 فی صدپولنگ کی تشہرکرائی لیکن ایک دن بعد یہ جھوٹ بھی بے نقاب ہوگیا اور دنیا نے واضح طورپر جان لیاکہ السیسی وہاں کے سب سے بڑے ناپسندیدہ لیڈر ہیں، انہوں نے جمہوریت کامذاق اڑایا ہے۔ یہ جس طرح کل آمر اور ڈکٹیٹرشپ تھے آج بھی اسی طرح ہیں۔یہ جمہوری طور پر منتخب شدہ صدر نہیں ہیں۔

بصیرت آن لائن 

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں