بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخی کامیابی

بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخی کامیابی

بھارتی پارلیمان کی 543 نشستوں کے لیے نو مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں کی گنتی جاری ہے جبکہ برسرِاقتدار جماعت کانگریس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق بی جے پی نے 278 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے انتخابی نتائج کے مطابق 543 نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 278 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے جبکہ اس کو 4نشستوں پر برتری حاصل ہے۔
بی جے پی برسراقتدار کانگریس سے بہت آگے ہے اور کانگریس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔
کانگریس کے ترجمان راجیو شکلا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم شکست تسلیم کرتے ہیں اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔‘
بی جے پی کے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی نےگجرات کے شہر وڈودرا میں جیت کے بعد عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب خالص غیرکانگریسی حکومت آئی ہے۔
انھوں نے کہا: ’یہ انتخابات کئی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد زیادہ تر کانگریس کی حکومت رہی ہے اور اگر غیر کانگریسی حکومت آئی بھی ہے تو وہ کئی پارٹیوں کے اتحاد کی حکومت رہی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار خالص طور پر غیر کانگریسی حکومت آئی ہے۔‘
نریندر مودی نے اپنی جیت پر تقریر کرتے ہوئے کہا: ’وڈودرا نے مجھے ریکارڈ ووٹوں سے فتحیاب کراکے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’اب تک ملک میں انتخابات کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں تھی جو آزاد ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب انتخابات کی قیادت آزادی کے بعد پیدا ہونے والے رہنماؤں کے ہاتھوں میں تھی۔ خواہ وہ کانگریس ہو یا پھر بی جے پی۔ اب ملک آزاد ہندوستان میں پیدا ہونے والے افراد کی قیادت میں چلے گا۔‘
بے جے پی اتحاد میں کل 28 پارٹیاں شامل ہیں اور ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اتحاد 249 سے 340 سیٹیں جیت سکتا ہے۔
ان 55 کروڑ شہریوں کے ووٹ 18 لاکھ ووٹنگ مشینوں میں بند ہیں جس کی گنتی صبح آٹھ بجے شروع ہوئی۔
بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار سب سے زیادہ 66.38 فیصد ووٹنگ ہوئی اور 1984 میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والی 64 فیصد ووٹنگ کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار کُل 55.1 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالا جو 2009 کے مقابلے 32 فیصد زیادہ ہے۔
اس بار کُل ووٹروں کی تعداد 81 کروڑ سے زیادہ ( کُل 81,45,91,184 ) تھی جو یورپی یونین کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔
اس بار 2,31,61,296 ووٹر 18-19 سال عمر کے تھے، جن میں سے 58.6 فیصد مرد ووٹر ہیں جبکہ 41.4 فیصد خواتین ووٹرز ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی نتائج کی کنجی ان نئے ووٹروں کے ہاتھ میں ہے۔
انتخابات کے دوران تمام پارٹیوں نے نوجوان ووٹروں کو لبھانے کی ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔ انتخابات کے نتائج یہ بھی بتائیں گے کہ بھارت کی اس نوجوان آبادی کے دل میں کیا ہے۔
بڑی ریاستوں میں اس بار مغربی بنگال (81.8 فیصد)، اوڈیشا (74.4 فیصد) اور آندھر پردیش (74.2 فیصد) میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔
تاہم انتخابی مبصرین کی نظریں سب سے اہم انتخابی ریاست اتر پردیش اور بہار پر مرکوز ہیں لیکن ان دونوں ہی ریاستوں میں اوسطاً کم ووٹنگ ہوئی ہے۔ یوپی میں 58.6 فیصد جبکہ بہار میں 56.5 فیصد پولنگ ہوئی۔
اس بار حکومت ہندوستان نے انتخابات پر کل 3426 کروڑ روپے خرچ کیے جو 2009 کے 1483 کروڑ روپے کے مقابلے 131 فیصد زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 1952 میں ہونے والے پہلے لوک سبھا انتخابات میں صرف 10.45 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔

مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے نہ ڈرے گا
بھارت کے پارلیمانی انتخابات 2014 کے نتائج سے یہ طے ہو گیا ہے کہ بھارت کے اگلے وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہوں گے۔
نریندر مودی کی اکثریت کے ساتھ جیت مسلمانوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ ان کے دل میں مودی حکومت کے خلاف کہیں کوئی خدشہ تو نہیں؟
بعض ایسے ہی سوالات کے ساتھ بی بی سی نے مسلمانوں کی دو نمائندہ شخصیتوں سے بات کی۔ ان میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سید قاسم رسول الیاس اور جمیعت علماء ہند کے محمود مدنی شامل ہیں۔
جمیعت علماء ہند کے مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے ’ہمیں اس بات کا احساس تو انتخابی مہم کے دوران ہی ہو گیا تھا کہ اس بار سیکولر پارٹیاں، کانگریس یا یو پی اے حکومت نہیں بنا پائے گی اور یہ امید تھی کہ بی جے پی حکومت میں آئے گی۔ اب جو انتخابات کے نتائج آئے ہیں وہ حیران کن نہیں ہیں۔‘
تاہم محمود مدنی نے کہا کہ انھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنے ایجنڈے پر قائم رہتی ہے تو ان کے نشانے پر اقلیت اور ان کے مسائل ہوں گے۔
’پہلے بھی مرکز میں بی جے پی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں انھوں نے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان وہاں اپنی شناخت اور دیگر مسائل کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘
محمود مدنی کا خیال ہے کہ مودی حکومت میں کئی اہم مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں جیسے کہ یکساں سول کوڈ یا رام مندر کی تعمیر یا دفعہ 370، لیکن اس بار لوگوں نے ان مسائل سے ہٹ کر ترقی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔
مدنی کے مطابق لوک سبھا انتخابات 2014 کے دوران کہیں ’ہندوتو‘ کا مسئلہ نہیں تھا۔
جمیعت کے محمود مدنی کا کہنا ہے کہ ’یہ بات صحیح ہے کہ بی جے پی نے جس شخص کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے رکھا ان کی کامیابی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ انھوں نے ایک ہندو لیبارٹری کے طور پر گجرات کو تیار کیا تھا۔ اس کے علاوہ سنہ 2002 کے فسادات ان کے اکاؤنٹ میں ہیں۔ ان کو آگے بڑھانے میں یہ ایک بڑا فیکٹر تھا۔‘
محمود مدنی نے مزید کہا: ’بہر حال بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران کوشش کی کہ ان تضادات کو سامنے نہ آنے دیا جائے۔ یہ دکھایا گیا کہ ملک کی آبادی صلح و آشتی اور امن چاہتی ہے۔ ساتھ ہی وہ بدعنوانی سے آزاد سماج بھی چاہتی ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’اگر واقعی بی جے پی یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت دے سکتی ہے تو اسے ان تمام مسائل سے خود کو علیحدہ رکھنا ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ بی جے پی کے لیے خود کو ثابت کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔
دوسری جانب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سید قاسم رسول الیاس کو آنے والی مودی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔
سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ ’مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی ڈرےگا۔ اس ملک میں سماج میں بہت قوی ہے۔ ایسے میں صرف مسلمان کو ہی نہیں کسی کو بھی ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’کوئی آئے اور کوئی جائے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اتحاد، بھائی چارہ اور امن قائم کرنا، لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’نئی حکومت اپنی اس ذمہ داری کو کس طرح ادا کرتی ہے اس کا تو کچھ دن بعد ہی پتہ چلے گا۔ اسی کے بعد یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کیسی ہے کیسی نہیں ہے۔‘

بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں