دجال کے مذہب، اس کے ساتھی، اس کی معاون قوتوں اور شیطانی طاقت [II]

دجال کے مذہب، اس کے ساتھی، اس کی معاون قوتوں اور شیطانی طاقت [II]

بیداری کا وقت

(۳) دجال کی طاقت:
دجال کی معاون قوتوں اور اس کے پاس موجود شیطانی طاقتوں سے آگاہی ہمیں درج ذیل احادیث سے ملتی ہے:

حدیث شریف میں آتاہے:
’’دجال کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جو ایرانی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (صحیح المسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے متعلق کہا: ’’اس کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔ (جو) آگ (نظر آئے گی وہ) ٹھنڈا پانی ہوگا اور (جو) پانی (نظر آئے گا وہ) آگ (ہوگی)۔‘‘ (صحیح البخاری)
’’اس (دجال) کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا (مطلب یہ کہ اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہوں گے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کے لئے وہ نہایت حقیر ہے لیکن اللہ اسے اس کی اجازت دے گا (تا کہ لوگوں کو آزمایا جاسکے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یا دجال پر)۔‘‘ (صحیح البخاری)
’’اور پھر دجال اپنے ساتھ ایک دریا اور آگ لے کر آئے گا۔ جو اس کی آگ میں پڑے گا، اس کو یقیناًاس کا صلہ ملے گا اور اس کا بوجھ کم کردیا جائے گا۔ لیکن جو اس کے دریا میں اترے گا، اس کا بوجھ برقرار رہے گا اور اس کا صلہ اس سے چھین لیا جائے گا۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
’’۔۔۔ ہم نے پوچھا: ’’اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! وہ اس زمین پر کتنی تیزی سے چلے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس طرح ہوا بادلوں کو اُڑالے جاتی ہے۔‘‘ (صحیح المسلم)
’’وہ (دجال) ایک گدھے پر سوار ہوگا۔ اس (گدھے) کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔‘‘ (مسند احمد)
’’اللہ تعالی اس کے ساتھ شیاطین کو بھیجے گا جو لوگوں کے ساتھ باتیں کریں گے۔‘‘ (مسند احمد)
’’وہ ایک بدّو سے کہے گا۔ اگر میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہارے لیے دوبارہ زندہ کروں تو تم کیا کہوگے؟ کیا تم شہادت دوگے کہ میں تمہارا خدا ہوں۔ بدو کہے گا: ہاں! چنانچہ دو شیاطین اس بدو کے ماں اور باپ کے روپ میں اس کے سامنے آجائیں گے اور کہیں گے: ہمارے بیٹے اس کا حکم مانو، یہ تمہارا خدا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
’’الدجال آئے گا لیکن اس کے لیے مدینہ میں داخل ہونا ممنوع ہوگا۔ وہ مدینہ کے مضافات میں کسی بنجر (سیم زدہ) علاقے میں خیمہ زن ہوگا۔ اس دن بہترین آدمی یا بہترین لوگوں میں سے ایک اس کے پاس آئے گا اور کہے گا: میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم وہی دجال ہو جس کا حلیہ ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ الدجال لوگوں سے کہے گا: اگر میں اسے قتل کردوں اور پھر زندہ کردوں تو کیا تمہیں میرے دعویٰ میں کوئی شبہ رہے گا؟ وہ کہیں گے: نہیں! پھر الدجال اسے قتل کردے گا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کردے گا۔ وہ آدمی کہے گا: اب میں تمہاری حقیقت کو پہلے سے زیادہ بہتر جان گیا ہوں۔ الدجال کہے گا: میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ (صحیح بخاری)

اب ہم ان احادیث کی روشنی میں دجال کی قوتوں کو ایک ایک کرکے دیکھتے ہیں:
(۱) اس کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل مثلاً پانی، آگ اور غذا پر ہوگا۔
(۲) اس کے پاس بے تحاشا دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے۔
(۳) اس کی دسترس تمام قدرتی وسائل پر ہوگی۔ مثلاً: بارش، فصلیں، قحط اور خشک سالی و غیرہ۔
(۴) وہ زمین پر اس طرح چلے گا جیسے ہوا بادلوں کو اُڑالے جاتی ہے۔ اس کے گدھے (سواری) کے کانوں کے درمیان ۴۰ ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔
(۵) وہ ایک نقلی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لائے گا۔
(۶) اس کی اعانت و مدد شیاطین کریں گے۔ وہ مردہ لوگوں کی شکل میں بھی ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے گفتگو کریں گے۔
(۷) وہ زندگی اور موت پہ (ظاہری طور پر) قدرت رکھے گا۔
(۸) زندگی اور موت پر اس کا اختیار محدود ہوگا کیونکہ وہ اس مومن کو دوبارہ نہیں کرسکے گا۔

اب آئیے! اس موضوع کی سب سے اہم بحث شروع کرتے ہیں یعنی حدیث شریف میں بیان کردہ دجال کی قوتوں کو عصر حاضر کے تناظر میں تطبیق کی اپنی سی کوشش۔ آج سے پہلے حدیث شریف میں بیان کردہ اکثر حقائق پر ایمان بالغیب کے علاوہ چارہ نہ تھا مگر جوں جوں ہم دجال کے دور طرف بڑھ رہے ہیں یہ حقائق عالم غیب سے اُتر کر عالم شہود کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ دجال مادی قوتوں پر دسترس رکھتا ہوگا اور سائنس مادہ میں پوشیدہ قوتوں کو جاننے اور کام میں لانے کا دوسرا نام ہے، لہٰذا یہودی سرمایہ داروں کے پیسے اور یہودی سائنس دانوں کی محنت سے سائنسی ایجادات جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہیں، دجال کی قوتوں کو سمجھنا آسان ہوتا جارہاہے۔ آیئے! دجال کی قوتوں کو ایک ایک کرکے عصر حاضر کے تناظر میں دیکھتے ہیں:

دولت اور خزانے:
یہ تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی معیشت کو دو ادارے ’’ورلڈ بینک‘‘ اور ’’آئی ایم ایف‘‘ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) چلا رہے ہیں۔ یہ بھی لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کو عالمی معیشت کی نبض کہا جاتا ہے اور دنیا کی معیشت کا انحصار ان دونوں اداروں پر مانا جاتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ ادارے کس طرح مقروض ملکوں پر دباؤ ڈال کر وسائل پر تصرف اور مقاصد پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہیں۔
لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کے چلانے والے ان اداروں کو کون چلاتا ہے؟ ان کو ’’انٹرنیشنل بینکرز‘‘ کا گروپ چلاتا ہے اور اس گروپ کو فری میسنری کے ’’بگ برادرز‘‘ چلاتے ہیں جو دجال کے عالمی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کی معیشت کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرم ہیں۔ کچھ عرصے پہلے ایک کتاب چھپی تھی: ’’کار پوریشنز کی حکومت‘‘ یہ ایک امریکی جوڑے نے لکھی ہے جو بیرونِ امریکا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انسانیت سوز کار روائیوں کو قریب سے دیکھتے رہے اور آخر کار اس بات پر مجبور ہوئے کہ نوکری چھوڑ چھاڑ کر امریکا واپس جائیں اور اپنے ہم وطنوں کو ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کی کارستانیوں سے آگاہ کریں۔ انہوں نے کرنسی نوٹ کے متعلق لکھا کہ آہستہ آہستہ یہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اس کی جگہ کریڈیٹ کارڈ نے لے لی ہے۔ پھر کریڈیٹ کارڈ بھی ختم ہوجائے گا لوگ کمپیوٹر کے ذریعے اعداد و شمار برابر سرابر کریں گے اور بس! ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہوگا۔ بندہ ایک عرصے تک اس جادوئی طلسم کے بارے میں سوچتا رہا کہ اگر نمبروں کا کھیل ہی چیزوں اور خدمات کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا تو پھر یہ دنیا آسان ہوگی یا مشکل؟ نیز اس سے یہود کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کرنسی کے پیچھے سونے کے خاتمے سے لے کر اسٹاک ایکسچینج میں سود اور جوئے کی ترویج تک ہر چیز میں ملوث ہیں۔
تفکر اور مطالعہ جاری تھا کہ ’’ماسٹرز‘‘ کا بنایا ہوا یہ منصوبہ ہاتھ لگا۔ آپ بھی سوچیے اور غور کیجیے کہ علمائے کرام جب غیرشرعی معاملات کے خطرناک نتائج یا مسلم دُشمن طاقتوں کی پالیسی سے آگاہ کریں اور اس کو نہ مانا جائے تو آنے والی دنیا کا منظرنامہ کیا ہوگا:
’’سینٹرل بینک، بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ اور ورلڈ بینک‘‘ کام کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ پرائیویٹ بینک غیر قانونی ہوں گے۔ بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ (BIS) منظر میں غالب ہیں۔ پرائیویٹ بینک، ’’بڑے دس بینکوں‘‘ کی تیاری میں تحلیل ہورہے ہیں۔ یہ بڑے بینک دنیا بھر میں بینکاری پر BIS اور آئی ایم ایف کی رہنمائی میں کنٹرول کریں گے۔ اجرتوں کے تنازعات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی انحراف کی اجازت دی جائے گی۔ جو بھی قانون توڑے گا اسے سزائے موت دے دی جائے گی۔ طبقہ اشرفیہ کے علاوہ کسی کے ہاتھوں میں نقدی یا سکے نہیں دیے جائیں گے۔ تمام لین دین صرف اور صرف کریڈیٹ کارڈ کے ذریعے ہوگا (اور آخر اسے مائیکرو چپ پلانٹیشن کے ذریعے کیا جائے گا) ’’قانون توڑنے والوں‘‘ کے کریڈیٹ کارڈ معطل کردیے جائیں گے۔ جب ایسے لوگ خریداری کے لیے جائیں گے تو انہیں پتا چلے گا کہ ان کا کارڈ بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ وہ خریداری یا خدمات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ پرانے سکوں (یعنی موجودہ کرنسیوں) سے تجارت کو غیرمعمولی جرم قرار دیا جائے گا اور اس کی سزا موت ہوگی۔
ایسے قانون شکن عناصر جو خود کو مخصوص مدت کے دوران پولیس کے حوالے کرنے میں ناکام رہیں ان کی جگہ سزائے قید بھگتنے کے لیے ان کے کسی گھروالے کو پکڑ لیا جائے گا۔‘‘
ان دونوں پیراگرافوں کے آخر میں ’’قتل کی سزا‘‘ کا تذکرہ پوری تاکید اور اہتمام سے ہے۔ تو میرے بھائیو! جب یہود کے چنگل میں پھنس کر بھی آخر کار قتل ہونا یا غلام بن کر رہنا ہے تو مرنے سے پہلے کرنے کا اختیار خود کیوں نہ استعمال کرلیں؟؟؟ اس اختیار کے استعمال کی ایک ہی صورت ہے یعنی پورے عزم اور حوصلہ کے ساتھ شریعت پر استقامت، غیر شرعی اور حرام چیزوں سے ’’کلّی اجتناب‘‘ اور جان و مال، زبان و قلم کا انفاق فی سبیل اللہ۔

پانی اور غذا:
آپ آج کل دیکھ رہے ہوں گے کہ قسماقسم مصنوعی غذائیں قدرتی غذاؤں کہ جگہ لے رہی ہیں۔ بسکٹ، چاکلیٹ، آئس کریم، مکھن، اچار چٹنی اور جام و مربّہ کی خیر تھی، کولڈ ڈرنک اور مصنوعی مشروبات نے تو ایسا میدان مارا ہے کہ گاؤں دیہاتوں میں لوگ دودھ، لسی، سکنجبین، ٹھنڈائی اور تخم ملنگا کو تو بھول ہی گئے ہیں۔ قدرتی دودھ دیہات میں بھی کسی قسمت والے کو ملتا ہے۔ البتہ مصنوعی دودھ بیسیوں اقسام اور ذائقے کا ہر وقت ہر جگہ دستیاب ہے۔ اب تو شہد اور دودھ کے بعد ہر قسم کے کھانے بھی ٹن پیک میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔ دبئی جیسے شہروں میں تو قدرتی ذبیحہ کے لیے اتنی شرائط ہیں گویا ان پر ایک طرح کی پابندی لگ گئی ہے۔ تمام تر غذائیں مصنوعی اور کیمیاوی مادوں سے لبریز ہیں۔ ذرا تصور کیجیے! ایسے شہر کے سہولت پسند باشندوں کا کیا بنے گا جو ایک آدمی کی غذا کا بند و بست نہیں رکھتے اور تمام تر انحصار یہودی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کررہے ہیں۔ جانور مصنوعی نسل کشی کے ذریعے پیدا کیے جارہے ہیں۔ فصلیں مصنوعی بیجوں اور کھادوں سے اُگائی جارہی ہیں۔ جہاں امریکی بیج لگ جائے وہاں کوئی دوسرا بیج نہیں چل سکتا۔ آپ کو ہر مرتبہ کمپنی سے بیج خریدنا پڑے گا ورنہ آپ کی زمین میں دھول اُڑے گی۔ پانی کا تو کہنا ہی کیا، دریاؤں اور چشمہ کا معدنیات اور جڑی بوٹیوں کی تاثیر والا صاف قدرتی پانی تو پیتا ہی وہ ہے جس کے پاس منرل واٹر خریدنے کی سکت نہیں۔ شہروں میں تو فیشن ہوگیا ہے کہ لوگ کہیں ملنے بھی جائیں تو منرل واٹر کی بوتل ہاتھ میں اُٹھاتے پھرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ ’’اسٹیٹس‘‘ کی علامت ہے جبکہ یہ دجالی قوتوں کی سیاست اور طاقت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ اس کا اندازہ دنیا کو اس وقت ہوگا جب انسان کے گلے سے پیٹ میں اُترنے والی ہر چیز مصنوعی ہوجائے گی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہوگی جو بھاری رشوت، دباؤ اور شیطانی، ہتھکنڈوں کے ذریعے مقامی صنعتوں کو تباہ کرنے کے لیے قدرتی دیسی خوراک کی فروخت پرپابندی لگوادیں گی اور پھر دجال اس کو پانی کا ایک قطرہ یا پکی پکائی روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دے گا جو اس کے شیطانی مطالبات نہیں مانے گا۔ پانی اور غذا کو مصنوعی بنانے کی دجالی مہم اس لیے جاری ہے کہ مصنوعی چیز صانع کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ جس کو چاہے بیچے نہ بیچے، دے نہ دے، جبکہ قدرتی چیز قدرت کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کہ پھول اور کانٹوں کا کیساں خیال رکھتی ہے۔ شہر تو شہر ہیں اب تو دیہاتوں میں بھی یہ حال ہے کہ واٹر سپلائی کی اسکیمیں اور ٹینک، پائپ، پن چکیاں و غیرہ این جی اوز لگا کردے رہی ہیں جو آگے چل کر اس پر اجارہ داری قائم کریں گی۔ اور اس طرح شہروں میں تو پانی اور خوراک کے ذخیرے تو ہوں گے ہی ’’عالمی انتظامیہ‘‘ کے ہاتھ میں، دیہات میں بھی قدرتی پانی کسی عام آدمی کے بس میں نہ ہوگا۔ مستقبل میں پانی کے مسئلہ پر دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کے متعلق تو آپ پڑھتے اور سنتے ہی رہتے ہیں، یہ دراصل آگے چل کر دجالی قوتوں کی طرف سے پیدا کیے جانے والے مصنوعی بحران کو اصلی باور کرانے کی ذہن سازی اور مشق ہے۔
مزے کی بات یہ کہ قدرتی پانی کو مضر صحت جبکہ منرل واٹر کو صحت کے لیے مفید بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ صورتِ حال یہ ہے کہ منرل واٹر کے ذریعے اربوں ڈالر کمانے کے ساتھ ساتھ ہماری نسل کو ’’زنخا‘‘ بنایا جارہاہے۔ [اس لفظ کا مطلب کسی پنجابی بھائی سے پوچھ لیں] ہمارے ایک محترم دوست نے جب دیکھا کہ لوگ غیر معیاری پانی بیچ رہے ہیں تو انہوں نے منرل واٹر بنانے کا پلانٹ لگایا۔ ان کا ارادہ تھا معیاری کام کریں گے، چاہے کم نفع ملے۔ جب وہ پلانٹ لگا چکے اور تمام تجربات مکمل کرنے بعد حکومتی نمایندہ اس کی منظوری دینے آیا تو ان کے کام اور لگن کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ لیکن اس کا سوال تھا کہ آپ اس میں ’’وہ‘‘ قطرے ملاتے ہیں یا نہیں؟ ان کو تعجب ہوا کہ کون سے قطرے پانی میں ملائے جاسکتے ہیں؟ کہانی کچھ یوں سامنے آئی کہ انسان کے تولیدی مادے میں دو طرح کے جراثیم ہوتے ہیں۔ ایک کو ’’ایکس کروموسومز‘‘ اور دوسرے کو ’’وائی کروموسومز‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پہلا زیادہ ہو تو اللہ کے حکم سے مذکر اور دوسرا زیادہ ہو تو نو مولود مؤنث پیدا ہوتا ہے۔ دوسری قسم کے قطرے ملائے بغیر پانی کی فروخت کا لائسنس نہیں دیا جاتا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ڈاکٹرز اور ماہرین اس بات کی تصدیق کریں گے یا ناواقفیت اور دباؤ ان کے آڑے آئے گا لیکن بندہ اس کیا کرے کہ میں نے ان دوست کا پلانٹ خود دیکھا اور ان کی بے بسی کی داستان ان کے دفتر میں بیٹھ کر خود سنی۔ اس کو کیسے جھٹلا دوں؟ کیا محض مجھے یہ کہانی سنانے کے لیے انہوں نے اپنا لگا لگایا پلانٹ ٹھپ کردیا ہوگا؟
اس طرح کی کہانیاں دنیا کے کئی حصوں میں جنم لے رہی ہیں۔ دنیا بھر کے انسان پینے کے پانی کے بحران کے ناخوشگوار پہلوؤں سے سمجھوتہ کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی پشت پنا ہی میں بین الاقوامی سطح پر غذا اور پانی فراہم کرنے والی مٹھی بھر کمپنیوں نے انسانی ہمدردی کے نام پر پانی کو اشیائے صرف میں شامل کرکے منافع خوری شروع کردی ہے۔ یہ کمپنیاں کھلے عام ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ میں اپنا غلبہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال مارچ ۲۰۰۵ء میں ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں منعقدہ ورلڈ واٹر فورم کو اسپانسر کیا تھا۔ جس میں قدرتی پانی کے بارے میں مختلف بیماریاں پھیلنے کا منفی پروپیگنڈا اور مصنوعی پانی کو خریدنے کی اہمیت پیدا کرنے کے لیے نت نئے طریقے سوچے گئے اور اربوں ڈالر کی مالیت پر مشتمل منصوبے منظور کیے گئے جنہیں مختلف یہودی کمپنیاں مل کر اسپانسر کریں گی۔

قدرتی وسائل:
یعنی بارش، فصلیں، موسم اور اس کے اثرات قحط، خشک سالی و غیرہ۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ کرۂ ارض کے موسم میں واضح تبدیلیاں آرہی ہیں اور موسم اور ماحول سنگین تباہی سے دوچار ہورہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے مضامین اور سائنسی فیچرز شائع ہورہے ہیں۔ مجموعی درجہ حرارت میں اضافے سے طوفان، سیلاب اور بارشوں کی شرح غیرمعمولی طور پر متغیر ہوگئی ہے۔ اگر چہ اس کو فطری عمل قرار دیا جارہا ہے لیکن در حقیقت یہ تسخیر کائنات کے لیے کی جانے والی ان شیطانی سائنسی تجربات کا نتیجہ اور موسموں کو قابو میں رکھنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے جو مغرب میں جگہ جگہ موجود یہودی سائنس دان حضرت داؤد کی نسل سے عالمی بادشاہ کے عالمی غلبے کی خاطر کررہے ہیں۔ کرہ ارض کا اپنا قدرتی دفاعی نظام جو سورج کی مہلک شعاعوں اور مختلف ستاروں اور سیاروں سے آنے والی تابکار لہروں کو انسانوں تک نہیں پہنچنے دیتا۔ ان خطرناک شعاعوں کو ’’الٹرا وائیلٹ ریز‘‘ کہتے ہیں۔ یہ نظام قدرتی ہے اور اسے ہمارے خالق و مالک اللہ رب العالمین نے وضع کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ۸۸۔۱۸۸۶ء میں ایک امریکی یہودی سائنسدان ’نکولاٹیسلا نے‘ اے سی Alternative Current پاور (بجلی) کا نظام اور اس کی ترسیل کا نظام ایجاد کیا۔ فی سیکنڈ ۶۰ ارتعاشات (ہرٹز) کی اے سی بجلی کے پاور گرڈز زمین پر پھیل جائیں تو کرہ ارض اپنی معمول کی فریکوئنسی ۸۔۷ ہرٹز کی بجائے ایک مختلف رفتار سے اچھلنے لگے گا اور اس سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں آیونی کرہ کی فضا اور موسم کو لازمی طور پر تبدیل کردیں گی۔ آیونی کرے کو گرم کرنے کے لیے ناروے میں قطب شمالی کے نزدیک تجربات کیے جارہے ہیں۔
اس سے موسموں میں حسب منشا تبدیلی آجائے گی۔ اس منصوبے کا اظہار مختلف پیرایوں میں مختلف یہودی اتھارٹیوں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں وہائٹ ہاؤس کے مشیر موسمیات، کیپٹن ہاروڈٹی اور ویل نے کہا تھا کہ محکمہ دفاع ایسے ذرائع اور طریقوں کا جائزہ لے رہا ہے جن کے ذریعے زمین اور آسمان میں آنے والی تبدیلیوں کو استعمال کرکے موسموں پر اثر انداز ہوا جاسکے۔ مثلاً کسی مخصوص حصے میں فضا کو ایک الیکٹرانک بیم کے ذریعے آئیونائزیاڈی آئیونائز کیا جاسکے۔
۹۲۔۱۹۸۷ء کے دوران ’’ایسٹ لنڈ آرکو پاور ٹیکنالوجیز انکار پویٹیڈ‘‘ (APTI) کے سائنس دانوں نے ایک ایسا آلہ پیٹنٹ کرایا جو زمین کے آیونی کرہ یا مقناطیشی کرہ کے کسی حصہ کو تبدیل کرسکتا ہے۔ اگست ۱۹۸۷ء کو رجسٹر ہونے والے اس عسکری ہتھیار کو یہودی سائنس دان برنارڈ جے ایسٹ لنڈ نے ایجاد کیا تھا۔ بالآخر ۲۰۰۱ء کو اس سسٹم کے مکمل طور پر زیر عمل لانے کا مجوزہ سال قرار دیا گیا۔

اس پروجیکٹ کے اہداف یہ ہیں:
(۱) انسانی ذہن کا عمل درہم برہم کرنا۔
(۲) کرہ ارض کے تمام ذرائع مواصلات کو منجمد کرنا۔
(۳) بڑے علاقے میں موسم تبدیل کرنا۔
(۴) وائلڈ لائف کی نقل مکانی کے انداز میں مداخلت کرنا (وائلڈ لائند کے ہر پروگرام میں انیمل مائیکرو چپنگ واضح دیکھی جاتی ہے۔ یہ جنگلی حیات کی تسخیر کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔)
(۵) انسانی صحت کو منفی انداز میں تبدیل کرنا۔ مختلف قسم کی دوائیاں، قطرے، ویکسین و غیرہ کا جبری استعمال اس کی ایک شکل ہے۔
(۶) زمینی فضا کی بالائی سطح پر غیر فطری اثرات مرتب کرنا۔
امریکی سائنس دانوں نے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو موسموں میں تبدیلی سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف موسموں میں تغیر کا ذمہ دار ہے بلکہ کرہ ارض میں زلزلوں اور طوفانوں کے اضافے کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس پروجیکٹ کا نام Haarp یعنی ’’ ہائی فریکوئنسی ایکٹو آرورل ریسرچ پروجیکٹ‘‘ ہے۔ اس کے تحت ۱۹۶۰ء کے عشرے سے یہ تجربات ہورہے ہیں کہ راکٹوں اور مصنوعی سیاروں کے ذریعے بادلوں پر کیمیائی مادے (بیرم پاؤڈر و غیرہ) چھڑ کے جائیں جس سے مصنوعی بارش کی جاسکے۔ یہ ساری کوششیں قدرتی وسائل کو قبضے میں لینے کی ہیں تا کہ دجال جسے چاہے بارش سے نوازے جسے چاہے قحط سالی میں مبتلا کردے۔ جس سے وہ خوش ہو اس کی زمین میں ہریالی لہرائے ور جس سے بگڑ جائے وہاں خاک اُڑے۔ لہذا مسلمانوں کو قدرتی غذاؤں اور قدرتی خوراک کو استعمال کرنا اور فروغ دینا چاہیے۔ یہ ہم سب کے لیے بیدار ہونے کا وقت ہے کہ ہم قدرتی خوراک (مسنون اور فطری خوراک) استعمال کریں اور مصنوعی اشیاء یا مصنوعی طریقے سے محفوظ کردہ اشیاء سے خود کو بچائیں جو آگے چل کر دجالی غذائیں بننے والی ہیں۔ خصوصاً تین مصنوعی چیزیں: مصنوعی آٹا، مصنوعی چکنائی اور مصنوعی میٹھا۔

دوا اور علاج:
پانی اور خوراک پر مکمل قابو پانے کا مرحلہ تو ابھی کچھ دور ہے لیکن دوا تو مکمل طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قابو میں آچکی ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک میں ایسے قوانین منظور کروالیے ہیں کہ دیسی طریقہ علاج اگرچہ آسان اور سستا ہو لیکن ممنوع ہے۔ ان عالمی کمپنیوں کے کارندے مقامی طریقہ علاج (نیز مقامی دوا ساز کمپنیوں) کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ دنیا آہستہ آہستہ ان سے متنفر ہو کر ان بین الاقوامی یہودی کمپنیوں کے چنگل میں پھنس گئی ہے۔ قدرتی جڑی بوٹیوں پر مشتمل علاج پر آہستہ آہستہ مکمل پابندی لگ جائے گی اور دنیا مکمل طور پر یہودی ملٹی نیشنل دواساز کمپنیوں کے نرغے میں آجائے گی۔
یہ جب چاہیں کسی ملک کے مریضوں کو سسکتا تڑپتا چھوڑ کر ان کے مرنے کا تماشا دیکھیں گے۔ یہ دراصل اس عالمی حکومت کا نقشہ ہے جس کے مطابق:
’’تمام ضروری اور غیرضروری ادویاتی مصنوعات، ڈاکٹروں، ڈینٹسٹوں اور ہیلتھ کیئر ورکروں کو سینٹرل کمپیوٹر ڈیٹا بینک میں رجسٹر کیا جائے گا اور کوئی دوائی یا علاج اس وقت تک تجویز نہیں کیا جا سکے گا جب تک ہر شہر، قصبہ یا گاؤں کا ذمہ دار ریجنل کنٹرولر اس کی تحریری اجازت نہیں دے گا۔‘‘ (ڈاکٹر جان کولمین: Consrirators Hierarchy)

دجال کی سواری:
دجال ایسی رفتار کے ساتھ سفر کرے گا جو بادلوں کو اُڑالے جانے والی ہوا کی ہوتی ہے۔ ایسے جہاز ایجاد ہوچکے ہیں جو ہوا سے کئی گنا تیز رفتاری کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔
بلاشبہ یہ جیٹ، کنکورڈ یا سپر سانک قسم کی سواری ہوگی۔ ایک خلائی شسٹل پینتالیس منٹ میں پوری زمین کے گرد کر لگالیتی ہے۔ پُر اسرار اُڑن طشتریوں کا ذکر بھی سننے میں آتا رہتا ہے۔ یہ سب دجال کی سواری کی ممکنہ شکلیں ہیں جو ہمیں بتارہی ہیں کہ دجال کا وقت اب دور نہیں۔ اس کے گدھے کے کانوں کے درمیان ۴۰ ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔ کسی طیارے کے پروں کے درمیان تقریباً اتنا ہی فاصلہ ہوتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی ماہرین نے ہیرون (Heron) نامی ایک طیارہ ایجاد کیا ہے جو اسرائیل کے Palmahim نامی ایئرپورٹ پر کھڑاہے۔ یہ طیارہ سازی کی جدیدترین ٹیکنالوجی کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ اس طیارے کی پہلی پرواز ۱۴؍جولائی ۲۰۰۶ء کو کی گئی جبکہ اسے منظر عام پر ایک سال بعد جون ۲۰۰۷ء کو لایا گیا۔ اس کی بلندترین پرواز ۹ہزار میٹر (۳۰ ہزار فٹ) ہے جبکہ یہ فی الحال ۳۰ گھنٹے تک مسلسل ۲۲۵ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑ سکتا ہے۔ اس کے دونوں پروں کے درمیان ۶۔۱۶ میٹر کا فاصلہ ہے جو ۸۵ فٹ بنتے ہیں۔ قارئین! حدیث شریف میں بیان کردہ مقدار ’’چالیس ہاتھ‘‘ اور اس طیارے کے پروں کے درمیانی فاصلہ ’’۸۵ فٹ‘‘ کے درمیان مناسب کو ملحوظ نظر رکھیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کی دم پر دو اُبھار بالکل گدھے کے کانوں کی طرح اُبھرے ہوئے ہیں۔ انہیں جس زاویے سے بھی دیکھا جائے گدھے کے دو کانوں کی تشبیہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ ممکن ہے اسرائیل کی یہ ٹیکنالوجی مزید ترقی کرے۔ اسی طیارے کی رفتار اور صلاحیت پرواز میں مزید اضافہ ہوا اور اس کا آیندہ ماڈل حدیث شریف میں بیان کردہ نشانیوں کے عین مطابق ہوجائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

جنت اور دوزخ:
یورپ یا امریکا سے باہر رہنے والوں سے مغرب کے بارے میں پوچھیے وہ اسے جنت قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے ملکوں کو جہنم کہتے ہیں۔ دجال کے پاس کچھ اس طرح کی صورت ہوگی جن میں تمام سہولتیں اور آسانیاں ہوں گی اور وہ اسے جنت کہے گا۔ ایسے علاقے جہاں دنیاوی عیش و آرام نہیں ہوں گے انہیں جہنم کہا جائے گا۔

شیطانوں کی اعانت:
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سب سے بہتر و افضل تھے۔ کسی انسان کی تمام تر خوبیاں ان میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جمع تھیں اور ان خوبیوں کی علامت ’’مہرِ نبوت‘‘ کی صورت میں ان کے کندھوں کے درمیان پائی جاتی تھی۔ بُرے انسانوں کی تمام خرابیاں دجال میں جمع ہوں گی اور اس کے چہرے سے عیاں ہوں گی۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’کافر‘‘ لکھا ہوگا۔ اس کی ایک آنکھ اس کی ناقص شخصیت کی علامت ہوگی۔ فرشتوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی، اس کے برعکس دجال کی مدد شیاطین کریں گے۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم آزمائش ہوگی کہ کیا وہ الدجال پہ ایمان لے آتے ہیں یا اللہ پہ ایمان میں استقامت دکھاتے ہیں۔

انسانی آبادی پہ اختیار:
جب سے انسان نے جھوٹ بولنے کا گناہ شروع کیا ہے، انسانی تاریخ میں خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد بیان کرنے سے بڑا جھوٹ شاید نہیں بولا گیا۔ مغرب نے کرۂ ارض کے وسائل چوس لیے، ان پر سانپ بن کر بیٹھ گیا اور پھر اپنا جرم چھپانے کے لیے دنیا سے کہتا ہے وسائل کم ہیں، آبادی نہ بڑھاؤ، بچے کم پیدا کرو۔۔۔ حالانکہ آج بھی زمین کے خزانے اس قدر ہیں کہ کئی گنا زیادہ انسانی آبادی کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کولے لیجیے۔ صرف سندھ یا بلوچستان کے معدنی ذخائر اور صرف پنجاب کی زرخیزترین زمین اور مثالی نہری نظام پورے پاکستان کے لیے کافی ہیں اور صرف پاکستان اور سعودی عرب کے وسائل پورے عالم اسلام کی کفالت کرسکتے ہیں۔ لیکن غضب ہے کہ ان وسائل کو استعمال کرکے مفلوک الحال دنیا کے کام آنے کے بجائے یورپی کمپنیاں ان پر قبضہ جما رہی ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل کو پیدائش سے پہلے گلا گھونٹ کر مارنے کا ظلم عظیم کر رہی ہیں۔ جب ڈنمارک، ہالینڈ و غیرہ میں ڈیری مصنوعات زیادہ ہوتی ہیں تو انہیں غریب ملکوں کو سستا بیچنے یا قحط زدہ ملکوں کو بطور امداد دینے کے بجائے سمندر میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ اس سنگدلی کو کیا نام دیا جائے؟ دنیا میں فی ایکڑا پیداوار سے چار گنا زیادہ ہو رہی ہے، ایک سال میں تین تین فصلیں بھی حاصل کی جارہی ہیں، لیکن محض غیر یہودی آبادی کم کرنے کے لیے وسائل کی کمی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔
اب دجالی قوتوں کے زندگی موت پر اختیار کی طرف واپس آتے ہیں۔ زندگی کا مطلب کسی جسم میں روح کا موجودہ ہونا ہے۔ جب یہ روح نکال لی جاتی ہے تو جسم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ہم اس حالت کو ’’موت‘‘ کہتے ہیں۔ روح پہ غالب آنا ممکن نہیں کیونکہ روح کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اور یہ تم سے روح کے بارے میں ہوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح تو میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں اس کے بارے میں بہت معمولی علم دیا گیا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل ۸۵)
دجال کچھ مواقع پر (کچھ عرصہ کے لیے) اس قابل ہوگا کہ لوگوں کو ہلاک اور پھر زندہ کرسکے اور یہ اس معمولی علم کی بدولت ہوگا۔ وہ یہ کام کس طرح کرے گا؟ غالباً کلوننگ سے آگے کے کسی مرحلے کے ذریعے۔ سائنس دانوں نے انسانی جینیاتی کو ڈپڑھ لیا ہے۔
فی الحال اس سائنسی پیش رفت کو جینیاتی امراض کے علاج کے طور پر پیش کیا جارہا ہے لیکن جب اسے با قاعدہ پلیٹ فارم مل گیا اور لوگوں نے اسے قبول کرلیا تو پھر ’’ہیومن جینوم‘‘ کا قانون بالجبر نافذ کردیا جائے گا۔ اس کا مطلب ایک مکمل جینیاتی برتھ کنٹرول ہے۔ اس کے تحت شادی کرنا غیرقانونی قرار دے دیا جائے گا۔ اس طرح کی خاندانی زندگی نہیں ہوگی جس طرح آج کل ہے۔ بچوں کو ان کے ماں باپ سے چھوٹی عمر میں علیحدہ کردیا جائے گا، ریاستی املاک کی طرح سرکاری وارڈز میں ان کی پرورش ہوگی۔ اس طرح کا ایک تجربہ مشرقی جرمنی میں کیا گیا تھا۔ بچوں کو ان والدین سے الگ کردیا جاتا تھا جنہیں ریاست وفادار نہیں سمجھتی تھی۔
خواتین کو آزادی نسواں کی تحریکوں کے ذریعے ذلیل کردیا جائے گا۔ جنسی آزادی لازم ہوگی۔ خواتین کا بیس سال کی عمر تک ایک مرتبہ بھی جنس عمل سے نہ گزرنا سخت ترین سزا کا موجب ہوگا۔ خود اسقاطِ حمل سے گزرنا سکھایا جائے گا اور دو بچوں کے بعد خواتین اس کو اپنا معمول بنالیں گی۔
ہر عورت کے بارے میں یہ معلومات عالمی حکومت کے علاقائی کمپیوٹر میں درج ہوں گی۔ اگر کوئی عورت دو بچوں کو جنم دینے کے بعد بھی حمل سے گزرے تو اسے زبردستی اسقاط حمل کے کلینک میں لے جایا جائے گا اور آیندہ کے لیے اسے بانجھ کردیا جائے گا۔
جب دجالی قوتیں برتھ کنٹرول پر مکمل عبور حاصل کرلیں گی تو دنیا کا نقشہ کچھ ہوں گا: ’’ایک عالمی حکومت اور ون یونٹ مانیٹری سسٹم، مستقل غیر منتخب موروثی چند افراد کی حکومت کے تحت ہوگا جس کے ارکان قرونِ وسطی کے سرداری نظام کی شکل میں اپنی محدود تعداد میں سے خود کو منتخب کریں گے۔ اس ایک عالمی وجود میں آبادی محدود ہوگی اور فی خاندان بچوں کی تعداد پر پابندی ہوگی۔ وباؤں [یعنی ایڈز اور اس جیسے دوسرے خود ساختی جراثیم] جنگوں اور قحط کے ذریعے آبادی پر کنٹرول کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ صرف ایک ارب نفوس رہ جائیں گے جو حکمران طبقہ [یہ طبقہ یہود کے علاوہ کون ہوسکتا ہے؟] کے لیے کارآمد ہوں گے اور ان علاقوں میں ہوں گے جن کا سختی اور وضاحت سے تعین کیا جائے گا اور یہاں وہ دنیا کی مجموعی آبادی کی حیثیت سے رہیں گے۔‘‘ (ڈاکٹر جان کولمین کی کتاب Conspirators Hierarchy سے مأخوذ)
اے میرے بھائیو! بیدار ہونے کا وقت ہے۔ شریعت کے احکام سمجھ میں نہ بھی آئیں تب بھی انہیں ماننے کی عادت ڈالو۔ مغربی پروپیگنڈہ بازوں کی خلافِ شرع باتوں کا جواب سمجھ میں نہ بھی آئے پھر بھی ان پر یقین نہ کرو۔
مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے خاندانی منصوبہ بندی جیسی ایک نہیں، کئی مہمیں چل رہی ہیں۔ ایک ایک کو کیا بیان کریں۔ جو چیز خلاف شریعت ہے، اسے چھوڑ دو۔۔۔ ورنہ دنیا بھر میں پھیلے ’’برادرز اور ماسٹرز‘‘ اپنے ہدف ’’عالمی دجالی حکومت‘‘ تک پہنچ جائیں گے اور ہم جنانے کس گروہ میں ہوں گے اور کس انجام سے دوچار ہوں گے؟؟؟

مأخوذ از: دجّال (کون؟ کہاں؟ کب؟) جلد اول، صفحہ: ۱۶۲۔۱۷۸، تألیف مفتی ابولبابہ شاہ منصور

دیکھیے اس مضمون کی پہلی قسط اس لنک پر


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں