عالمِ کی موت عالَم کی موت ہے

عالمِ کی موت عالَم کی موت ہے

        عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
        زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں
        تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
        مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے

یہ اشعار شورش کاشمیری نے مولانا ابو الکلام آزاد کے سانحہ وفات پر کہے تھے او راب حال میں کچھ یوں ہوا جس کا بیان کرنا اشک بہائے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ابھی مولانا عباس تھری کے سانحہٴ وفات کا زخم تازہ ہی تھا کہ مولانا عبدالغفور قاسمی کے حادثہ ارتحال نے دلوں پر بجلی گرادی۔ اس الم ناک خبر نے دل ودماغ کو ہر دوسرے موضوع سے بے گانہ کر دیا۔ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جارہا ہے کہ اس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن دین کا ٹھیٹھ مزاج ومذاق اور تقویٰ وطہارت، سادگی وقناعت او رتواضع وللہیت کا البیلا انداز، جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، دھیرے ھیرے ختم ہو رہا ہے۔

مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب  ایسی ہی شخصیت تھے کہ جس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس وناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔

مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب کو پورے پاکستان میں سائیں قاسمی کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اس لیے مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب کو سائیں قاسمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سائیں قاسمی کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ وبہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونا مشکل ہے ۔ ہر فن میں الله تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ علم حدیث ، سائیں قاسمی صاحب  کا خاص موضوع تھا۔ اس فن میں پورے سندھ میں بے مثال تھے۔ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے۔ سائیں وقت کے مناظر اسلام تھے۔ بڑے بڑے مناظر بھی سائیں قاسمی  کے سامنے مثل چراغ بن جاتے تھے۔

مولانا عبدالغفور قاسمی  خوب صورت ، درمیان قد ،سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ کو دیکھتا تو آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گورا سرخی مائل تھا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، داڑھی پوری سنت کے مطابق تھی۔ ان کا چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ با ت کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہ رہتا۔ سائیں قاسمی صاحب  کو الله تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ شاذ ونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔ خاص طور پر سائیں قاسمی  کی اردو اور سندھی تقریریں، جو اتنی بے ساختہ ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کوحظ ملتا ہے ۔ ان میں قدیم وجدید اسالیب اس طرح سے جمع ہو کر یک جان ہو گئے تھے کہ سننے والا جزالت اور سلاست دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا ۔

سائیں قاسمی صاحب 1942 میں حضرت مولانا محمد قاسم میمن کے ہاں پیدا ہوئے۔ اسی وجہ سے مولانا عبدالغفور قاسمی کا لقب قاسمی بن گیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں گجو میمن، جو سجاول سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر جاتی روڈ پر واقع ہے، میں اسکول اور مدرسہ میں ناظرہ پڑھا، مولانا ابراہیم باب الاسلام ٹھٹھہ کے والدمولانا عبدالله1952ء میں ان کو ٹنڈوالہیار کے ایک گاؤں ٹنڈو قیصر لے گئے، وہاں درس نظامی کی ابتدائی کتابیں ایک سال تک پڑھیں۔ اس کے بعد سجاول واپس آئے اور سندھ کے گمنام بزرگ عالم دین مولانا نور محمد صاحب  کے ” مدرسے دارالفیوض الہاشیمہ“ میں بقیہ کتابیں پڑھیں۔ اس جامعہ کی بنیاد1939ء میں حاجی عبدالرحیم شاہ صاحب نے رکھی تھی ۔ قاسمی صاحب  نے دورہٴ حدیث کراچی کی معروف دینی درس گاہ ”جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن“ سے اپنے استاذ خاص اور مولانا انور شاہ کشمیری کے علم کے صحیح جانشین مولانامحمد یوسف بنوری  سے پڑھ کر 1964ء میں سند فراغت حاصل کی ۔ آپ  نے بخاری وترمذی شریف علامہ بنوری سے ، ابوداؤد مولانا محمدسواتی  صاحب سے ، طحاوی شریف مولانا مصباح الله شاہ صاحب سے پڑھی۔ وہ اپنے اساتذہ کی نظر میں بھی انتہائی ذہین، فطین او رقابل طالب علموں میں شمار ہوتے تھے۔ ہمارے اکابر میں حضرت علامہ انو رشاہ کشمیری کا جوغضب کا حافظہ مشہور ہے، سائیں اس کا نمونہ تھے۔ آپ کی قابلیت کی دلیل یہ ہے کہ مولانامحمد یوسف بنوری جیسے عظیم شیخ الحدیث نے آپ کو اپنے جامعہ میں تدریس کی پیش کش کی ، تاہم سائیں قاسمی صاحب  نے اپنے ایک او راستاذ مولانا نور محمد صاحب کے کہنے کی وجہ سے ان سے معذرت کی اور ”دارالفیوض الہاشمیہ“ میں استاذ مقرر ہوئے ۔ مولانا نور محمد کو اپنے اس شاگرد پر خاص ناز تھا۔ اپنے استاذ مولانا نور محمد  کے انتقال کے بعد ان کی مسند سنبھالی اور 42 سال تک بخاری شریف جیسی عظیم کتاب پڑھاتے رہے۔ ہزاروں علماء نے ان کے مدرسے سے فراغت حاصل کی او ر وہ سب اپنے اپنے مقام پر ان کے فیض کو پھیلا رہے ہیں۔

دارالعلوم الہاشمیہ کو مولانا قاسمی نے ایک نئی شان او رنئے نام سے آباد کیا۔ ایک خوب صورت مسجد اور عظیم الشان تعلیمی بلاک تعمیر کروایا۔ ادارے کا نام دارالعلوم الہاشمیہ سے تبدیل کرکے دارالعلوم القاسمیہ رکھا۔ یہ بھی آپ کا عظیم صدقہ جاریہ ہے۔

سندھ میں حضرت مولانا نور محمد  نے ایک تنظیم ” اصلاح المدارس“ کے نام سے قائم کی۔ سندھ کے کئی سو مدارس سائیں قاسمی صاحب  کی زیر سرپرستی رہے۔ انہوں نے سجاول، مٹھی، بدین وغیرہ میں سینکڑوں مساجد ومدارس تعمیر کروائے۔

مرتے دم تک وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے معزّز او رمحترم رکن رہے۔ حضرت شیخ الحدیث، صدر وفاق مولانا سلیم الله خان صاحب زید مجدہ ان کے صاحبزادوں اور جامعہ فاروقیہ، کراچی سے خصوصی محبت تھی۔

جمعیت علماء اسلام کے صوبائی ناظم اعلیٰ بھی رہے۔2 مرتبہ قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ صوبائی نشست پر انتخاب میں حصہ بھی لیا۔

مولانا عبدالغفور قاسمی  کے تلامذہ پورے پاکستان میں سورج کی کرنوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کا شمار کرنامشکل ہے۔ ان لاتعداد شاگردوں میں معروف ومشہور، جن کا شمار مایہ ناز علماء میں ہوتا ہے ، یہ ہیں۔ مولانا محمد عمر مگسی، مولانا صالح الحداد، سجاول، مولانا حسین شاہ سجاولی ایڈیٹر الفاروق رسالہ ،کراچی، مولانا محمد یعقوب سومرو، جنان سرمرو، مولانا محمد علی مگسی، مولانا محمد اسماعیل، ماشکیل، بلوچستان، مولانا مفتی صادق سومرو، جنان سومرو، مولانا عیسیٰ سمون ٹنڈوباگو، مولانا مفتی عبدالقادر شاہ، میرپورخاص، مولانا منظور احمد مینگل، کراچی، مولانا عبدالغفار جمالی، سکھر، مولانا محمد ابراہیم سومرو، مولانا محمد یعقوب کنبر، عمر کوٹ، مولانا عبدالرؤف پنہور، امام الصرف والنحو مولانا عباس تھری ۔

سائیں قاسمی طلبہ کے ساتھ انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے۔ طلبہ بھی ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔سائیں قاسمی  کے مزاج کے سبب طلبہ لطف او رخوشی محسوس کرتے تھے۔ خوش مزاجی، سادگی اور حلم گویا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔ ان کی گفتگو سامع کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی، سامع اگر عالم ہوتا تو گفتگو عالمانہ ہوتی تھی۔ سامع اگر عامی ہوتا تو ان کی گفتگو عامیانہ ہوتی تھی۔ ان کے بیان کا انداز پانی کے بہاؤ کی طرح رواں ہوتاتھا۔ سبق پڑھاتے وقت مشکل سے مشکل مسئلہ کو چٹکیوں میں حل فرمالیا کرتے تھے۔ سائیں قاسمی حق بات ڈنکے کی چوٹ پر بیان کرتے تھے۔ کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی جوانی میں ان کے بیان پر پابندی بھی لگی تھی۔ جب بیان کرتے تو گویا لوگوں پر سحر طاری ہو جاتا، ہمہ تن گوش ہو کر ان کا بیان سنتے تھے۔ دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ گزشتہ ایک دو برس پہلے کراچی میں اسلام زند ہ آباد کانفرنس ہوئی۔ جس میں سائیں بھی شریک ہوئے۔ سائیں کے مرض کی کیفیت یہ تھی کہ شوگر، ایک ٹانگ کٹی ہوئی، لیکن پھر بھی شرکت فرمائی۔ اس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے سائیں قاسمی  نے کہا: میں صرف اس کانفرنس میں علماء کی زیارت کرنے آیا ہوں او رکوئی مقصد نہیں۔ اگر قائد نے حکم دیا تو ہم جان دینے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔

مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب ختم نبوت کانفرنسوں میں بھی کثرت سے شرکت فرمایا کرتے تھے۔ تحریک ختم نبوت تو سائیں کی جان تھی۔ جہاں کہیں قادیانی اپنے باطل فرقے کی تبلیغ کرتے۔آپ ان کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں بھی پہنچ جاتے۔

مجلس تحفظ ختم نبوت کی درخواست پر سائیں نے لندن ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی۔ تب مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید آپ کے ساتھ تھے۔ تو اس وقت سائیں قاسمی نے اس حدیث ”انا اولھم فی الخلق، وآخرھم فی البعث“ پر خطاب کیا۔ خطاب نہیں،بلکہ علم سمندر کا موج زن تھا۔ مجمع پر کیفیت طاری اور گوش برآواز تھا۔ تقریر کے ختم ہوتے ہی مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید نے آپ کا ماتھا چوما اور فرمایا: آپ کی خطابت کے پیچھے کسی بزرگ کی دعا ہے۔ سائیں قاسمی  نے جواب میں کہا: آپ نے صحیح فرمایا۔ مولانا نور محمد کی دعائیں سمیٹنے کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔

حضرت مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب  سخاوت میں بے مثل تھے۔ انہوں نے سندھ کے کئی سو مساجد ومدارس تعمیر کروائے او ران سے مالی تعاون کرتے۔ اگر کوئی فقیرآپ کے پاس آتا تو عام لوگوں کی طرح پانچ کا سکہ نہیں ،بلکہ پانچ سو ہزار کا نوٹ نکال کر دیتے۔ دیگر مختلف موقعوں پر بے دریغ خرچ کرتے تھے۔

سائیں قاسمی  کی علمی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ صرف ، نحو، منطق کے امام تھے۔” دارالفیوض القاسمیہ“ کے شیخ الحدیث او رایک بہت بڑے خطیب بھی تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ جامع المعقول والمنقول تھے۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ وہ علوم عقلیہ اور علوم نقلیہ کے امام تھے۔

مولانا قاسمی  نے سجاول میں معقولات کی تعلیم مولانا سید فیض شاہ صاحب  سے اور مولانا عبدالخالق صاحب  ، بانی جامعہ کبیر والا سے حاصل کی۔

قاسمی صاحب  سادہ، خوش اخلاق تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا سخت،سنجیدہ شخص بھی آپ کی مجلس میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ الله تعالیٰ نے ان کو مناظرانہ صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی۔ ایک جملے میں مخالف کو شکست دے دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سندھ میں ایک مسجد پر جھگڑا ہو گیا۔ گاؤں کے وڈیرے نے کہا: دونوں فریق آپس میں مناظرہ کرو، جو جیت جائے وہی مسجد پر قبضہ کرے گا۔ مولانا عبدالغفور قاسمی  مناظرے کے لیے تشریف لائے اور مد مقابل سے صرف اتنا کہا کہ یہ کتاب جو آپ نے لکھی ہے اس کے اندر فلاں حدیث پر اعراب لگاؤ ،مناظرہ تم جیت گئے اور ہم ہار گئے۔ وہ یہ بھی نہ کر سکا اور میدان مولانا عبدالغفور قاسمی کے ہاتھ رہا۔

سائیں قاسمی صاحب  ایک ممتاز عالم دین، بے لوث مجاہد ختم نبوت اور ایک بزرگ وروحانی شخصیت بھی تھے۔ سائیں قاسمی  کو تمام مذہبی حلقوں میں بھی عزت واحترام اور عقیدت ومحبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بڑے بڑے علماء ان کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھنے کو فخر محسوس کرتے تھے۔

مولانا قاسمی نے3 بھائی 2 بیٹیاں اور ہزاروں شاگرد وعقیدت مند چھوڑے۔ آپ بروز پیر 20 محرم الحرام1435ھ بمطابق25 نومبر2013ء میں اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔ آپ کو آبائی شہر سجاول کے مصری شاہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ انالله وانا الیہ راجعون․

سائیں قاسمی صاحب کی قوت حافظہ، وسعت مطالعہ، ذوق کتب بینی، اکابر واسلاف کے تذکروں سے ان کا شغف دین کے لیے ان کا خاص جذبہ للہیت، ان کی سندھی اور اردو کی تقریریں اور اسباق، دیوبند کے علما اور مسلک سے محبت، ان کا ذوق مہمان نوازی، ان کی باغ وبہار استاذوں اور شاگردوں سے علمی مجلسیں۔ ان میں سے کوئی ایسی چیز نہیں جیسے ہم بھلا سکیں ۔

مولانا قاسمی کی پوری زندگی دین کی خدمت میں گذری۔ ان کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ دین اور دینی داروں سے محبت کی جائے۔ علمائے حق کے زیر سایہ رہ کر ان کی اتباع واطاعت میں اپنی جان بھی پیش کرنے سے پیچھے نہ رہا جائے۔ حق چاہے کتنا بھی کڑوا کیوں نہ ہو اس کو بیان کرنے سے ہرگز پیچھے نہ ہٹنا چاہیے۔ بہرحال سائیں ہمارے والد تھے، ان کے جانے کا صدمہ ہر اس شخص پر بجلی بن کرگرا ہو گا، جوان کی شخصیت سے واقف ہو گا۔ الله تعالیٰ ان کے احباب ورشتے داروں کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔ سائیں قاسمی کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین #
        جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
        کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی

مولانا محمد یعقوب خاصخیلی
الفاروق میگزین

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں