مولاناعبدالحمید: نئی کابینہ میں اہل سنت کونظرانداز کرنے پرافسوس ہوا

مولاناعبدالحمید: نئی کابینہ میں اہل سنت کونظرانداز کرنے پرافسوس ہوا

ایران کے ممتازسنی عالم دین مولانا عبدالحمید اسماعیل نے صدر روحانی کی کابینہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: نئی کابینہ میں اہل سنت کی جگہ خالی ہے؛ نامزد ارکان ووزرا میں کوئی بھی سنی نہیں ہے جو افسوسناک بات ہے۔ نئی حکومت سے میانہ روی اختیارکرنے اور مسالک وقومیتوں کے حقوق یقینی بنانے کی امید رکھتے ہیں۔

عیدالفطر کے موقع پر ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں اپنی شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تقریب حلف برداری میں مسٹر روحانی کی تقریر امیدافزا تھی۔ ڈکٹر روحانی ایک قابل، سمجھدار اور قوی فرد ہیں؛ جیساکہ وہ خود کہتے ہیں ان کی کابینہ کے ارکان کا انتخاب باتجربہ اور اہل شخصیات سے ہوا ہے۔ قوت ودیانت دو ایسی خصوصیات ہیں جو قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں کسی بھی ذمے دار فرد کیلیے ضروری ہیں۔

اہل سنت ایران کے مایہ ناز رہنما نے کہا: ہماری اور سنی ارکان مجلس (پارلیمنٹ) کی تمام تر کوششوں کے باوجود اہل سنت کو کابینہ میں کوئی جگہ نہیں ملی۔ ہماری کوشش تھی کہ نئی کابینہ میں کم ازکم دو سنی شہریوں کو وزارت کیلیے نامزد کیا جائے۔ اہل سنت می قابل ولائق افراد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر روحانی کے مشیروں کا خیال تھا کہ اگر وہ ایسا کریں تو ارکان پارلیمنٹ انہیں نااہل قرار دیں گے۔ ہم نے کہا ڈاکٹر روحانی سنی وزرا نامزد کردے اور ان کا بھرپور دفاع بھی کرے، اگر پارلیمنٹ نے مخالفت کی تو اس ظلم کی ذمہ داری حکومت پر نہیں پارلیمنٹ پر عائد ہوگی۔
 
بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ بات ذہن میں رہے کہ ایرانی اہل سنت کی اکثریت انتخابات سے قبل مسٹر حسن روحانی سے واقف نہیں تھے، ان کی باتیں اور مواقف جان کر انہوں نے روحانی کو ووٹ دیا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے ہمیں کسی سنی کو وزارت کیلیے نامزد کرنے کا وعدہ بھی نہیں دیا ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے اگر وہ ایسا کرتے تو یہ خود ان کیلیے اچھا ہوتا، دنیا میں ایران اور اہل تشیع برادری کے مفاد میں بھی تھا۔ اس سے ان کی عزت بڑھ جاتی اور اہل سنت کو اپنے ملک میں فخر محسوس ہوتا۔

انہوں نے مزیدکہا: شاید جس طرح ڈاکٹر روحانی نے کہا ہے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور انہیں بعض مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے ہر سطح پر ایرانی اہل سنت کو اپنے عوام اور ملک کی خدمت کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ ہم گزشتہ ۳۵سالوں سے محنت کرتے چلے آرہے ہیں کہ ایران میں لسانی ومسلکی اکائیوں کو ان کے حقوق دلوائے جائیں جس طرح آئین میں بھی تصریح ہوئی ہے۔ امیدہے صدر روحانی آئین کے مکمل نفاذ میں کامیاب ہوجائیں، بنیادی آزادیوں اور دینی ومذہبی آزادیوں کو یقینی بنائیں اور سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دیں؛ آئین اور قانون کو درست نفاذ سے خدا اور خلق خدا دونوں راضی ہوں گے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اب تک نئے صدر کے بیانات و موقف کو قومی و بین الاقوامی سطح پر خوب پذیرائی ملی ہے۔ ہمیں اس بات پر خوشی ہوئی کہ صدر نے قومیتوں اور مسالک کے حقوق یقینی بنانے کا وعدہ کیا اور اپنی پالیسی افراط وتفریط سے گریز کرنے پر اعلان کیا۔ اگر وہ قانون پر مکمل عملدرآمد کرائیں تو اکثر مسائل حل ہوں گے۔

انہوں نے مزیدکہا: ہماری چاہت ایران اور اسلام کی عزت ہے۔ نئے صدر سے بھی یہی مطالبہ ہے کہ ایسی پالیسیاں بنائے کہ ملک میں قومی اتحاد ویکجہتی اور بھائی چارہ کو فروغ ملے۔ ہم اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں، لوگوں کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان سب کا حل دن رات کی محنت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

کسی مخصوص دن میں عید منانے پر کوئی دباؤ نہیں ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں عید الفطر کے پرمسرت موقع پر تمام مسلمانوں کو عیدمبارک پیش کرتے ہوئے کہا: بہت سارے مسلم ممالک میں جمعرات (۸اگست) کو عید منائی گئی لیکن چونکہ ہمیں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ملی کہ چاند کہیں ملک میں نظر آیا ہوا ہو، ہم نے جمعے کو شوال کا پہلا دن اعلان کیا۔ بعض لوگوں نے دیگر ملکوں کی تقلید میں جمعرات کو روزہ نہین رکھا، ان کا ایک روزہ چھوٹ گیاہے اور انہیں قضا لانا چاہیے۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین اور مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کے رکن نے مزیدکہا: عید کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ہماری دیانت کا مسئلہ ہے۔ جب بھی ہمیں چاند نظر آئے تو عید یا رمضان کا اعلان کرتے ہیں، اس سلسلے میں ہمیں آزادی حاصل ہے اور ہم پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔

اپنے بڑے بھائی مرحوم حاجی عبداللہ کے انتقال پر اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے غم اور افسوس کے اس سخت لمحے میں ہم سے ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا۔ صوبائی گورنر، رہبر کے نمائندہ اور بہت سارے دیگر شخصیات نے تعزیت کیلیے آنے کی زحمت اٹھائی۔ ہم کسی کی تکلیف کیلیے رضامند نہیں ہیں۔ اندرون و بیرون ملک سے تعزیتی پیغامات بھیجنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

خطاب کے آخر میں زاہدان کی نئی عیدگاہ کی زمین کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہماری اور شہر کے سنی باشندوں کی رائے لیے بغیر بعض اداروں نے شہر کی آبادی سے دور ایک مقام پر کسی میدان کو نماز عید کیلیے صاف کیا ہے۔ حالانکہ ہم نے پہلے بھی کہاہے کہ ہمارے نمازیوں کی اکثریت پیدل پہنچ جاتے ہیں اور عیدگاہ کسی قریبی محلے میں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا: حکام کے وعدے پر بھروسہ کرکے بتلارہاہوں کہ بقرعید کی نماز و تقریب نئی عیدگاہ میں قائم ہوگی جہاں ہم نے زمین مقرر کی ہے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں