داخلہ وخارجہ پالیسیوں پرنظرثانی اور اصلاح وقت کی ضرورت ہے

داخلہ وخارجہ پالیسیوں پرنظرثانی اور اصلاح وقت کی ضرورت ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایران کی بحرانی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ’داخلہ وخارجہ پالیسیوں پر نظرثانی اور ان پالیسیوں کی اصلاح‘ کو ملک بچانے کا واحد راستہ قرار دیا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے چھبیس اپریل کے خطبہ جمعہ میں ایران اور عالم اسلام کے حالاتِ حاضرہ پر رائے دیتے ہوئے کہا: عالم اسلام خاص کر ایران کے حالات اور سیاسی منظرنامے آج سے چار برس قبل کی نسبت سے یکسر مختلف ہیں؛ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہرشخص وقت کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھالے۔

انہوں نے مزیدکہا: چندبرس قبل اگر کوئی ملک کے مسائل و بحرانوں کی بات کرتا تو بعض حکام ناراضگی کا اظہار کرتے لیکن اب یہ مسئلہ روزِروشن کی طرح عیان ہوچکاہے، حتی کہ اعلی حکام بھی اس کا اعتراف کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ایک ذمہ دار ایرانی شہری کی حیثیت سے مجھے حکومت اور حکام کی خدمت میں چند تجاویز پیش کرنی ہے۔ اگرچہ قوی خدشہ ہے کہ بعض لوگ میری ان باتوں کو غرض ورزی پر محمول کریں گے لیکن ہماری ذمہ داری نصیحت و خیرخواہی ہے؛ نبی کریم ﷺ کی وصیت بھی یہی ہے۔ اللہ تعالی دلوں کے اسرار پر واقف ہے؛ ہم کسی بھی خاص گروہ، مذہب یا مسلک کے نقصان کی کوشش نہیں کرتے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: پوری دنیا میں جب کوئی پالیسی ناکام ہوجاتی ہے تو اس کی اصلاح و تبدیلی سے کام آگے بڑھایا جاتاہے۔ یہی حال ہمارا بن چکاہے؛ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ اعلی حکام اپنی ملکی وغیرملکی پالیسیوں پر نظرثانی کرلیں۔ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کیلیے غوروفکر اور اہل نظر کی آراء کی ضرورت ہے تاکہ نئی پالیسیاں وضع کی جائیں۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: انتہائی تعجب کی بات ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعض امیدوار ملکی و غیرملکی پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے معاشی اصلاح کی بات کرتے ہیں، حالانکہ دنیا میں کسی بھی رہنما نے اپنے ملک کے اقتصادی ومعاشی مسائل پر قابو نہیں پایاہے مگرسیاسی اصلاح و تبدیلی کے ساتھ۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم اپنی پالیسیوں کی اصلاح کرکے غلط رویوں کا خاتمہ کریں تو چند دنوں میں ہمارے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں امریکا سمیت کسی بھی مغربی طاقت سے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے، ہم خود ہی اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اظہارِبیان کی آزادیوں میں اضافہ کیاجائے، سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے، ملک کو سکیورٹی زون قرار نہ دیاجائے اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع پر پابندیاں لگانے کے بجائے صرف ان کی مانیٹرنگ کی جائے۔ اسی صورت میں ہماری مشکلات حل ہوجائیں گے۔ ایک جج صاحب نے راتوں رات بارہ قومی اخبارات کی اشاعت پر بیک جنبش قلم پابندی لگادی جنہیں اب خود مسائل کا سامنا ہے، یہ ایک سنگین غلطی تھی۔

ممتاز سنی رہ نما نے کہا: اگر ہم کوشش کریں کہ سیاستدانوں کو جیلوں میں بند کرنے کے بجائے انہیں آزادی فراہم کریں تاکہ ایک درست پلیٹ فارم پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، اور پوری قوم کے اعتماد حاصل کریں چاہے ان کا تعلق کسی بھی برادری سے ہو، ان کی باتیں سنیں اور انہیں اظہارِبیان کا حق دیدیں تو یقیناًہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔

شام وعراق میں کشت وخون کا سلسلہ بند ہونا چاہیے
اپنے بیان کے ایک حصے میں شام و عراق میں جاری کشت وخون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے کہا: شیعہ وسنی کے علماء و دانشور حضرات اپنی نگاہیں وسیع کریں؛ سیاستدانوں اور علمائے کرام کی نگاہیں مسلکی و مشربی نہ ہوں بلکہ ان کی نظریں اور افکار عالمی و اسلامی ہونی چاہییں۔ اسلام دشمن طاقتوں کی کوشش یہی ہے کہ شام وعراق میں جاری لڑائیوں کو فرقہ وارانہ فسادات میں بدل کر عالم اسلام کو ایسی لڑائیوں سے کمزور بنادیں۔ ایران کی خارجہ پالیسیوں میں احتیاط ضروری ہے؛ کہیں ان کی بنیاد کسی مخصوص گروہ اور فرقے کی حمایت پر نہ ہو۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ شام و عراق میں تمام گروہوں کو مناکر انہیں مذاکرات کے میز پر لے آئیں تاکہ مزید کشت وخون کی راہ بند ہوجائے۔ ایسی تجاویز پیش کریں جن سے اللہ تعالی اور اس کے بندے راضی ہوں اور خانہ جنگی کی آگ پر قابو پایا جاسکے؛ اس سے عالمی سامراجی طاقتوں کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم نہیں ہوگا۔

بہترین صدر وہ ہے جو پوری ایرانی قوم اور اہل سنت کے مسائل حل کرے
ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ایران میں آنے والے صدارتی اتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض لوگ پوچھتے ہیں سنی برادری کا ووٹ کس امیدوار کے حق میں جائے گا؟ پہلی بات یہ ہے کہ اب تک ایرانی اہل سنت نے کسی بھی مخصوص فرد یا سیاسی گروہ کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی سے بیعت کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کی نظر میں تخت صدارت کے لائق وہی شخص ہے جو پوری ایرانی قوم کے فلاح و بہبود کا سوچے اور ایرانی اہل سنت کے مسائل و مشکلات حل کرسکے؛ چونکہ ایران کی سنی برادری کو دو سنگین مشکلات کا سامنا ہے، ایک ’مذہبی امتیازی سلوک‘ اور دوسرا ’بہت سارے شہروں میں مذہبی آزادی کا فقدان‘ ہے۔ یہ دیگر مسائل کے علاوہ ہیں۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات کا دائرہ محدود کرنے کے بجائے وسیع تر بنایاجائے تاکہ قوم کا ہرفرد اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے سکے۔ لہذا مختلف سیاسی جماعتوں اور رجحانات کو محروم کرنے کا رویہ غلط اور منطق ودرایت کے خلاف ہے۔

حیاسوز اور فحش اشیا کی فروخت ناجائز ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں فحش اور حیاسوز اشیا کی فروخت کی مذمت کرتے ہوئے کہا: اطلاع پہنچی ہے کہ بازاروں میں بعض لوگ ایسی اشیا فروخت کرتے ہیں جو معاشرے کو بے حیایی اور فساد کی جانب دکھیلتی ہیں۔ ایسے انجکشن اور گولیاں بیچی جارہی ہیں جو نوجوانوں کو منشیات کے عادی بناتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ فحش اور مفسد چیزوں کی فروخت کسی بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، جو پیسہ ایسے کاروبار سے حاصل ہو جائے حرام اور برکت سے خالی ہے۔ یہ کام انسان کی دیانت و دینداری ختم کرتاہے اور اللہ کی ناراضگی کا سبب بن جاتا ہے۔ والدین اپنی اولاد کا خیال رکھیں تا کہ معاشرے کی عفت و حیا مخدوش نہ ہوجائے، بچیوں کا بطور خاص خیال رکھیں جنہیں موبائل فون کے ذریعے بعض فسادی لوگ بے حیایی کی طرف لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی عزت تمہاری اور پورے معاشرے کی عزت ہے۔

مقدسات کی گستاخی صہیونیوں کی مفت خدمت ہے
اپنے بیان کے آخر میں حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تہران میں ایک رکن پارلیمنٹ کی جانب سے اہل سنت کی مقدسات کی گستاخی کی مذمت کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ نے طیش میں آکر اہل سنت کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کی ہے؛ ایسے اقدامات کسی نادان اور ان پڑھ شخص ہی سے صادر ہوسکتے ہیں۔۔ ان گستاخیوں سے شیعہ وسنی میں سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ یہ عالمی صہیونزم اور سامراجیت کی مفت خدمت ہے جس کا فائدہ صرف اسلام کے دشمنوں کو پہنچتاہے۔
انہوں نے ’سسیتان‘ کے نمائندے کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مذکورہ گستاخ فرد کا جواب دیتے ہوئے ردعمل کا اظہار کیاہے۔ امید ہے ’قوم کے گھر‘ مجلس شورا میں آئندہ مقدسات کی توہین نہ کی جائے۔

یادرہے ایرانی اہل سنت کے سرکردہ رہنما مولانا عبدالحمید ملک کے مختلف بحرانوں پر قابو پانے کیلیے اپنی تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں؛ ان میں چند نکات ملاحظہ ہوں:

داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی؛

دنیا کی تمام اقوام نیوکلیئر طاقت و انرجی کو ایرانی قوم کا حق تسلیم کریں؛

ایٹمی ہتھیار ایرانی قوم کے مفاد میں نہیں ہے؛ اس سلسلے میں شفافیت سے کام لیکر مبہم اقدامات سے گریز کیاجائے تاکہ مزید نقصانات کا سدباب ممکن ہو؛

سیاسی آزادی کی فراہمی؛

آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد مختلف افکار کی مشارکت سے ہو؛

امتیازی رویوں کا خاتمہ کرکے اہل سنت کو مذہبی آزادی فراہم کی جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں