’معاش‘ سے زیادہ ’معاد‘ کی فکرکرنی چاہیے

’معاش‘ سے زیادہ ’معاد‘ کی فکرکرنی چاہیے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولاناعبدالحمیددامت برکاتہم نے اپنے بارہ اپریل کے خطبہ جمعہ میں اچھے اوربْرے اعمال کے انجام اور سکرات موت کی سختیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شرک وکفراور معاصی سے اجتناب کونجات کاواحدراستہ قراردیا۔

موت کی حقیقت واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے متعددمقامات پر موت کاتذکرہ فرمایاہے اور انسان کو دنیوی زندگی کی فنائیت کی یاددہانی کرائی ہے۔ ارشادالہی ہے: ’’کل نفس ذائقة الموت و إنما توفون أجورکم یوم القیامة‘‘ ہرذی روح موت کا مزہ ضرور چکے گا اور کسی نہ کسی دن اس دنیاسے رخصت ہوجائے گا۔ لیکن اہم یہ ہے کہ انسان موت کے بعدنجات پائے اور جہنم کی ہولناکیوں سے بچ جائے۔ روزقیامت انسان کواس کے تمام اعمال کے جزا پورا ملے گا، چاہے اعمال اچھے ہوں یابْرے۔ لہذا دنیا کی جھوٹی دمک چمک کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: آئے دن ہم اپنے عزیزوں،رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی وفات کی خبرسنتے ہیں اور ان کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں، کوئی ٹریفک حادثے کاشکارہوتاہے، کوئی زلزلے میں اور کوئی بیماری کی بھینٹ چڑھ جاتاہے؛ یادرکھیں موت کے یہ ظاہری اسباب ہماری جانب رخ کرسکتے ہیں۔ یوں لگتاہے ہمیں یقین نہیں موت ہمیں بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم اللہ تعالی سے ملاقات کوتسلیم کرتے ہیں لیکن اس کیلیے تیاری نہیں کرتے، جہنم اورجنت کومانتے ہیں لیکن جہنم سے نجات اور جنت میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ ایک دن ضرور مرنا ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کے استعمال پرہمیں حساب دیناہوگا، پھرکیوں ہم موت سے غافل ہیں اور روزِقیامت کے سوالوں کے جواب کیلیے تیاری نہیں کرتے؟

بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے قرآنی آیت: ’’وجاءت سکرة الموت بالحق ذلک ما کنت منه تحید‘‘ کی روشنی میں سکرات موت کی دشواریوں اورسختیوں کو یاددلاتے ہوئے کہا: احادیث کے مطابق اگرجانوروں کوموت اور اس کی سختیوں کاپتہ چلتا ہرگز کوئی جانور موٹا اور فربہ نہ ہوتا۔ بلکہ تمام جانورموت کے غم کی وجہ سے نڈھال ہوتے۔ لیکن انسان کو موت، سکرات موت اور اس کی دشواریوں کا بخوبی علم ہے، اس کے باوجود وہ غفلت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ سکرات موت سے کوئی انسان مستثنی نہیں، حتی کہ انبیائے کرام علیہم السلام سکرات سے معاف نہیں تھے۔ خاتم الانبیاء وسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کے وقت انتہائی تکلیف سے گزرنا پڑا یہاں تک کہ آپ کا جسم مبارک شدت حرارت سے گرم ہوا اور ٹھنڈے پانی سے آپ کا چہرہ ٹھنڈا کیاگیا۔ آپﷺ کاقرب اپنے خالق سے زیادہ تھا، اسی لیے آپ کو زیادہ سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ سکرات کے موقع پرجب آپﷺ کی بیٹی فاطمہ بے چین ہورہی تھی آپﷺ نے انہیں مخاطب کرکے ارشادفرمایا کہ غمگین مت ہونا، آپ کے والد اس دنیا میں زندگی کی آخری تکلیفیں برداشت کررہاہے۔

سفرِآخرت کیلیے توشہ تیار کرنے  پرتاکیدکرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: موت حق ہے اورسب کو ضرور لاحق ہو گی۔ ہم سب کو معلوم ہے ہمارے اعمال ہی موت کے بعد ہمارے ساتھ ہوں گے؛ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس دن کیلیے کیا تیاری کی ہے؟ آخرت کا سفریقینی ہے، ہم نے کیا توشہ تیار کیاہے؟ افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے اس فانی دنیا کو اپنے دلوں میں جگہ دی اورپوری زندگی اسی دنیاکے حصول پر لگادی، لیکن اس دن کا نہیں سوچا جو قرآن پاک کی تعبیرمیں بچوں کو بوڑھا بنادیتاہے۔ اس دن بھائی بھائی کو چھوڑ دیتاہے، باپ بیٹے کو  اور دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر پڑیں گے، سب ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچاننے کے باوجود بھاگ جاتے ہیں۔جنت اپنی ناقابل تصورنعمتوں کے ساتھ نیک لوگوں کے انتظارمیں ہے جبکہ جہنم اپنی دہشتناک سزاؤں کے ساتھ برے لوگوں کاانتظار کررہی ہے۔ ہم نے جنت وجہنم سے غفلت کیاہے، قساوت قلبی کی وجہ سے خوف خدا دلوں میں باقی نہیں رہاہے۔ انسان صرف ’معاش‘ کی فکرمیں ہے ’معاد ‘سے غافل ہے حالانکہ نیک لوگ بقدر ضرورت دنیا طلب کرتے ہیں۔ معاش سے زیادہ معاد کی فکر کرنا عقلمندی ہے۔

اسی موضوع پرگفتگو جاری رکھتے ہوئے خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: موت کے وقت روح کا نکلنا اور خروج قدموں سے شروع ہوتاہے، جب روح گلے تک پہنچتی ہے تو تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور انسان کوا س کے اعمال کے ثمرات صاف نظر آتے ہیں۔ نیک وپارسا لوگ اپنے اچھے اعمال کانتیجہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں لیکن برے لوگوں کو حسرت کرناپڑتاہے کہ کاش گناہوں، شرک اورکفر سے دوری کرتے اورآج  یہ ہمارا حال نہ ہوتا۔ جب پردے ہٹ جاتے ہیں جنت وجہنم نظرآئیں گی، فرشتے قبض روح کیلیے آتے ہیں، اچھے لوگ جو اللہ کی خاطر  ہرسختی کو برداشت کیا کرتے تھے، نیکیوں پراستقامت کرتے اوراللہ کو راضی کرنے کی محنت کرتے تھے، انہیں بشارت دی جاتی ہے: ’’و أبشروا بالجنة التی کنتم توعدون‘‘۔ لیکن کم بخت اور بدنصیب لوگوں کے قبض روح کیلیے بدشکل فرشتے آتے ہیں اور اس فرد کو  جہنم اور اس کی ناکامی کی بری خبر سناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی روح مارپیٹ سے نکال دی جاتی ہے۔

مولانا عبدالحمیدنے مزیدکہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے انسان کو نجات کی راہ دکھائی ہے: ’’من کان یرجوا لقاء ربه فلیعمل عملا صالحا‘‘، اگر آپ کو اللہ کی ملاقات کی توقع ہے پھر شرک وکفر اور ریاکاری سے اجتناب کرو، یہ جان لو جب ہمارے دن اور  وقت ختم ہوجائیں تو ایک دم بھی روح بدن کا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ لہذا اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت وبندگی کیاکریں اور پوری طرح موت کیلیے تیار رہیں۔

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی موت وشہادت کے واقعات تفصیل سے بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہمارے اکابر، اسلاف اور بزرگ اس حال سے دنیا سے رخصت ہوگئے جب ان کے دلوں میں دنیا کی محبت نہیں تھی، ذرہ برابر وہ دنیا سے وابستہ نہیں تھے۔ دنیا کے چند دن زندگی ہمارے لیے موقع ہے، اس سنہری موقع کا فائدہ اٹھا کرہمیں آخرت کی ابدی زندگی کیلیے توشہ تیار کرنا چاہیے۔ اپنا وقت لغو اور بیہودہ باتوں میں ضائع مت کریں۔نیک اعمال کی جانب متوجہ ہوں اور خشوع وخضوع سے نمازیں ادا کریں، اپنے تمام اعضا وجوارح کو خیر کی راہ پر لگادیں اور گناہوں سے سخت دوری کریں۔ فلاح وکامیابی اسی میں ہے۔

اہل سنت کی نمازومسجد سے قومی امن کو کیسے خطرہ ہے؟
ممتازسنی عالم دین نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں زاہدان شہر کے سنی عوام کے مسئلہ عیدگاہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس حوالے سے صوبائی حکام کی غفلت ا ور رکاوٹ ڈالنے پرانہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

زاہدان میں فرزندانِ توحید کے مرکزی اجتماع برائے جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: گزشتہ دس سالوں سے حالیہ مرکزی عیدگاہ کی گنجائش ناکافی ہے اور نمازیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔ اسی وقت حکومت سے مطالبہ کیاگیا کہ شہر کے نواح میں کوئی زمین اہل سنت کی عیدگاہ کیلیے الاٹ کی جائے۔ وقت کے گورنر اور شیعہ خطیب نے مسئلے کی بذاتِ خود انکوائری کی اور ہمارے اجتماعات میں شریک ہوئے تو انہیں معلوم ہوا ہمیں کس قدر مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت صوبائی حکام ہمارے اجتماعات میں شریک ہوتے تھے لیکن جب سے قدامت پسندوں کے ہاتھوں میں عنان حکومت آیاہے کوئی اس طرف آنے کی زحمت نہیں کرتا۔ اس وقت موجودہ خصوصی نمائندہ برائے مرشداعلی (جو اب بھی اپنے عہدہ پر ہے) اور گورنر نے تیس ایکڑ زمین الاٹ کرنے پراتفاق کیا، لیکن بعدازآں ایک فردکی مخالفت کی وجہ سے مذکورہ زمین اہل سنت کے بجائے ’انقلابی گارڈذ‘ کے حوالے کیاگیا۔

شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید نے مزیدکہا: کئی سالوں سے ہم شدت کے ساتھ مسئلہ عیدگاہ کے حل کیلیے کوشاں ہیں۔ قبائلی عمائدین، علمائے کرام، دانشورحضرات سمیت ہرطبقے کے لوگوں نے کئی مرتبہ آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندہ خاص، گورنر اورکمشنرسے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں، حتی کہ مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کے پاس انہیں جانا پڑاہے۔ ایک مرتبہ عوام کے دستخط مانگ لیاگیا تو تیس ہزار مردنمازیوں نے طویل وعریض خط لکھ کر دستخط کیا ، ان کے علاوہ سینکڑوں خواتین کے دستخط بھی اس پر موجود ہے۔ جب صدرمملکت یہاں آئے توانہیں بھی خط لکھ دیاگیا، وزیر ہاؤسنگ کو خط لکھ دیاگیا، دونوں حضرات نے ہماری درخواست منظور کرلی لیکن افسوس کی بات ہے کہ کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ میراخیال ہے فساد کی جڑ صوبے ہی میں ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: زاہدان کے سنی باشندوں کو اس حال میں عیدگاہ کیلیے زمین نہیں دی جارہی کہ اہل تشیع کی عیدگاہ کو 27ایکڑ سے بڑھا کر60ایکڑ تک توسیع کی گئی۔ حالانکہ اہل سنت کے نمازیوں کی تعداد شیعہ حضرات کے نمازیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اہل سنت کا تعلق اسی شہر وعلاقہ سے ہے؛ جب یہاں کوئی سیستانی، بیرجندی اور شیعہ آبادکار نہیں تھا مقامی سنی باشندے یہاں رہتے تھے، ہمارے آباؤاجداد نے ملک کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور انگریزوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے جس پر ہمارے قبرستان گواہ ہیں۔ یہ خطہ انہیں لوگوں کا ہے جو بھائی چارہ کے متمنی ہیں۔ اگر شیعہ حضرات کو 60 ایکڑ زمین الاٹ کی جائے اور اہل سنت کو عید کیلیے مشکلات کا سامنا ہو تو یہ بھائی چارہ کی راہ نہیں ہے۔ آج کل اتحاد وبھائی چارہ کی بات بہت کی جاتی ہے لیکن اہم عمل کرنا ہے۔

قومی زمینوں پر بعض حکومتی اداروں کا قبضہ ناجائزہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: مجھے یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتاہے کہ بعض ادارے طویل وعریض زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں حالانکہ یہ زمینیں قومی سرمایہ ہیں اور ان کا استعمال شہر اور عوام کے فلاح وترقی کیلیے ہونا چاہیے۔ انہیں اسی صوبے کے مقامی لوگوں کوفروخت کرنا چاہیے۔ مسلح اداروں کی طاقت زیادہ ہے، وہ زورِ بازو سے زمینوں پرقبضہ کرتے ہیں۔ مسلح اداروں کو ان کی ضرورت کی حدتک زمینیں الاٹ کی جائیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے ادارے قومی زمینوں پر قبضہ جمائیں اور پھر انہیں فروخت کریں؛ فوج، پولیس اورانقلابی گارڈز کیلیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: بہت ساری زمینیں مختلف اداروں کو الاٹ کی گئیں ہیں لیکن جب اہل سنت کانام آتاہے توحکام کیلیے الاٹ کرنا ناممکن ہوتاہے۔ آج مجھے گورنر اور خصوصی نمائندہ برائے رہبر سے شکوہ کرنا ہے جو صدرمملکت اور وزیرہاؤسنگ کے حکم کے باوجود الاٹمنٹ سے گریز کرتے ہیں۔ میراخیال ہے آیت اللہ خامنہ ای کا جواب بھی ’ہاں ‘ میں ہے لیکن صوبائی حکام رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: اس عیدگاہ میں اسی صوبے کے لوگ نماز پڑھیں گے جن سے تمہیں امید ہے کہ کسی حملے کی صورت میں ملک کا دفاع کریں گے، انہیں آپ نے اسلحہ تھمادیاہے کہ آپ کے مخالفین سے لڑیں اور سرحدات کی حفاظت کیاکریں۔ لہذا ہمارا تعلق اسی خاک سے ہے اور ہم بھائی چارہ کے ساتھ آپ کے ساتھ رہتے آرہے ہیں، ہمیں امیدہے ہماری مشکلات حل ہوں گی۔

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کی رہائش پر شیخ الاسلام کا شکوہ
ایرانی اہل سنت کے سب سے بڑے دینی ادارہ دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کے مسئلہ رہائش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: جامعہ کے اساتذہ کو مکان اور رہائش گاہ کے مسئلے کا سامنا ہے ۔اس حوالے سے درخواست دائرکی گئی تو ایسوسی ایشن بنانے کا کہاگیا، ایساہی کیاگیا، لیکن تمام اداروں کو زمینیں الاٹ کی گئیں سوائے دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کے! متعلقہ اداروں کی رکاوٹوں کے بعد ہمیں فری مارکیٹ سے زمینیں لینی پڑی، اساتذہ کے اہل خانہ نے اپنی جیولری بیچ کر پیسہ اکٹھے کیا، اس کے باوجود تعمیری کام کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن اس مسئلے پر ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی، البتہ عیدگاہ کا تعلق ہمارے مذہب سے ہے، دس سال خاموشی کے بعد ہمیں حرفِ شکوہ زبان پر لانا ہی پڑا۔ ایسا نہ ہوہمیں اپنی عبادت کے مسئلے پرمشکلات کا سامناہو اور وہ بھی کسی ’اسلامی‘ ملک میں۔ اسلامیت اور جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کی عبادات کے مسئلے پررکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ بلکہ اس کی تسہیل کی کوشش کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر معاشرے کے تمام طبقوں کی ناراضگی ومخالفت مول لیناپڑے گا۔

ہمارے مسائل کو ’سکیورٹی ایشو‘ بنانا تنگ نظری کی علامت ہے
نامور سنی رہ نما نے اہل سنت کے مسائل کو ’سکیورٹی ایشو‘ بنانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہرمسئلے کو سکیورٹی منظر سے دیکھا جاتاہے۔ جب تہران میں اہل سنت کی مسجد کی بات کی جاتی ہے تو اسے سکیورٹی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ کیوں ہماری نماز ومسجد سکیورٹی مسائل بن چکی ہیں؟ جیسا کہ حکام کے الفاظ سے معلوم ہوتاہے زاہدان میں اہل سنت کوسکیورٹی وجوہات کی بناپر عیدگاہ کیلیے زمین الاٹ نہیں کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے اہل سنت کی مسجد وعیدگاہ سے قومی امن کو کس خطرے سے دوچار ہونا پڑتاہے؟ ہماری نمازیں اور مساجد خطرہ نہیں بلکہ ملک وقوم کیلیے عزت وفخر کے اسباب ہیں جہاں صرف اتحادوبھائی چارہ کی بات کی جاتی ہے۔

ملکی وصوبائی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے عالمی اتحادبرائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: تمام مسائل کو سکیورٹی ایشو نہ بنائیں، جو ہر مسئلے کی جانب سکیورٹی نظر سے دیکھتے ہیں وہ دوراندیش لوگ نہیں ہیں۔ افسوسناک بات ہے کہ ہمارا صوبہ، جامعات ویونیورسٹیز اور مساجد کو سکیورٹی ایشوز بنادیاگیاہے۔ فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہماری رجیم ’اسلامی جمہوریہ‘ کا دعویدار ہے۔ آمرحکمران اپنی قوم سے ڈرتے ہیں اور اپنی حفاظت کیلیے ہرمقام کو سکیورٹی زون قرار دیتے ہیں اور اپنے اردگرد متعدد سکیورٹی لائنز بناتے ہیں؛ جو ایسا ہی کیاکرتے تھے ان کاسبق آموز انجام سب نے دیکھ لیا۔ لہذا کوئی عوامی حکومت اپنی قوم سے نہیں ڈرتی۔

اپنے بیان کے آخری حصہ میں جنوبی ایران کے علاقہ بوشہرمیں زلزلہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے متاثرین سے ہمدردی کا اظہارکیا اور عوام سے درخواست کی متاثرلوگوں کی ہرممکن مدد کریں۔

’معاش‘ سے زیادہ ’معاد‘ کی فکرکرنی چاہیے


خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولاناعبدالحمیددامت برکاتہم نے اپنے بارہ اپریل کے خطبہ جمعہ میں اچھے اوربْرے اعمال کے انجام اور سکرات موت کی سختیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شرک وکفراور معاصی سے اجتناب کونجات کاواحدراستہ قراردیا۔

موت کی حقیقت واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے متعددمقامات پر موت کاتذکرہ فرمایاہے اور انسان کو دنیوی زندگی کی فنائیت کی یاددہانی کرائی ہے۔ ارشادالہی ہے: ’’کل نفس ذائقة الموت و إنما توفون أجورکم یوم القیامة‘‘ ہرذی روح موت کا مزہ ضرور چکے گا اور کسی نہ کسی دن اس دنیاسے رخصت ہوجائے گا۔ لیکن اہم یہ ہے کہ انسان موت کے بعدنجات پائے اور جہنم کی ہولناکیوں سے بچ جائے۔ روزقیامت انسان کواس کے تمام اعمال کے جزا پورا ملے گا، چاہے اعمال اچھے ہوں یابْرے۔ لہذا دنیا کی جھوٹی دمک چمک کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: آئے دن ہم اپنے عزیزوں،رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی وفات کی خبرسنتے ہیں اور ان کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں، کوئی ٹریفک حادثے کاشکارہوتاہے، کوئی زلزلے میں اور کوئی بیماری کی بھینٹ چڑھ جاتاہے؛ یادرکھیں موت کے یہ ظاہری اسباب ہماری جانب رخ کرسکتے ہیں۔ یوں لگتاہے ہمیں یقین نہیں موت ہمیں بھی لاحق ہوسکتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم اللہ تعالی سے ملاقات کوتسلیم کرتے ہیں لیکن اس کیلیے تیاری نہیں کرتے، جہنم اورجنت کومانتے ہیں لیکن جہنم سے نجات اور جنت میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ ایک دن ضرور مرنا ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کے استعمال پرہمیں حساب دیناہوگا، پھرکیوں ہم موت سے غافل ہیں اور روزِقیامت کے سوالوں کے جواب کیلیے تیاری نہیں کرتے؟

بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے قرآنی آیت: ’’وجاءت سکرة الموت بالحق ذلک ما کنت منه تحید‘‘ کی روشنی میں سکرات موت کی دشواریوں اورسختیوں کو یاددلاتے ہوئے کہا: احادیث کے مطابق اگرجانوروں کوموت اور اس کی سختیوں کاپتہ چلتا ہرگز کوئی جانور موٹا اور فربہ نہ ہوتا۔ بلکہ تمام جانورموت کے غم کی وجہ سے نڈھال ہوتے۔ لیکن انسان کو موت، سکرات موت اور اس کی دشواریوں کا بخوبی علم ہے، اس کے باوجود وہ غفلت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ سکرات موت سے کوئی انسان مستثنی نہیں، حتی کہ انبیائے کرام علیہم السلام سکرات سے معاف نہیں تھے۔ خاتم الانبیاء وسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کے وقت انتہائی تکلیف سے گزرنا پڑا یہاں تک کہ آپ کا جسم مبارک شدت حرارت سے گرم ہوا اور ٹھنڈے پانی سے آپ کا چہرہ ٹھنڈا کیاگیا۔ آپﷺ کاقرب اپنے خالق سے زیادہ تھا، اسی لیے آپ کو زیادہ سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ سکرات کے موقع پرجب آپﷺ کی بیٹی فاطمہ بے چین ہورہی تھی آپﷺ نے انہیں مخاطب کرکے ارشادفرمایا کہ غمگین مت ہونا، آپ کے والد اس دنیا میں زندگی کی آخری تکلیفیں برداشت کررہاہے۔

سفرِآخرت کیلیے توشہ تیار کرنے پرتاکیدکرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: موت حق ہے اورسب کو ضرور لاحق ہو گی۔ ہم سب کو معلوم ہے ہمارے اعمال ہی موت کے بعد ہمارے ساتھ ہوں گے؛ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس دن کیلیے کیا تیاری کی ہے؟ آخرت کا سفریقینی ہے، ہم نے کیا توشہ تیار کیاہے؟ افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے اس فانی دنیا کو اپنے دلوں میں جگہ دی اورپوری زندگی اسی دنیاکے حصول پر لگادی، لیکن اس دن کا نہیں سوچا جو قرآن پاک کی تعبیرمیں بچوں کو بوڑھا بنادیتاہے۔ اس دن بھائی بھائی کو چھوڑ دیتاہے، باپ بیٹے کو اور دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر پڑیں گے، سب ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچاننے کے باوجود بھاگ جاتے ہیں۔جنت اپنی ناقابل تصورنعمتوں کے ساتھ نیک لوگوں کے انتظارمیں ہے جبکہ جہنم اپنی دہشتناک سزاؤں کے ساتھ برے لوگوں کاانتظار کررہی ہے۔ ہم نے جنت وجہنم سے غفلت کیاہے، قساوت قلبی کی وجہ سے خوف خدا دلوں میں باقی نہیں رہاہے۔ انسان صرف ’معاش‘ کی فکرمیں ہے ’معاد ‘سے غافل ہے حالانکہ نیک لوگ بقدر ضرورت دنیا طلب کرتے ہیں۔ معاش سے زیادہ معاد کی فکر کرنا عقلمندی ہے۔

اسی موضوع پرگفتگو جاری رکھتے ہوئے خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: موت کے وقت روح کا نکلنا اور خروج قدموں سے شروع ہوتاہے، جب روح گلے تک پہنچتی ہے تو تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور انسان کوا س کے اعمال کے ثمرات صاف نظر آتے ہیں۔ نیک وپارسا لوگ اپنے اچھے اعمال کانتیجہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں لیکن برے لوگوں کو حسرت کرناپڑتاہے کہ کاش گناہوں، شرک اورکفر سے دوری کرتے اورآج یہ ہمارا حال نہ ہوتا۔ جب پردے ہٹ جاتے ہیں جنت وجہنم نظرآئیں گی، فرشتے قبض روح کیلیے آتے ہیں، اچھے لوگ جو اللہ کی خاطر ہرسختی کو برداشت کیا کرتے تھے، نیکیوں پراستقامت کرتے اوراللہ کو راضی کرنے کی محنت کرتے تھے، انہیں بشارت دی جاتی ہے: ’’و أبشروا بالجنة التی کنتم توعدون‘‘۔ لیکن کم بخت اور بدنصیب لوگوں کے قبض روح کیلیے بدشکل فرشتے آتے ہیں اور اس فرد کو جہنم اور اس کی ناکامی کی بری خبر سناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی روح مارپیٹ سے نکال دی جاتی ہے۔

مولانا عبدالحمیدنے مزیدکہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے انسان کو نجات کی راہ دکھائی ہے: ’’من کان یرجوا لقاء ربه فلیعمل عملا صالحا‘‘، اگر آپ کو اللہ کی ملاقات کی توقع ہے پھر شرک وکفر اور ریاکاری سے اجتناب کرو، یہ جان لو جب ہمارے دن اور وقت ختم ہوجائیں تو ایک دم بھی روح بدن کا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ لہذا اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت وبندگی کیاکریں اور پوری طرح موت کیلیے تیار رہیں۔

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی موت وشہادت کے واقعات تفصیل سے بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہمارے اکابر، اسلاف اور بزرگ اس حال سے دنیا سے رخصت ہوگئے جب ان کے دلوں میں دنیا کی محبت نہیں تھی، ذرہ برابر وہ دنیا سے وابستہ نہیں تھے۔ دنیا کے چند دن زندگی ہمارے لیے موقع ہے، اس سنہری موقع کا فائدہ اٹھا کرہمیں آخرت کی ابدی زندگی کیلیے توشہ تیار کرنا چاہیے۔ اپنا وقت لغو اور بیہودہ باتوں میں ضائع مت کریں۔نیک اعمال کی جانب متوجہ ہوں اور خشوع وخضوع سے نمازیں ادا کریں، اپنے تمام اعضا وجوارح کو خیر کی راہ پر لگادیں اور گناہوں سے سخت دوری کریں۔ فلاح وکامیابی اسی میں ہے۔

اہل سنت کی نمازومسجد سے قومی امن کو کیسے خطرہ ہے؟
ممتازسنی عالم دین نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں زاہدان شہر کے سنی عوام کے مسئلہ عیدگاہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس حوالے سے صوبائی حکام کی غفلت ا ور رکاوٹ ڈالنے پرانہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

زاہدان میں فرزندانِ توحید کے مرکزی اجتماع برائے جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: گزشتہ دس سالوں سے حالیہ مرکزی عیدگاہ کی گنجائش ناکافی ہے اور نمازیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔ اسی وقت حکومت سے مطالبہ کیاگیا کہ شہر کے نواح میں کوئی زمین اہل سنت کی عیدگاہ کیلیے الاٹ کی جائے۔ وقت کے گورنر اور شیعہ خطیب نے مسئلے کی بذاتِ خود انکوائری کی اور ہمارے اجتماعات میں شریک ہوئے تو انہیں معلوم ہوا ہمیں کس قدر مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت صوبائی حکام ہمارے اجتماعات میں شریک ہوتے تھے لیکن جب سے قدامت پسندوں کے ہاتھوں میں عنان حکومت آیاہے کوئی اس طرف آنے کی زحمت نہیں کرتا۔ اس وقت موجودہ خصوصی نمائندہ برائے مرشداعلی (جو اب بھی اپنے عہدہ پر ہے) اور گورنر نے تیس ایکڑ زمین الاٹ کرنے پراتفاق کیا، لیکن بعدازآں ایک فردکی مخالفت کی وجہ سے مذکورہ زمین اہل سنت کے بجائے ’انقلابی گارڈذ‘ کے حوالے کیاگیا۔

شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید نے مزیدکہا: کئی سالوں سے ہم شدت کے ساتھ مسئلہ عیدگاہ کے حل کیلیے کوشاں ہیں۔ قبائلی عمائدین، علمائے کرام، دانشورحضرات سمیت ہرطبقے کے لوگوں نے کئی مرتبہ آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندہ خاص، گورنر اورکمشنرسے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں، حتی کہ مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کے پاس انہیں جانا پڑاہے۔ ایک مرتبہ عوام کے دستخط مانگ لیاگیا تو تیس ہزار مردنمازیوں نے طویل وعریض خط لکھ کر دستخط کیا ، ان کے علاوہ سینکڑوں خواتین کے دستخط بھی اس پر موجود ہے۔ جب صدرمملکت یہاں آئے توانہیں بھی خط لکھ دیاگیا، وزیر ہاؤسنگ کو خط لکھ دیاگیا، دونوں حضرات نے ہماری درخواست منظور کرلی لیکن افسوس کی بات ہے کہ کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ میراخیال ہے فساد کی جڑ صوبے ہی میں ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: زاہدان کے سنی باشندوں کو اس حال میں عیدگاہ کیلیے زمین نہیں دی جارہی کہ اہل تشیع کی عیدگاہ کو 27ایکڑ سے بڑھا کر60ایکڑ تک توسیع کی گئی۔ حالانکہ اہل سنت کے نمازیوں کی تعداد شیعہ حضرات کے نمازیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اہل سنت کا تعلق اسی شہر وعلاقہ سے ہے؛ جب یہاں کوئی سیستانی، بیرجندی اور شیعہ آبادکار نہیں تھا مقامی سنی باشندے یہاں رہتے تھے، ہمارے آباؤاجداد نے ملک کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور انگریزوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے جس پر ہمارے قبرستان گواہ ہیں۔ یہ خطہ انہیں لوگوں کا ہے جو بھائی چارہ کے متمنی ہیں۔ اگر شیعہ حضرات کو 60 ایکڑ زمین الاٹ کی جائے اور اہل سنت کو عید کیلیے مشکلات کا سامنا ہو تو یہ بھائی چارہ کی راہ نہیں ہے۔ آج کل اتحاد وبھائی چارہ کی بات بہت کی جاتی ہے لیکن اہم عمل کرنا ہے۔

قومی زمینوں پر بعض حکومتی اداروں کا قبضہ ناجائزہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: مجھے یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتاہے کہ بعض ادارے طویل وعریض زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں حالانکہ یہ زمینیں قومی سرمایہ ہیں اور ان کا استعمال شہر اور عوام کے فلاح وترقی کیلیے ہونا چاہیے۔ انہیں اسی صوبے کے مقامی لوگوں کوفروخت کرنا چاہیے۔ مسلح اداروں کی طاقت زیادہ ہے، وہ زورِ بازو سے زمینوں پرقبضہ کرتے ہیں۔ مسلح اداروں کو ان کی ضرورت کی حدتک زمینیں الاٹ کی جائیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے ادارے قومی زمینوں پر قبضہ جمائیں اور پھر انہیں فروخت کریں؛ فوج، پولیس اورانقلابی گارڈز کیلیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: بہت ساری زمینیں مختلف اداروں کو الاٹ کی گئیں ہیں لیکن جب اہل سنت کانام آتاہے توحکام کیلیے الاٹ کرنا ناممکن ہوتاہے۔ آج مجھے گورنر اور خصوصی نمائندہ برائے رہبر سے شکوہ کرنا ہے جو صدرمملکت اور وزیرہاؤسنگ کے حکم کے باوجود الاٹمنٹ سے گریز کرتے ہیں۔ میراخیال ہے آیت اللہ خامنہ ای کا جواب بھی ’ہاں ‘ میں ہے لیکن صوبائی حکام رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: اس عیدگاہ میں اسی صوبے کے لوگ نماز پڑھیں گے جن سے تمہیں امید ہے کہ کسی حملے کی صورت میں ملک کا دفاع کریں گے، انہیں آپ نے اسلحہ تھمادیاہے کہ آپ کے مخالفین سے لڑیں اور سرحدات کی حفاظت کیاکریں۔ لہذا ہمارا تعلق اسی خاک سے ہے اور ہم بھائی چارہ کے ساتھ آپ کے ساتھ رہتے آرہے ہیں، ہمیں امیدہے ہماری مشکلات حل ہوں گی۔

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کی رہائش پر شیخ الاسلام کا شکوہ
ایرانی اہل سنت کے سب سے بڑے دینی ادارہ دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کے مسئلہ رہائش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: جامعہ کے اساتذہ کو مکان اور رہائش گاہ کے مسئلے کا سامنا ہے ۔اس حوالے سے درخواست دائرکی گئی تو ایسوسی ایشن بنانے کا کہاگیا، ایساہی کیاگیا، لیکن تمام اداروں کو زمینیں الاٹ کی گئیں سوائے دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کے! متعلقہ اداروں کی رکاوٹوں کے بعد ہمیں فری مارکیٹ سے زمینیں لینی پڑی، اساتذہ کے اہل خانہ نے اپنی جیولری بیچ کر پیسہ اکٹھے کیا، اس کے باوجود تعمیری کام کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن اس مسئلے پر ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی، البتہ عیدگاہ کا تعلق ہمارے مذہب سے ہے، دس سال خاموشی کے بعد ہمیں حرفِ شکوہ زبان پر لانا ہی پڑا۔ ایسا نہ ہوہمیں اپنی عبادت کے مسئلے پرمشکلات کا سامناہو اور وہ بھی کسی ’اسلامی‘ ملک میں۔ اسلامیت اور جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کی عبادات کے مسئلے پررکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ بلکہ اس کی تسہیل کی کوشش کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر معاشرے کے تمام طبقوں کی ناراضگی ومخالفت مول لیناپڑے گا۔

ہمارے مسائل کو ’سکیورٹی ایشو‘ بنانا تنگ نظری کی علامت ہے
نامور سنی رہ نما نے اہل سنت کے مسائل کو ’سکیورٹی ایشو‘ بنانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہرمسئلے کو سکیورٹی منظر سے دیکھا جاتاہے۔ جب تہران میں اہل سنت کی مسجد کی بات کی جاتی ہے تو اسے سکیورٹی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ کیوں ہماری نماز ومسجد سکیورٹی مسائل بن چکی ہیں؟ جیسا کہ حکام کے الفاظ سے معلوم ہوتاہے زاہدان میں اہل سنت کوسکیورٹی وجوہات کی بناپر عیدگاہ کیلیے زمین الاٹ نہیں کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے اہل سنت کی مسجد وعیدگاہ سے قومی امن کو کس خطرے سے دوچار ہونا پڑتاہے؟ ہماری نمازیں اور مساجد خطرہ نہیں بلکہ ملک وقوم کیلیے عزت وفخر کے اسباب ہیں جہاں صرف اتحادوبھائی چارہ کی بات کی جاتی ہے۔

ملکی وصوبائی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے عالمی اتحادبرائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: تمام مسائل کو سکیورٹی ایشو نہ بنائیں، جو ہر مسئلے کی جانب سکیورٹی نظر سے دیکھتے ہیں وہ دوراندیش لوگ نہیں ہیں۔ افسوسناک بات ہے کہ ہمارا صوبہ، جامعات ویونیورسٹیز اور مساجد کو سکیورٹی ایشوز بنادیاگیاہے۔ فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہماری رجیم ’اسلامی جمہوریہکا دعویدار ہے۔ آمرحکمران اپنی قوم سے ڈرتے ہیں اور اپنی حفاظت کیلیے ہرمقام کو سکیورٹی زون قرار دیتے ہیں اور اپنے اردگرد متعدد سکیورٹی لائنز بناتے ہیں؛ جو ایسا ہی کیاکرتے تھے ان کاسبق آموز انجام سب نے دیکھ لیا۔ لہذا کوئی عوامی حکومت اپنی قوم سے نہیں ڈرتی۔

اپنے بیان کے آخری حصہ میں جنوبی ایران کے علاقہ بوشہرمیں زلزلہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے متاثرین سے ہمدردی کا اظہارکیا اور عوام سے درخواست کی متاثرلوگوں کی ہرممکن مدد کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں