اللہ تعالی کے قرب کادارومداربندوں کی دینداری وہدایت پرہے

اللہ تعالی کے قرب کادارومداربندوں کی دینداری وہدایت پرہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیداسماعیلزہی نے اللہ تعالی کے یہاں دین کی مقبولیت وپسند یدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بندوں کے قرب خداوندی کو ان کی ہدایت ودینداری کی مقداروکیفیت پرمنحصرقراردیا۔

ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے انہوں نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: ’’والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سْبلناوان اللہ لمع المحسنین‘‘سے کیا۔ مولانا عبدالحمیدنے کہا: اللہ رب العزت کے دربارمیں دین سے بڑھ کر کوئی چیزپسندیدہ نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی بندہ اپنے خالق ومالک کاقرب چاہتاہو تواس کامعیار دینداری وہدایت ہے۔ اللہ تعالی کسی کی دولت وجاہ کی پرواہ نہیں فرماتا، لوگوں کی شاندارکوٹھیاں، عمدہ لباس اور دیدہ زیب شکل وصورت ہرگزمدنظر نہیں ہوتیں، اہم صرف نیت اور قلبی حالت ہے۔ جتنا بندہ دیندار اور ہدایت یافتہ ہو، اتناہی اللہ کے دربارمیں محبوب ومقبول بنتاہے۔

مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: ہرقوم وملت اپنی دینداری وخداترسی کی مقدارکے مطابق اللہ کے دربارمیں قرب ومقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی مسئلے کی وضاحت سورت الحجرات آیت نمبرتیرہ میں فرمائی ہے کہ اللہ کے یہاں سب سے مکرم ومعززمتقی افرادہیں، جس کاتقوی زیادہ ہو اس کا اکرام بھی زیادہ ہوگا۔ اللہ کے بہترین بندے اس کے دین کی خدمت کیلیے چنے جاتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام انتہائی لائق، پاک اور مقدس تھے جنہیں اللہ رب العزت نے صاحب وحی قرار دیا اور بعض سے براہ راست گفتگوفرمائی اور بعض سے فرشتوں کے ذریعے بات کی۔ ان کی ذمہ داری لوگوں کی دینی واخلاقی تربیت تھی؛ اس راہ میں انہوں نے سخت مشکلات کا سامنا کیا، بعض شہیدکردیے گئے، بعض کو قیدوبند اور تشدد کانشانہ بنایاگیا۔

انہوں نے مزیدکہا: جس طرح اللہ تعالی کو پسند یہ ہے کہ اس کا ’کلمہ‘ اور دین اونچا ہو اور دنیا میں اس کا مقام بلندوبالا ہو، اسی طرح اس ذات پاک کو پسند ہے کہ اس کے لائق اور نیک لوگ اپنی جان ومال کی قربانی دیکر دین کی حمایت کریں۔ اسلام کی خاطر انتہائی بڑے لوگوں نے جان ومال کا نذرانہ دیاہے، دین کی عزت وکرامت کی خاطر ان کی جانیں گئیں۔ اسلام اللہ کا سب سے بڑا اور کامل دین ہے جوقیامت تک انسان کی رہنمائی کرتارہے گا۔ اگرچہ روزاول سے لیکر اب تک اس کے دشمن ہمیشہ دجل وسازش میں مصروف ہیں تاکہ دین کا چراغ بجھادیں، لیکن ان کی کوششیں ناکام ہوتی ہیں اور دین کا چراغ ہرگزگل نہیں ہوگا۔ دین کی حفاظت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنی ذاتی مفادات کوچھوڑکراعلی مقاصدکی خاطرجان ومال کی قربانی دیتے رہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال یہی تھا۔

حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: جب اللہ تعالی کی خاطر ہم محنت کریں اور صرف اس کی خاطر سوچیں اور ہماری زندگی دین کی خاطرہو، تواللہ تعالی ہماری دنیاوآخرت آباد فرمائے گا۔ لیکن دنیاکی آبادی کی خاطر دین کااستعما ل نہیں ہونا چاہیے۔ دنیاکے سودوزیان سے لاپرواہ ہوکر محض دین کی خاطر محنت وکوشش کرنی چاہیے۔ لہذاسب کو اپنی حدتک دین کی سربلندی وعزت کیلیے محنت کرنی چاہیے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے عالمی میڈیا کے اسلام مخالف پروپگینڈوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج مسلمانوں کی خطائیں اور کمزوریاں میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں، پھر اس کاصلہ اسلام سے جوڑا جاتاہے حالانکہ اسلام کامل اور ہر عیب ونقص سے پاک ہے، اگر کوئی کمی وکمزوری ہے تو وہ مسلمانوں کے اعمال میں ہے۔ لہذا ہم مسلمانوں کو احتیاط برتنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری وجہ سے اسلام بدنام ہو اور لوگ اسلام سے نفرت کرنے لگیں۔ کسی مسلمان کیلیے مناسب نہیں ہے اپنے اعمال سے گناہ کی اشاعت کرے، ہمارا سب کچھ دین کی نصرت میں صرف ہونا چاہیے دین کے خلاف نہیں۔ ایسی صورت میں ہماری اپنی عزت بڑھ جائے گی۔ اسی لیے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے معاشرے کی اصلاح کی کوشش کریں اور مسلمانوں کو متقی وپرہیزگار بنادیں تاکہ کوئی مسلمان اپنے برے اعمال کی وجہ سے دین کو بدنام کرنے کی سازشوں کا حصہ نہ بن جائے۔

’اسلامی جمہوریہ‘ کے انتخاب سے ۳۴برس گزرگیا، قوم کہاں کھڑی ہے؟
اپنے اہم بیان کے دوسرے حصے میںشیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایران میں ’’یوم اسلامی جمہوریہ‘‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال پیش کیا: کیا چونتیس برس کے بعد بھی پوری قوم ’اسلامی جمہوریہ‘ کے ساتھ کھڑی ہے؟ کتنے لوگوں نے اپنی راہیں جدا کردی اورکتنے ساتھ رہ گئے؟

یکم اپریل (یوم اسلامی جمہوریہ) کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یکم اپریل ایرانی کلینڈر میں ایک انتہائی اہم اور تاریخی دن ہے۔ اس دن قوم کی واضح اکثریت نے آمریت کیخلاف اور خودارادیت کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے ’اسلامی جمہوریہ‘ کے حق میں ’ہاں‘ کا ووٹ استعمال کیا۔

انہوں نے مزیدکہا: مذکورہ ریفرنڈم نئی دنیا میں ایک نیا تجربہ تھا؛ پوری ایرانی قوم بشمول شیعہ و سنی اور دیگر قومیتوں نے اپنے ملک کی تقدیر معلوم کرنے میں حصہ لیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ملک کی تقدیر میں شریک ہوں اور اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ چونکہ لوگ اسلامی نظام چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے اس نظام کا انتخاب کیا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اب نظام ’اسلامی جمہوریہ‘ 34برس کا ہوچکاہے، حکام تحقیق کریں کیا اب بھی لوگ پہلے دن کی طرح رجیم کے ساتھ ہیں؟ کیا لوگ اپنے جائز مطالبات حاصل کرچکے ہیں؟ کیا اہل سنت برادری اپنے حقوق حاصل کرچکی ہے جو ہمیشہ ملک کی حفاظت کیلیے کمربستہ رہی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو حکام دیکھ لیں ان مسائل کی جڑ کہاں ہے؟

مہتمم دارالعلوم زاہدان اور صدرشورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے زور دیتے ہوئے کہا: حکام کو چاہیے اہل سنت کے آئینی اور قانونی مطالبات پر توجہ دیں۔ اگر مختلف اداروں اور حکومتی شعبوں پر نظر ڈالی جائے معلوم ہوگا اہل سنت ملازمین کی تعداد بہت ناچیز اور کم ہے۔ بعض اداروں مثلا سفارتخانوں میں کوئی بھی سنی ملازم نہیں ہے۔ لہذا حکام بالا کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور ایرانی قوم کے لاینفک جزو کے حقوق اور مطالبات پر کان دھرنا چاہیے؛ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل اپنے ہی ملک میں اندھیرا دیکھ پائیں۔ بلکہ ’اسلامی جمہوریہ‘ کو اہل سنت کیلیے ایک واضح وروشن منظر بنانا چاہیے۔ اس سے انہیں حوصلہ ملے گا جو ملک کے حق میں بھی ہے۔

سیستان بلوچستان کے گورنر اپنے وعدوں کو پورے کریں
اپنے بیان کے ایک حصے میں صوبہ سیستان بلوچستان میں مسئلہ بے روزگاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: کئی سالوں سے ہمارا صوبہ پے درپے قحط کا شکار ہے جس کی وجہ سے شعبہ زراعت سے وابستہ افراد اور لائیواسٹاک پالنے والوں کا حال برا ہوچکاہے، صوبہ میں فیکٹریوں اور صنعتی مراکز کی تعداد کم ہے، عالمی اقتصادی پابندیاں مزیدبر علت بن چکی ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ سخت معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کی واحدا مید مشترکہ بارڈرز پر وابستہ ہے جہاں کاروبار بآسانی ہوسکتاہے۔ اگر یہ گیٹس بند ہوں تو لوگ کیسے گزارا کریں؟

صوبائی گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: محترم گورنر نے اپنی تقرری کے بعد دواہم اور منطقی مسائل بیان کیے تھے؛ ایک یہ کہ ’برابری‘ کے ذریعے ’یکجہتی‘ پیدا کی جائے گی، یعنی روزگار کی تقسیم میں شیعہ سنی میں برابری قائم کی جائے گی تاکہ یکجہتی پیدا ہو اور دوسرا وعدہ یہ تھا کہ صوبے کے سرحدی بازاروں کو پررونق بنایا جائے گا۔ افسوس کا مقام ہے کہ سات ماہ گزرنے کے بعد الٹا تمام سرحدی مارکیٹس بند کردی گئی ہیں اور ’برابری‘ و ’یکجہتی‘ کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ لہذا عوام کو یہ حق ہے کہ گورنر کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کریں ۔ حکام کو چاہیے غریب لوگوں کے معاش کی فکر کریں اور روزگار فراہم کرنے سے لوگوں کو حرام اور ناجایز کاموں سے بچائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں