دسمبر دو ہزار بارہ کے ابتدائی ایام میں ممتازسنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے ایرانی بلوچستان کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس دورے کی رپورٹ کی دو قسطیں اب تک شائع ہوچکی ہیں۔ اب سفرنامے کی آخری قسط ’سنی آن لائن‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
مولانا عبدالحمید کا وفد ’فنوج‘ میں
تین دسمبر دوہزاربارہ کو خطیب اہل سنت زاہدان فنوج شہر پہنچے جہاں آپ نے جامع مسجد میں ہزاروں افراد سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا: نزولِ وحی سے پہلے ظلم و جور کا دوردورہ تھا، بنی نوع انسان نے اپنا اصل مقصد پس پشت ڈالا تھا، معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام بہادری شمار ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ حکم الہی آیا: ’’قم فانذر‘‘، (اٹھو اور لوگوں کو عذاب الہی سے ڈراؤ)۔ اللہ تعالی نے بشر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بربادی سے نجات دلایا۔
شیخ الاسلام نے مزیدکہا: صحابہ کرام نے سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لایا۔ صحابہ کرام نے ایک نئی زندگی کا تجربہ کیا؛ ایک نئی پیدائش جو انہیں ظلم و فساد کی تاریکیوں سے انصاف اور عدل کی روشنی کی جانب لے گئی۔
انہوں نے مزیدکہا: اسلام نے ظلم اور عدم مساوات کا خاتمہ کیا اور اس کی جگہ بھائی چارہ و مساوات کا نفاذ کیا۔ اسلام کے مطابق تمام طبقے کے لوگ برابر و یکسان ہیں، غریب و امیر اور چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: آج کا مسلمان اسلام سے دور ہوچکاہے اور اسلامی تہذیب کے بجائے اغیار کی ثقافت کی پیروی کرتاہے۔ یاد رکھیں جب تک ہم مسلمان سچی توبہ نہ کریں اور اسلام کی جانب نہ لوٹیں تو مشکلات و مصائب سے نجات نصیب نہیں ہوگی۔
اپنے خطاب کے آخر میں فنوجی عوام کو مخاطب کرکے مولانا نے کہا: فنوج سمیت پورے بلوچستان کے عوام اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں لائیں اور نئے عزم کے ساتھ اسلام کی جانب لوٹ آئیں، انہیں اپنی اور معاشرے کی اصلاح کی کوشش و محنت کرنی چاہیے۔
اس محفل میں بھی بعض حفاظ کرام کو انعامات سے نوازا گیا۔
’’محترم آباد‘‘ کا دورہ
منگل چار دسمبر کو حضرت شیخ الاسلام نے ’کتیچ‘ اور ’محترم آباد‘ نامی علاقوں کا رخ کیا۔ راستے میں آپ نے ’سیاہکان‘ بستی کا بھی دورہ کیا جہاں ایک مسجد اور دینی مکتب واقع ہے۔ چھوٹے مدرسے میں بڑی تعداد میں ننھے طلبہ زیرتعلیم ہیں جو تنگیء مکان کے باوجود شوق و رغبت سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
محترم آباد میں حضرت شیخ الاسلام نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ’بوعلی سینا‘ مرکزصحت کا دورہ کیا جو ’صادقین‘ ٹرسٹ کی ہمت سے حال ہی میں تاسیس ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جامع مسجد میں قبائلی عمائدین، علمائے کرام و طلبہ سمیت عوام کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی جہاں مولانا عبدالحمید نے خطاب کیا۔
اس گاؤں میں ایک تاریخی قبرستان موجود ہے جسے ’دن شہیدان‘ کہتے ہیں۔ کہاجاتاہے اس میں بعض صحابہ کرام کی قبریں موجود ہیں جو دورفاروقی میں جہاد کیلیے یہاں آئے تھے اور اسی مقام پر شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوگئے۔ علاقے کی عیدگاہ میں پتھر کا ایک لوح موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے 147 سالوں سے یہاں مسلسل جمعہ و عیدین کی نمازیں قائم ہوتی ہیں۔
محترم آباد کے جلسے میں سب سے پہلے ’معہد بنات الزہرا‘ نامی مدرسۃ البنات کے سرپرست مفتی عبدالحلیم قاضی اسٹیج پر ظاہر ہوئے جنہوں نے اپنے خطاب میں محترم آباد میں جاری دینی سرگرمیوں کے بارے میں مختصر بریفنگ دی۔
ان کے بعد حافظ محمدکریم صالح نے اپنے پرجوش خطاب سے حاضرین کے دلوں میں دینی جوش وخروش پیدا کیا۔
خطیب اہل سنت مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے ہردلعزیز انداز میں خطاب کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی بنا کو مکہ مکرمہ اور پوری دنیا میں دین حق کے احیاء کا اہم ذریعہ اور سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے کہا: محترم آباد میں بھی مسجد و مدرسے کی تاسیس سے علاقے میں دینی ترقی حاصل ہوجائے گی۔ حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام کی داستان باربار یاد دلائی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوجائے راہ شریعت میں کوشش ومحنت سے انسان کو معنوی و روحانی ترقی مل جاتی ہے اور اس کا نام ہمیشہ باقی رہے گا۔
انہوں نے مزیدکہا: دین و شریعت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جس طرح انبیائے کرام اپنی اولاد کو دین اور علم سیکھنے کی نصیحت و وصیت فرماتے ہمیں بھی اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی کامیابی کا راز اسی میں ہے۔
انہوں نے کہا: اجنبی ثقافتوں نے اکثر گھرانوں پر وار کیے ہیں؛ سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز پس ماندہ علاقوں میں بھی سرایت کرچکے ہیں۔ بعض چینلز مسلمانوں کے عقائد پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اسی لیے سب کو ہوشیار و بیدار ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید ’کتیچ‘ میں
محترم آباد سے کتیچ جاتے ہوئے راستے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ’مدانج‘ نامی بستی میں مختصر قیام فرمایا جہاں آپ نے مقامی لوگوں سے ملاقات کی۔
کتیچ میں ایک محفل منعقد ہوئی تھی جس میں خطیب جمعہ مولوی عبدالرحیم قاضی نے خوبصورت الفاظ میں حضرت شیخ الاسلام ودیگر علماء کو خوش آمدید کہا۔
مولانا کے خطاب سے قبل، شیخ فضل اللہ رئیسی نے بلوچی زبان میں ایک خوبصورت نعت پیش کی جس سے محفل کی نورانیت دوچند ہوگئی۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب میں مولوی عبدالرحیم قاضی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے خواتین کی دینی تعلیم کیلیے مدرسہ قائم کیا ہے اور ان کے اعزاز میں مذکورہ محفل بھی منعقد ہوچکی تھی۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ وہ کتیچ اور رمشک کے مہمان نواز عوام کے ساتھ ہیں جو دینی جذبے کے تحت جامع مسجد میں اکٹھے ہوچکے تھے۔
مولانا اسماعیلزہی نے ’’یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کی تفسیر سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے اس مبارک آیت میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اے مسلمانو! پورے کے پورے مسلمان بنو اور پوری طرح اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ ایسا ممکن نہیں مگر شریعت پر مکمل عمل کرنے سے۔
تلاوت شدہ آیت سے پہلے والی آیت کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یہ آیت ایک ایسے صحابی کے بارے میں ہے جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ کی جانب روانہ ہوا تھا، رستے میں مشرکین نے انہیں روک لیا تو صحابی نے انہیں اپنی تمام جائیداد و دولت پیش کش کی اور یوں جان چھڑادی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کی تعریف و تمجید فرمائی جس نے اپنا سب کچھ قربان کرکے مدینہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ یہ آیت ہر اس شخص کی تعریف میں ہے جو اپنی جان ومال سے اللہ کی رضامندی خرید لیتاہے۔
سرپرست شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے مزیدکہا: ہم نے مسلمان ہونے کا اعلان کرکے دراصل یہ وعدہ کیاہے کہ ہم اسلام کے تمام احکام پوری طرح بجا لائیں گے، ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کہے میں پنج وقتہ نمازیں مسجد میں پڑھوں گا لیکن زکات ادا نہیں کروں گا چونکہ میری اولاد کو اس مال کی ضرورت ہے! اللہ تعالی کو ایسا اسلام قبول نہیں ہے۔ اسلام میں ہمہ تن داخل ہونا چاہیے۔
معاشرے میں بے حیائی و عریانیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: آج کل ہرجگہ حتی کہ پس ماندہ اور دوردراز علاقوں میں بھی سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز دستیاب ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں غیرمہذب فیشنز اور کلچرز کو فروغ مل رہاہے۔ ان چینلز کا مقصد حیا کی بیخ کنی ہے جو ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں بشمول خواتین و حضرات کو بیدار ہونا چاہیے اور مغربی کلچرز کی پیروی کے بجائے اسلامی تہذیب کی اتباع کرنی چاہیے۔ مسلم خواتین یاد رکھیں ان کے پردہ کرنے سے مردوں کی عزت میں اضافہ ہوجائے گی۔
لسانی و مذہبی چپقلش سب کو بہا لے جائے گی
کتیچ میں خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اپنے اہم بیان کے ایک حصے میں لسانی و قبائلی اور فرقہ وارانہ لڑائیوں کو سب کیلیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا: انسی و جنی شیاطین دن رات محنت کرتے ہیں مختلف قومیتوں اور فرقوں میں لڑائیاں اور تنازعات پیدا کریں۔ سنی کو سنی کے خلاف اکسایاجاتاہے اور شیعہ وسنی کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ میں دیکھنا ان کی خواہش ہے۔ کسی کو دشمن کی جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اتحاد و یکجہتی ضروری ہے اور بہترین اتحاد انصاف کی فراہمی سے حاصل ہوجاتاہے۔
انہوں نے مزیدکہا: کسی بھی مسلک کے پیروکار سے دوسرے مسلک کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، سب اپنے اپنے اعمال کے ذمے دار ہوں گے۔
بعض افواہوں کی تردید کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: بعض فرقہ پرست اور متعصب عناصر نے میرے رواں دورے کے بارے میں افواہیں پھیلانا شروع کردیاہے کہ ہم بعض مقاصد کے خاطر پس ماندہ علاقوں میں پیسہ بانٹ رہے ہیں! حالانکہ آپ دیکھ رہے ہیں ہمارے ساتھ پیسہ کا کوئی بیگ نہیں ہے۔ مجھے صرف ان لوگوں کی فکر ہے جو نماز نہیں پڑھتے اور دین سے دور ہوچکے ہیں۔ ہمارا مقصد ان علاقوں میں دین کو حیات نو دینا ہے اور اسلامی احکام کو زندہ کرنا ہے۔
مولانا عبدالحمید کا وفد بدھ کے روز ’مسکوتان‘ اور ’چاہ علی‘ کے دورے پر گیا جو ضلع ایرانشہر کے بمپور علاقے میں واقع ہیں۔
چاہ علی میں مولانا کا خطاب
چاہ علی اور آس پاس کے لوگوں کی بڑی تعداد مولانا کا خطاب سننے کیلیے علاقے کی جامع مسجد میں اکٹھی ہوچکی تھی۔
صحابہ کرام کی قربانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: صحابہ کرام نے اللہ پر بھروسہ کرکے کامل ایمان کے ساتھ اپنے عہد کے دو عظیم سپرپاورز کو شکست فاش دی جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام بہترین امانتدار تھے جنہوں نے بخوبی اپنی ذمہ داری پوری کرکے اسلام کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔
انہوں نے مزیدکہا: افسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان دین سے دوری اختیار کرچکاہے اور اپنی ذمہ داری بھول چکاہے۔ اسی لیے بڑی طاقتوں کو اسلامی ممالک پر فوج کشی کی ہمت ہوتی ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اسلام کی جانب خلوصِ دل سے لوٹنا چاہیے جس کے بعد ہی ہمیں عہدماضی کی عزت و سربلندی مل جائے گی۔
مولانا عبدالحمید کے چھ دن کا تبلیغی دورہ بدھ چار دسمبر کو چاہ علی کے عوام سے خطاب سے اپنے اختتام کو پہنچا جس کے بعد آپ شام کے تین بجے زاہدان روانہ ہوئے۔
حضرت شیخ الاسلام وقفے سے مختلف علاقوں کا تبلیغی دورہ کرتے ہیں، قریب سے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں اور ان سے گفتگو فرماتے ہیں۔ ان دوروں میں مولانا عوام کو براہ راست مخاطب کرکے انہیں دین کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں، مسلمانوں کو علم و تعلیم کی اہمیت یاد دلاتے ہیں اور ان کی روحانی و ظاہری ترقی کیلیے انہیں مشورے و نصائح دیتے ہیں۔
آپ کی رائے