’اقوام متحدہ عام شہریوں کی حفاظت میں ناکام‘

’اقوام متحدہ عام شہریوں کی حفاظت میں ناکام‘

اقوام متحدہ کی خفیہ طور پر منظر عام پر آنے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سری لنکا میں ہونے والی خانہ جنگی میں اقوام متحدہ عام شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔
اس رپورٹ میں ادارے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سری لنکا کے واقعات اقوام متحدہ کی ناکامی کی علامت ہیں۔
حکومت اور تامل باغیوں، دونوں پر مئی دو ہزار نو میں ختم ہونے والی اس وحشیانہ لڑائی کے سلسلے میں جنگی جرائم کے الزامات ہیں۔
اقوام متحدہ خفیہ طور پر منظرعام پر آنے والی رپورٹس پر کوئی بات نہیں کرتی اور اس کا کہنا ہے کہ حتمی رپورٹ شائع کی جائے گی۔
سری لنکا کی اس چھبیس سالہ خانہ جنگی میں تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ابھی تک اس جنگ کے آخری مہینوں میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کا کہنا تھا کہ آخری پانچ ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد چالیس ہزار تک ہو سکتی ہے جبکہ دیگر رپورٹوں کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ کی سربراہی کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک سابق اہلکار چارلز پیٹری نے بی بی سی کو بتایا کہ خفیہ طور پر منظرعام پر آنے والی رپورٹ پینل کی تحقیقات کی درست عکاسی کرتی ہے۔
چارلز پیٹری اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کو یہ رپورٹ دینے کے لیے اس وقت نیو یارک میں موجود ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حتمی رپورٹ میں سے رپورٹ کا خلاصہ خارج کر دیا جائے گا جس میں پینل نے ادارے پر شدید تنقید کی تھی۔
اقوام متحدہ کے مختلف ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اس رپورٹ کی تجاویز ہر عملدرآمد کرنے کے بارے میں کافی پرعزم ہیں تاکہ غلطیوں سے سیکھا جا سکے اور اقوام متحدہ نئے تنازعات جیسے کہ شام میں زیادہ مؤثر کام کر سکے۔
اقوام متحدہ کی تنازع کے آخری ماہ میں اپنے ہی کردار کے بارے میں تفتیش کے مطابق ادارے کو آئندہ انسانی تحفظ اور امداد کے ایک بہتر معیار کو نبھانا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق ’یہ ایک نظام کی ناکامی کی طرف اشارہ ہے۔‘
پینل کے اٹھائے گئے سوالات میں ایک سوالیہ نشان اس فیصلے پر ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکال لیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ سری لنکن حکام کی جانب سے اہلکاروں کی حفاظت کی ذمہ داری نہ لینے کے تناظر میں کیا گیا تھا۔
نکالے گئے اہلکاروں میں سے ایک بنجامن ڈکس کہتے ہیں کہ وہ اس انخلا کے حق میں بالکل نہیں تھے۔
’میرے خیال میں ہمیں شمال میں چلے جانا چاہیے تھا مگر جنوب کو مکمل طور پر تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا جہاں عام شہریوں کے لیے کوئی حفاظت نہیں تھی۔‘
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دارالحکومت کولمبو میں کئی سینیئر اہلکار شہریوں کے قتلِ عام کی روک تھام کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے تھے اور اقوام متحدہ کے صدر دفاتر بھی ان کی اس سوچ کی اصلاح نہیں کر رہے تھے۔
سری لنکا میں اقوام متحدہ کی امن قائم کرنے والی افواج نہیں تھیں مگر اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کو دنیا کو بتانا چاہیے تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور اسے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کارروائی کرنی چاہیے تھی۔
نیویارک میں حالت یہ تھی کہ’سری لنکا کے معاملے پر رکن ممالک کے ساتھ رابطوں میں ان باتوں پر زور دیا جا رہا تھا جو ادارے کے خیال میں رکن ممالک سننا چاہتے تھے اور یہ نہیں زیرِ بحث لایا جا رہا تھا کہ رکن ممالک کو کارروائی کے لیے کیا کرنا ہے۔‘
جنگ کے آخری مہینوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا کسی بھی بڑے ادارے کا اس معاملے پر کوئی بڑا اجلاس نہیں ہوا۔
فرانسس ہریسن جنگ کے آخری دنوں کے بارے میں ’اب بھی مرنے والوں کی گنتی‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے مصنف ہیں۔
ہریسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سری لنکا کے بارے میں اقوام متحدہ پر ٹوٹے ہوئے اعتبار کو قائم رکھنے کے لیے بانکی مون کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ ہزاروں افراد کے قتل عام کے معاملے پر ایک آزادانہ عالمی تحقیقات کا اعلان کریں۔‘
بی بی سی کے سری لنکا کے سابق نامہ نگار کے مطابق’اقوام متحدہ نے ممکنہ جنگی جرائم کے بارے میں خاموشی کو ترجیح دی۔‘

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں