اسلام بہترین عقائد، احکام اوراخلاق کا دین ہے

اسلام بہترین عقائد، احکام اوراخلاق کا دین ہے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعے میں اسلام کی جامعیت اور اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری کی تشریح کرتے ہوئے اس کو سب سے بہترین عقائد، احکام اور اخلاق والا دین قرار دیا۔
جامع مسجدمکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے دین اسلام کی عظیم نعمت سے انسانی معاشرے کو عقائد واعمال کے لحاظ سے محفوظ بنانے کا ارادہ فرمایا۔ ایسا معاشرہ جہاں لوگ خدائے واحد کی عبادت کریں اور اپنی تمام حاجتیں اسی ذات اقدس سے مانگیں۔ اللہ رب العزت نے سب سے بہترین عقائد کو اسلام ہی میں رکھا ہے۔ اگرچہ اسلام سے پہلے والے ادیان میں توحید کا عقیدہ موجود تھا لیکن اسلام نے ساتھ ساتھ شرک کے راستوں کو بھی بند کردیا تاکہ عقیدہ توحید محفوظ رہ جائے۔

ممتازسنی عالم دین نے مزیدکہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کردار و گفتار سے نیک اخلاق اور اچھائی کی تبلیغ فرماتے تھے۔ ارشادنبوی ہے: ’’انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘، مکارم اخلاق کی تکمیل کیلیے میری بعثت ہوئی۔ سابق انبیائے کرام کی تعلیمات سے بھی یہی سبق حاصل ہوتا ہے لیکن اخلاق کی اچھائیوں کی تکمیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ قرآن پاک کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے اس کا ایک بڑا حصہ اخلاقیات پر مبنی ہے۔ قرآن پاک معافی و درگزر کرنے کا درس دیتاہے۔ جو ظلم و جبر پر صبر سے کام لیں انہیں ’اولوالعزم‘ کہتاہے جو بڑی ہمت والے لوگ ہیں۔ صلہ رحمی کا سبق بھی ہمیں قرآن پاک سے حاصل ہوتاہے۔ یہ اخلاق اور اس کے متعلقات کی اہمیت کی واضح دلائل ہیں۔

خطیب اہل سنت نے انسانی معاشرے میں اخلاق کی کمی پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: آج کل مسلمانوں میں بھی اخلاقی کمزوری پائی جاتی ہے، دیانت وسچائی کم ہوتی چلی جارہی ہے۔

بالاتفاق حضرت عثمان ’السابقون الاولون‘ میں سے ہیں
اپنے بیان کے ایک حصے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت (18ذوالحجہ) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صاحب الہجرتین تھے؛ آپ نے ایک بار بحکم نبی اکرمﷺ مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت فرمائی اور دوسری بار حبشہ سے مدینہ تک۔ آپ کا شمار سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں ہوتاہے۔ بالاتفاق آپ ’السابقون الاولون‘ کے مصداق بھی ہیں جو صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے لیے بشارت و خوشخبری ہے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جن کو آپﷺ نے اسی دنیا میں جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی۔ اللہ جل جلالہ نے ان ہستیوں سے رضامندی کا کھلا اعلان فرمایاہے، اب اگر کوئی ان سے خفا ہے اور ناراضگی کا اظہار کرتاہے تو اس سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

شہیدِمظلوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: آپؓ کے نکاح میں اسلام سے پہلے ’ام کلثوم‘ تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں۔ ام کلثوم نے ہجرت کے سخت ایام میں حضرت عثمان کو ساتھ دیا۔ غزوہ بدر کے دوران سخت بیمار ہوگئیں یہاں تک کہ حضرت عثمان کو آپ کی تیمارداری کیلیے مدینہ رکنا پڑی اور بحکم نبوی آپ میدان جہاد نہیں جاسکے مگر آپ کو بھی غنائم سے ایک حصہ دیاگیا۔ ام کلثوم جانبر نہ ہوسکیں اور ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی ’رقیہ‘ کو ان کے نکاح میں لایا۔ اسی لیے آپ کو ’ذوالنورین‘ کے لقب سے یاد کیاجاتاہے۔ حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اسے ضرور عثمان کے نکاح میں لاتا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ مجھ سے اور حضرت ابراہیم علیہماالسلام سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والا فرد عثمان ہے۔ یہ شباہت شکل کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے اخلاق وسیرت میں بھی ہوسکتی ہے۔

تبلیغی جماعت پر پابندیاں لگانا مذہبی تعصب کی علامت ہے
مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے ایران میں تبلیغی جماعت پر حکومتی دباؤ اور پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا: تبلیغی جماعت ہر قسم کی سیاسی بغض یا محبت سے پاک ہے۔ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ پوری دنیا کے لوگ اس تحریک میں دلچسپی لیتے ہیں۔ تبلیغی حضرات صرف لوگوں کی اصلاح و ہدایت کیلیے جدوجہد کررہے ہیں تاکہ مسلمانوں کا ایمان قوی ہو، نماز کی پابندی کریں، زکات ادا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وسیرت پر عمل درآمد ہوجائے۔ ان کا کام دعوت الی اللہ ہے؛ اختلاف و فرقہ واریت سے سخت اجتناب کرتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: تبلیغی حضرات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا مذہبی تعصب ہے؛ قومی آئین نے ایران میں تمام مسالک کو مذہبی آزادی دی ہے۔ اہل سنت کی مذہبی سرگرمیاں آئین کی روسے صحیح اور قانونی ہیں۔ جو اس کی مخالفت کرے تو یہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ایرانی اہل سنت کے دینی پیشوا نے مزیدکہا: بعض لوگ کہتے ہیں تبلیغی جماعت سے کچھ عناصر غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یہ ہرگز تبلیغی جماعت کو محدود کرنے کیلیے جواز نہیں بن سکتا؛ کیا اگر کوئی مجرم یونیورسٹی طلبہ کے روپ میں کسی جرم کا ارتکاب کرے تو پوری طلبہ برادری پر پابندیاں لگانا چاہیے؟ لہذا جو شخص جرم کا ارتکاب کرتاہے صرف اسی کا ٹرائل کیاجائے سب کا نہیں۔ تبلیغی جماعت کے قوانین و اصول بھی سخت ہیں تاکہ ایسے لوگوں کا سدباب کریں جو روپ بدل کر ان کے لباس میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت میں اسلام کے داعیوں پر پابندی لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں