رہبرایران کے نام سنی شخصیات کا کھلاخط

رہبرایران کے نام سنی شخصیات کا کھلاخط

مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے اہل سنت والجماعت ایران کی بعض سرکردہ شخصیات نے ایرانی رہبر، آیت اللہ خامنہ ای، کے نام کھلا خط شائع کرتے ہوئے ایرانی آئین کے بعض آرٹیکلز کی روشنی میں اہل سنت کی محرومیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ خط جس پر درجنوں سنی علمائے کرام، ائمہ و خطباء، ٹیچرز، سیاسی، سماجی اور ثقافتی کارکنوں کے دستخط موجود ہے اہل سنت کے قانونی مطالبات کو سات فقروں میں پیش کرتاہے۔

سنی شخصیات نے خط کے آغاز میں ملک کی حاکمیت کی حفاظت کیلیے اہل سنت ایران کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ’بعض غیرملکی طاقتوں‘ کی مداخلت اور ’اکثر مرکزی حکومتوں کی بے تدبیری‘ کو اہل سنت والجماعت کی سیاسی، معیشتی، سماجی اور ثقافتی مشکلات کی اہم وجوہ قرار دیاہے جو اکثر سرحدی علاقوں میں آباد ہیں۔ خط کے مطابق ان مشکلات کے حل میں سستی دکھانے کی وجہ سے عوامی غم وغصہ میں شدت آئی ہے چنانچہ عوام اور حکام کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای کے نام سے لکھے گئے خط میں ایرانی آئین کے آرٹیکلز 12, 15, 19, 20 اور 23 کی بنیاد پر اہل سنت کی مذہبی آزادی اور انسانی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق میں برابری پر زور دیاگیاہے۔

سرکردہ سنی شخصیات نے خط کے دوسرے فقرے میں آئین کے آرٹیکل 37اور67 کا حوالہ دیتے ہوئے سنی علمائے کرام کی غیرآئینی ’ٹرائل‘، ’قید وبند‘ اور ’آزار وتکلیف‘ پر سخت تنقید کی ہے جنہیں صرف ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے ہراساں کیاجا تاہے۔

اسی طرح آئین کے آرٹیکل 57 کی روشنی میں سرکاری ٹیلی وژن اور ریڈیو سٹیشنز میں اہل سنت کی آزادی اظہار رائے اور عقیدے کی یاددہانی کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ نہ صرف اس آزادی پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے بلکہ الٹا دن رات نام نہاد قومی میڈیا میں اہل سنت کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے۔

خط شائع کرنے والوں نے آرٹیکل 20 کی روشنی میں مطالبہ کیاہے سرکاری اداروں میں بلاامتیاز روزگار فراہم کیاجائے اور لائق سنی نوجوانوں کی تقرری میں تعلل نہ کیاجائے، نیز بڑے عہدوں کو اہل سنت کیلیے شجرہ ممنوعہ نہ بنایاجائے۔

سنی شخصیات نے اہل سنت کے امور میں متعین رہبرایران کے نمائندوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے جن صوبوں میں اہل سنت اکثریت میں ہیں یا کم از کم پچاس فیصد کی آبادی ان کی ہے وہاں سنی علمائے کرام میں سے کسی کو متعین کیا جائے۔

خط میں یاددلایا گیا ہے کہ ملک کی کل آبادی کی بیس فیصد اہل سنت پر مشتمل ہے؛ آرٹیکل 107 کے مطابق ’مجلس ماہرین‘ (مجلس خبرگان رہبری) میں کم از کم دس سنی نمائندے ہونے چاہییں۔ اس بات پر حیرت کا اظہار کیاگیاہے کہ تینتیس سالوں کے دوران کسی بھی سنی شہری کو کوئی سرکاری نشان نہیں دی گئی؛ یہ بات اہل سنت کے حوالے سے حکومت کی ’خصوصی منفی سوچ‘ کی عکاسی کرتی ہے۔

درجنوں ممتاز سنی شخصیات نے آیت اللہ خامنہ ای کو ملک کی ’’سب سے طاقتور شخصیت‘‘، ’’پالیسی سازی پر ناظر‘‘ اور حکومت کی کارکردگی پر ’’جوابدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ حکمت وتدبیر سے مسئلے کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ایک اعلی سطحی منصف بورڈ تشکیل دی جائے جس کے ارکان قابل بھروسہ سنی و شیعہ شخصیات ہوں تاکہ اہل سنت کے مسائل کا غور سے مطالعہ کریں۔ یوں سنی مسلمانوں کے انسانی، اسلامی اور قانونی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند ہونے کا امکان ہے۔

یادرہے یہ خط کچھ عرصہ قبل رہبرایران تک پہنچایاگیا ہے لیکن جب کوئی مثبت جواب لکھنے والوں کو نہیں ملا تو اسے شائع کیا گیا۔ خط کو مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں شخصیات نے دستخط اور تصدیق کی ہے جن کا تعلق سیستان بلوچستان، ہرمزگان، جنوبی و مرکزی خراسان، گیلان، تالش، اردبیل، نمین، شیراز، خنج، بوشہر، کردستان، کرمانشاہ، مغربی آذربائیجان، گرگان، ترکمن صحرا اور صوبہ تہران کی سنی برادری سے ہے۔ سکیورٹی مسائل کی بنا پر دستخط کرنے والوں کا نام صیغہ راز میں رکھا گیاہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں