شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا ’اراکی‘ کے نام خط

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا ’اراکی‘ کے نام خط

ممتاز سنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے ’’مجلس تقریب برائے مسلم مسالک‘‘ کے نئے سیکرٹری جنرل، شیعہ عالم دین آیت اللہ محسن اراکی، کے نام ایک کھلا خط بھیجتے ہوئے ان کی تقرری پر مبارکباد دینے کے علاوہ انہیں بعض اہم مسائل کی یاددہانی کرائی ہے۔

’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق حضرت شیخ الاسلام نے اپنے خط میں، جسے ان کی آفیشل ویب سائیٹ (www.abdolhamid.net) نے شائع کیا ہے، ایران کی اہل سنت برادری کی بعض مشکلات ومسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے مسٹر اراکی پر واضح کیاہے کہ اہل سنت کی گہری اور دلی رضامندی حاصل کئے بغیر ایرانی حکام کے پیش نظر اتحاد کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

خطیب اہل سنت مولانا عبدالحمید کے خط کا متن درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قابل احترام آیت اللہ اراکی (دامت توفیقاتہم)
جنرل سکیرٹری مجلس تقریب برائے مسلم مسالک، السلام علیکم

اللہ تعالی آپ کی طاعات و عبادات منظور فرمائے۔ ’مجلس تقریب برائے مسلم مسالک‘ کے جنرل سکیرٹری کے عہدے پر آپ کی تقرری مبارک ہو، امید ہے نئی ذمہ داری میں اللہ تعالی آپ کو مزید توفیق عطا فرمائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ احترام کے ساتھ اس اہم اور پرخطر ذمے داری کے تناظر میں بعض مسائل کو آپ کی اطلاع کیلیے عرض کروں۔

1- بلاشبہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و بھائی چارہ وقت کی شدید ضرورت ہے، خاص کر موجودہ حالات میں جن کی حساسیت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ امت مسلمہ اتحاد کے بغیر ہرگز عزت و کرامت نہیں پائے گی۔

2- ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ملک کی بعض دینی شخصیات نے ’’ہفتہ وحدت‘‘ کے عنوان سے اتحاد کیلیے ایک ہفتے کو خاص کردیا تاکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں بطور عام اور ایرانی مسلمانوں کے درمیاں بطور خاص یکجہتی و اتحاد پیدا ہوجائے۔ ہر سال اتحاد کے نام پر بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کرکے متعدد کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد ہوتاہے؛ سوال یہ ہے کہ انقلاب کی عمر سے تین عشرے گذرنے کے بعد ہم کس قدر اپنے کاز میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں؟ معاشرے میں کتنا اتحاد پیدا ہواہے؟ ہمارے خیال میں وقت کا تقاضا ہے کہ کام کے مثبت یا منفی نتائج کے حوالے سے ایک غیرجانبدار سروے کیاجائے۔ اگر رجیم کے مقاصد حاصل ہوچکے ہیں فبہا، ورنہ کمزوریوں اور اغلاط کی تصحیح کی جائے، اور اب تک جاری پالیسیوں پر نظرثانی کرکے نئی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے چلاجائے۔ چونکہ ایسا معلوم ہوتاہے حکومتی کامیابیوں اور اتحاد کے نام پر خرچ شدہ اخراجات میں، نیز دشمنان اسلام کی فرقہ واریت پھیلانے کوششوں اور کامیابیوں میں کوئی تناسب نہیں ہے؛ دشمن ہم سے بہت آگے ہے۔

3- اندرون ملک جس برادری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بھائی چارہ پیدا کرکے اتحاد بڑھانا چاہیے وہ اہل سنت والجماعت ایران ہے۔ اگر انقلاب کے بعد ان کے حالات پر سرسری نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے انہیں بعض سخت قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، ایرانی سنیوں کو شدید امتیازی سلوک سے شکوہ ہے۔

مسلح افواج، وزارت خارجہ اور اس کے ماتحت ادارے، کلیدی عہدے جیسے وزارتیں، نائب صدر، گورنر وغیرہ میں بھرتی ہونا یا ان عہدوں پر فائز ہونا ایرانی اہل سنت کیلیے عملا ناممکن ہے۔ حکومتی امتیازی سلوک کی بعض واضح مثالیں یہی ہیں۔

یہ بات نہ صرف آئین میں تصریح کی گئی برابری اور انصاف کے اصولوں سے متضاد ہے بلکہ اسلامی اتحاد کی سراسر خلاف ورزی بھی ہے۔ اتحاد کیلیے کی گئی تمام کوششیں ان اقدامات کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ جن شہروں میں سنی برادری اقلیت میں ہے وہاں انہیں پنج وقتہ نمازوں کو باجماعت پڑھنے یا جمعہ و عیدین کے قیام کے سلسلے میں سخت حکومتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ دارالحکومت تہران میں دس لاکھ کے قریب سنی آبادی انقلاب سے چونتیس برس گزرنے کے بعد بھی مسجد کی نعمت سے محروم ہے۔

4- اہل سنت ایران کے دینی مدارس نے ہمیشہ آئین کے اصولوں کے تحت کام کیا ہے اور حکومتی اداروں نے انہی قوانین کے تحت ہمارے مدارس کی نگرانی و مانیٹرنگ کی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے ایک اعلی حکومتی کونسل نے ’اصلاح مدارس‘ کے بہانے ہمارے مدارس کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے دینی مدارس کی غیروابستگی کو چیلنج کیا ہے۔ مذکورہ پلان حکومت کو ’نظارت‘ سے ’مداخلت‘ کی جانب لیجاتاہے جس کے مطالعے سے بخوبی یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسی وجہ ایران کی سنی برادری کو سخت تشویش لاحق ہے۔

5- ماضی کے چند سالوں سے سنی علمائے کرام کی عدالت میں طلبی و قید کرنے کی نہ رکنے والی لہر اور مذکورہ بالا امور کی وجہ سے ایرانی اہل سنت انزوا اور نظرانداز ہونے کے احساس سے دوچار ہوچکی ہے۔ ایران کے سنی مسلمانوں کو اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے تشویش ہے جس کی وجہ سے اسلامی بھائی چارہ و اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

جناب آیت اللہ! ہمارے خیال میں عالم اسلام جس کی اکثریت سنی مسلمان ہے، سے تعلق بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ایرانی اہل سنت برادری ہے۔ ایرانی اہل سنت نے انقلاب کی کامیابی کے شروع سے اب تک مختلف محاذوں اور میدانوں میں حکومت کا ساتھ دیاہے لیکن ان کی صلاحیتوں اور موجودہ مواقع سے ہرگز فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

بلاشبہ وحدت کیلیے نعرہ لگانا ہرگز اس وقت تک مفید واقع نہیں ہوگا جب تک اتحاد کیلیے ضروری عملی اقدامات نہ اٹھائے جائیں۔
میرے خیال میں جب تک ایرانی اہل سنت کی دلی اور گہری رضامندی حاصل نہ ہو اور ان کی مشکلات کا خاتمہ نہ کیاجائے ایرانی حکام کے مدنظر اتحاد ہرگز دنیا میں حاصل نہیں ہوگا۔ آپ ایک روشن خیال عالم دین ہیں اسی لیے آپ کو ایک اہم عہدہ سونپ دیاگیا ہے، آپ کو بخوبی معلوم ہے کم ازکم جب تک حکومتی ادارے اتحاد کی راہ میں آپ کے شانہ بہ شانہ گامزن نہ ہوں تو آپ اتحاد مہم میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ چونکہ معاشرے میں اتحاد عام ہونا چاہیے اور بعض مخصوص حلقوں میں اتحاد پیدا کرنے سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوگا۔

اطالہ کلام پر معذرت، اللہ تعالی آپ کو امت مسلمہ میں اتحاد و بھائی چارہ پیدا کرنے کے سلسلے میں کامیابی نصیب فرمائے۔

مع احترام
خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں