ایرانی صدرکے مشیر کے نام اساتذہ دارالعلوم کا کھلاخط

ایرانی صدرکے مشیر کے نام اساتذہ دارالعلوم کا کھلاخط

گزشتہ دنوں ایرانی صدر کے مشیر برائے اموراہل سنت مولوی اسحاق مدنی نے مصری ذرائع ابلاغ کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی؛ دارالعلوم زاہدان (ایران) کے اساتذہ نے کھلے خط کے ذریعے ان کے خلاف واقع دعؤوں کی مذمت کرتے ہوئے ایرانی اہل سنت کے بارے ان کے غیرواقعی بیان کی سختی سے تردید کی ہے۔

مذکورہ خط کا متن مشاہدہ ہو:

محترم مولانا اسحاق مدنی؛ مشیر صدر برائے امور اہل سنت
السلام علیکم

کچھ عرصے قبل مصری جریدہ ’’الیوم السابع‘‘ نے آپ کا بیان شائع کیا تھا جس کے مطابق آپ نے تہران میں ایک مصری وفد سے ملاقات کے دوران ایرانی اہل سنت کے حوالے سے ان کے سوالات کا جواب دیا ہے۔
آنجناب نے کہا ہے: ’سنی اکثریت شہروں کے سنی نمائندے پارلیمان میں موجود ہیں۔۔۔شاہ کے رجیم کے دوران ایرانی اہل سنت کا کوئی نمائندہ قومی مجلس میں نہیں تھا لیکن اب بیس افراد اہل سنت کی نمائندگی کررہے ہیں۔‘

آپ کی یہ باتیں ملکی خبررساں اداروں میں بھی شائع ہوئیں جس پر بعض لوگوں نے آپ پر نکتہ چینی کی چونکہ آپ نے حقیقت کے خلاف بیان دیاتھا؛ شاہ کے دورحکومت میں بہت سارے سنی شہری پارلیمنٹ کے ممبر تھے؛ مثال کے طور پر صرف ایرانی بلوچستان سے امان اللہ خان ریگی، خدادخان ریگی، بہمن خان بارکزئی، کریم بخش سعیدی اور محمدخان میرلاشاری جیسے بلوچ سنیوں نے شاہ کے دوران پارلیمنٹ میں اہل سنت کی نمائندگی کی۔
معتبر سروے کے مطابق ایرانی اہل سنت مجلس شورا میں پچاس نمائندے بھیج سکتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ’گارڈین کونسل‘ سنی امیدواروں کو نااہل قرار دے کر انہیں انتخابی مہموں میں شرکت کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ زابل کے علاقے سے دو افراد اور بندرعباس و کرمانشاہ سے تین افراد کیلیے پارلیمنٹ میں سیٹیں خالی ہوتی ہیں لیکن صرف شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کیلیے؛ حالانکہ ان علاقوں میں سنی برادری کی آبادی کم از کم چالیس فیصد بلکہ اس سے زیادہ ہے، وہاں کے سنی مسلمان بآسانی ایک نمائندہ مجلس شورا بھیج سکتے ہیں جیسا کہ ان امور میں کافی متحد بھی ہیں۔ ان تین علاقوں میں اگر کوئی سنی الیکشن لڑنا چاہے تو اسے شروع ہی میں نااہل قرار دیا جاتاہے۔

آپ نے اپنے بیان کے ایک دوسرے حصے میں کہا ہے: ’حکومتی کابینہ میں کسی سنی وزیر کی غیرموجودگی ایک طبعی امر ہے، چونکہ وزرا کا انتخاب حکمران جماعت سے ہوتاہے اور سنی شہری حکمران جماعت میں شامل ہی نہیں ہیں چونکہ وہ ایران کی کل آبادی کی دس فیصد بنتے ہیں۔‘

مولوی صاحب!
پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں وزارت کیلیے حکمران جماعت میں شمولیت کوئی ضروری نہیں؛ دوسری بات یہ کہ بعض سنی شہری حکمران جماعت کے ممبر بھی ہیں اور رہ بھی چکے ہیں لیکن اب تک کوئی سنی وزیر منتخب نہیں ہوا ہے۔

جو ملک دنیا میں اسلامی بھائی چارہ و اتحاد کے نعرے لگاتے تھکتا نہیں اس کیلیے مناسب یہی ہے کہ سب سے پہلے اپنی ہی حدود میں ایسے نعروں کو جامہ عمل پہنائے تاکہ دیگر ممالک بھی ان کی تقلید کرسکیں، افسوسناک بات ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ اگر ہم بعض غیرمسلم ممالک کی کابینوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے بعض مسلمانوں کو وزارت کا عہدہ سونپ دیا ہے۔ اسرائیل کی مثال لے لیں جو پوری دنیا میں نسل پرستی میں پہلے نمبر پر ہے لیکن اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کیلیے اس صہیونی ریاست نے ایک عرب مسلمان کو وزارت کا قلمدان دیا۔ فرانس کے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد ان کے وزیراعظم نے تین مسلمان وزراء کو نئے صدر کے سامنے لایا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمانوں میں دوراندیشی نہیں ہے۔

انتہائی قابل بھروسہ اعداد وشمار کے مطابق ایران میں رہنے والے سنی مسلمانوں کی تعداد پوری آبادی کی دس فیصد نہیں بلکہ درمیانی اندازے کے مطابق بیس فیصد ہے؛ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اب تک ملک میں کوئی سنی شہری (اتنی بڑی آبادی کے باوجود) وزیر، نائب وزیر، نائب صدر، گورنر، سفیر حتی کہ قونصلر یا قونصلیٹ میں قائم مقام نہیں بن سکا ہے۔ مسلح اداروں سے سنی شہریوں کا صفایا کردیا جاتاہے حالانکہ ان سے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کیدوران کوئی خیانت سرزد نہیں ہوئی ہے۔ دوسری جانب شاہ کے دوران مسلح اداروں میں تمام مسالک و قومیتوں کے لوگ بلا امتیاز بھرتی ہوتے اور بہت سارے سنی اعلی پوسٹوں پر فائز ہوچکے تھے۔

دنیا کے کس کونے میں کسی شیعہ اقلیت سے اس انداز سے سلوک کیا جاتاہے؟ دن رات اتحاد کی رٹ لگانے کا باوجود ایرانی اہل سنت کو اپنی ہی جماعت بنانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟ حتی کہ تہران، اصفہان، کرمان اور یزد جیسے بڑے شہروں میں نہ صرف اہل سنت کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ (گھروں میں) جمعہ و عیدین کی نماز قائم کرنے میں انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

محترم مولانا مدنی صاحب!
آپ کے سنی بھائیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ صرف برائے نام ’مشیر صدر برائے امور اہل سنت‘ ہیں؛ آپ سے کوئی مشورت کرتاہے نہ ہی کوئی آپ کی بات سننے کیلیے وہاں تیار ہے۔ کئی تجربوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔

ایرانی اہل سنت سخت امتیازی سلوک اور نابرابری کا شکار ہے اور آئے دن ان پر مذہبی دباؤ میں شدت آتی ہے، ایسے میں بہتر یہی ہے کہ آپ غیرملکی ذرائع ابلاغ کے سامنے خاموشی اختیار کریں۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خدمات اور کامیابیوں کا تذکرہ بجا امر ہے لیکن غیرواقعی باتوں سے اللہ ناراض ہوتاہے اور اس کے بندوں کو بھی دکھ ہوگا۔

سنی بہن بھائیوں کو موجودہ نازک حالات کی سنگینی کا بخوبی احساس ہے، انہیں ہم سے کوئی توقع نہیں کہ ان کے حقوق کا دفاع کریں لیکن کم سے کم وہ ہم سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حقیقت کے خلاف کوئی بات زبان پر نہ لائیں جس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

اساتذہ دارالعلوم زاہدان


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں