شام میں شہریوں کا قتل عام بندہونا چاہیے

شام میں شہریوں کا قتل عام بندہونا چاہیے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید اسماعیلزہی نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ کے دوسرے حصے میں شام میں جاری بحران کو ’انسانی المیہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا: جو کچھ شام میں ہورہاہے اور اب تک ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، یہ ایک انسانی المیہ ہی ہے۔ اس قتل عام میں بچوں، خواتین، عمررسیدہ اور نوجوانوں سمیت ہزاروں شہری پوری دنیا کے سامنے دن دیہاڑے شہید ہورہے ہیں، یہاں تک کہ کوئی دل والا ان دہشتناک مناظر نہیں دیکھ سکتا۔
انہوں نے مزید کہا: سب سے پہلے ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی کوئی ایسا راستہ نکالے کہ اس المیہ کا خاتمہ ہو اور شامی عوام مزید برادرکشی سے بچ جائیں۔ یہ ہرگز قابل قبول نہیں کہ کوئی حکومت اپنے ہی عوام پر ٹینکوں، توپوں اور میزائلوں سے حملہ کرکے انہیں قتل عام کرے، کسی بھی رجیم کو ایسا کرنے کا حق نہیں۔ اب جبکہ چین اور روس سکیورٹی کونسل میں بشاراسد حکومت کی حمایت کرچکے ہیں، ان کی دوہری ذمہ داری بنتی ہے کہ شامی عوام کے قتل عام روکنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں، دوسری صورت میں پوری دنیا میں ان دو طاقتوں کا امیج انتہائی خراب ہوگا۔
جامع مسجد مکی زاہدان (ایران) میں خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ’پرامن اور مسلسل مظاہرے‘ ہی شام کے موجودہ بحران کا واحد حل ہے۔ میرے خیال میں سب سے بہترین راستہ یہ ہے بشار اسد کی فوج اور اس کی مخالف فوج ( آزاد شامی فوجF.S.A) دونوں ہتھیار چھوڑدیں؛ مخالفین پرامن طریقے سے مظاہرے جاری رکھیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں، حکومت بھی رکاوٹ بننے کے بجائے عوام کو ریلی نکالنے اور مظاہرہ کرنے کی اجازت دیدے جو ان کا جائز حق بھی ہے اور عالمی سطح پر بھی قابل قبول طریقہ ہے۔ ورنہ جنگ و جدل اور خانہ جنگی سے شام مزید تباہی سے دوچار ہوگا اور دنیا کی سطح پر بھی حکام بدنام ہوں گے۔
خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی ذمہ داری بھی اس حوالے سے بھاری ہے۔ ہم سب کو اس بحران کے حل کیلیے کوئی راستہ تلاش کرنی چاہیے۔ کب تک شہر، ٹاؤنز، دکانیں اور عوام کے مکانات تباہ و برباد ہوتے رہیں گے؟ کتنے اور لوگ اس آگ کی ایندھن بنیں گے؟ نہ اسلام میں ایسا جائز ہے نہ انسانی حقوق کی رو سے حکومتوں کو کشت وخون اور عوام کے قتل عام کی اجازت ہے۔

ایرانی انقلاب بندوق کے زورپر کامیاب نہیں ہوا، اس کی بقا طاقت سے ناممکن ہے:
ممتاز عالم دین نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایرانی عوام کے مختلف طبقوں بشمول طلبہ و اساتذہ، تاجر اور کسان و۔۔ سب نے آمریت اور فردِواحد کی حکومت کیخلاف آواز اٹھائی۔ عوام باعزت زندگی اور آزادی چاہتے تھے، اسی لیے انہوں نے انقلاب لایا۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا: ایرانی قوم کا انقلاب اسلحہ کے زور پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا، انقلاب کی راہ میں عوام قتل ہوئے لیکن انہوں نے بندوق نہیں اٹھائی، نہ ہی ان کے رہنما ایسا کرنے کی اجازت دیتے، چونکہ انہیں معلوم تھا حکومت کو عوام کیخلاف مسلح اقدام اٹھانے کا بہانہ ہاتھ آئے گا۔ یہ انقلاب اتحاد و یکجہتی سے کامیاب ہوا اور اس کی بقا بھی اسی اتحاد و بھائی چارہ میں مضمر ہے، کوئی بھی فرد اسلحے کے زور پر اور فوجوں کے سہارے اسے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔
ایرانی اہل سنت کے اہم رہنما نے زور دیتے ہوئے مزید کہا: اس عوامی انقلاب کا تعلق کسی خاص گروہ، مسلک یا پارٹی سے نہیں ہے بلکہ اس کی کامیابی کیلیے تمام قومیتوں ، مسالک اور گروہوں نے دن رات محنت کی ہے اور یہ سب اس کے مالکان ہیں۔ سب نے ملک مخالف عناصر و ممالک کی مخالفت سہہ لیا اور آٹھ برس کی جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں، اسی لیے کسی کو انقلاب پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ مخصوص گروہ اس انقلاب پر اپنا قبضہ نہیں رکھ سکتے، دوسروں کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا کوئی مثبت اقدام نہیں ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا: موجودہ حالات میں جب تقریبا پوری عالمی برادری قوم پر پابندی لگانے کیلیے متفق ہوچکی ہے حکام کو مزید ہوشیار و محتاط ہونا چاہیے، انہیں دوراندیشی و فراخدلی کا مظاہرہ کرکے تمام عوام کی بات سننی چاہیے۔ پوری قوم کسی نہ کسی طرح شاکی ہے اور انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اگر قوم متحد ہو تو حکام بآسانی ان بحرانوں پر قابو پاسکیں گے۔

عملی اتحاد کیلیے مزید اور اہم اقدامات اٹھائیں:

خطیب اہل سنت نے اتحاد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: ہمارے خیال میں اتحاد ایک ضرورت ہے، لیکن سمینارز اور کانفرنسز جو ’ہفتہ وحدت‘ کے عنوان سے بپا ہوتی ہیں یا اتحاد کیلیے نعرے لگائے جاتے ہیں ہرگز حقیقی اتحاد تک ہمیں نہیں پہنچاسکتے۔ اگرچہ میں بذات خود ایسی کانفرنسز کے مخالف نہیں ہوں لیکن عملی اتحاد و یکجہتی کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں چھوٹے اور برائے نام اقدامات سے کوئی اچھا نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے بنیادی اور اہم کاموں کی جانب توجہ مبذول کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
یاد رہے ہرسال ایرانی حکام بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک ’ہفتہ وحدت‘ مناتے ہیں اور امت کی وحدت کیلیے سمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں