صحابہ رضی اللہ عنہم؛ انبیا کے بعد سب سے افضل

صحابہ رضی اللہ عنہم؛ انبیا کے بعد سب سے افضل

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے خطبے جمعہ کا آغاز قرآنی آیت: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ» [النور:55] کی تلاوت سے کرتے ہوئے صحابہ کرام خاص کر حضرات عمربن خطاب اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کے فضائل پر روشنی ڈالی جو ذی الحجہ کے مہینے میں شہادت سے سرفراز ہوئے تھے۔
آخری اسلامی مہینے میں وقوع پذیر ہونے والے بعض اہم واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اسلامی تاریخ میں ذی الحجہ انتہائی اہم ماہ شمار ہوتاہے۔ اس مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فریضہ حج ادا کرکے حجۃ الوداع سرانجام دیا۔ حجۃ الوداع سے 81 دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ اسی مہینے کے 17 یا 18 تاریخ کو خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ 27 کو خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے تین دن بعد آپ شہادت سے سرخرو ہوئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعض فضائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے غور سے مسئلے کی طرف دیکھا جائے تو نبی کریم علیہ السلام تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں اور ان کے امام ہیں۔ پھر انبیا کے بعد صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سب سے زیادہ مقرب اور افضل بندے ہیں۔ صحابہ رض اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی کی نصرت و حمایت کیلیے منتخب فرمایاتھا۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ شاگرد تھے، انبیا کے بعد ان سے بہتر کوئی آیا ہے نہ ہی کوئی آئے گا۔ امام الانبیا کی مصاحبت و ہمنشینی ایک ایسی فضیلت ہے جو صحابہ کا خاصہ ہے۔ دیگر اولیا و مقربین الہی جتنی عبادت و ریاضت کریں صحابہ کرام کے مقام تک پہنچ سکیں گے۔
انہوں نے مزیدکہا: خلفائے راشدین تمام صحابہ میں افضل ترین تھے جنہوں نے ہجرت سے پہلے اور بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور ہر مشکل کی گھڑی میں ساتھ رہے۔ ان کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق ان کی پیروی کرکے کوئی کامیابی حاصل کرسکے گا، مسلمانوں سے وہی ایمان قبول ہوگا جو صحابہ کے ایمان کی مثل ہو۔
خیلفہ ثانی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بعض فضائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: خلیفۃ المسلمین ہونے کا باوجود آپ انتہائی سادہ پوش تھے، یہاں تک کہ آپ کے لباس پر وصلہ پایا جاتا تھا۔آپ ہرگز دولت جمع کرنے کی کوشش میں نہیں تھے۔ بلکہ آپ ہمیشہ رعایا کے مسائل کے حل کی کوشش میں تھے اور بذات خود ان کے مسائل حل فرماتے۔ ان کے دن رات کا مشغلہ یہی تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وقت کے دو “سپرپاورز” ایران اور روم کی کمر توڑ ڈالی۔ آپ نے ان کے عوام کو شرک و بت پرستی اور غلامی سے نجات دلائی۔ آپ کے دور میں عوام کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ ایک عام شہری سرعام خلیفہ کی تنقید کرتا اور اسے اس کی اجازت بھی حاصل تھی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض فضائل کی جانب مختصرا اشارہ کرتے ہوئے مزیدکہا: آپ کی پوری زندگی اسلام کیلیے وقف تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان و مال سے اسلام کے درخت کو ابیاری کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں۔ آپ کے دورخلافت میں شمالی افریقہ کے اکثر ممالک اور ہمارا بلوچستان فتح ہوکر اسلام کے زیرنگین آئے۔

انتہاپسند اینٹی سنی ذرائع ابلاغ ملکی امن واستحکام کیلیے خطرہ ہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایرانی صوبہ سیستان وبلوچستان میں سرگرم انتہاپسند اور فرقہ واریت کی پرچار کرنے والے ایک ہفت روزہ اور بعض ویب سائٹس کے بے بنیاد الزامات کی تردید ومذمت کرتے ہوئے حکومتی خاموشی پر افسوس کا اظہارکیا۔
انہوں نے کہا: حال ہی میں سرگرم ہونے والا ایک مقامی ہفت روزہ اور بعض ویب سائٹس ایک عرصے سے ایران کی سنی برادری کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے الزام تراشی سے اپنی جیب بھر لیتے ہیں۔ مذکورہ ذرائع ابلاغ کے مالکان لسانی و مسلکی انتہاپسندی کا شکار ہیں۔
خطیب اہل سنت نے ’’معتدل سنی علماء و شخصیات کی کردارکشی‘‘ کو ان ذرائع ابلاغ کا واحد مقصد قرار دیتے ہوئے کہا: مذکورہ جرائد و ویب سائٹس کے مضامین سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مستقل (حکومت سے دور) اور اعتدال کی راہ پر چلنے والے علماء و شخصیات کی کردارکشی اور ان پر بے بنیاد الزامات لگانے کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں، تہمت لگانا، گستاخی اور بدزبانی ان کی پہچان بن چکی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: انتہاپسند ویب سائٹس اور رسالوں نے ہرگز امن، اتحاد اور بھائی چارہ کے استحکام کیلیے کوشش نہیں کی ہے، ان کے مالکان اور ایڈیٹرز خود کو انقلاب کا مالک سمجھتے ہیں اور دوسروں پر مخالفت کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔حالانکہ یہ انقلاب سب کا ہے اور اس کیلیے تمام مسالک و قومیتوں نے قربانیاں دی ہے۔
نامور سنی رہنما نے تاکید کی’’دوسروں کو خاموشی پرمجبور کرانا اور اپنے جائزحقوق کے مطالبے سے دستبردار کرانا‘‘ ان ذرائع ابلاغ کے اہم مقاصد سے ہے۔ ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ کوئی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے، جب کوئی حق خواہی کیلیے آواز بلند کرتاہے تو یہ لوگ ہلڑبازی، گستاخی اور الزام تراشی سے اس کا منہ بند کرنے کی تلاش کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کے نتائج انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں جس سے شدت پسندی کو فروغ ملتی ہے اور معاشرہ کا امن خطرے میں پڑجائے گا۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے صوبائی حکام بشمول سیاسی، انٹیلی جنس اور عدالتی اداروں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں امید تھی متعلقہ حکام ایسے عناصر کا راستہ بند کریں گے، اسی لیے ہم نے خاموشی اختیار کی۔ لیکن یہ بات سب پر عیاں ہے کہ لسانیت اور مسلکی فرقہ واریت سے حکومت اور عوام بشمول شیعہ و سنی متاثر ہوچکے ہیں۔ اس لیے جلتی پر تیل کا کام کرنے والوں کو شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ہمیں یقین ہے ان ذرائع ابلاغ کو بعض دیگر عناصر سپورٹ کرتے ہیں اور یہ انہی کی ہدایت وترغیب پر سرگرم عمل ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے وزارت ثقافت و ارشاد سے شکوہ کرتے ہوئے کہا: اس وزارتخانے کی اجازت سے فرقہ وارانہ رسالے اور کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ ان کے ناشرین انتہائی گستاخی و دلیری سے اہل سنت اور ان کے غیرحکومتی علما پر برستے ہیں، انہیں کسی خفیہ طاقت کی حمایت حاصل ہے ورنہ اس دہن دری کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا: اگرچہ حکومت اور طاقت ان کے ساتھ ہے لیکن ہم (اہل سنت) بھی اتنے کمزور نہیں کہ کوئی ہمارا حق مارے اور اپنے پاؤں ہماری گردن پر رکھے، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ بعض مواقع پر ہماری خاموشی سنجیدگی اور شرافت کی وجہ سے ہے۔ امید ہے متعلقہ حکام مذکورہ انتہاپسندوں کو لگام لگائیں گے۔
حضرت شیخ الاسلام نے دو ممتاز سنی علماء کے سفرحج پر حکومتی بندش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض فرقہ پرست ویب سائٹس اور اخبارات نے لکھاہے مولانا مفتی قاسمی اور مولانا احمد ناروئی ’’سعودی عرب حکومت کے مہمان تھے‘‘، اس لیے انہیں حج سے روکا گیا! حالانکہ یہ حضرات سعودیہ کے نہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان تھے۔ یہ سفید جھوٹ مذکورہ عناصر کی تخلیق ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آخر میں ہفتہ بسیج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: بسیج اور پولیس کو عوام کی خدمت کرنی چاہیے۔ ان فورسز کی تشکیل عوام سے ہوئی ہے اور انہیں عوام کی خدمت کرنی چاہیے نہ کہ عوام کا قتل۔ افسوس کی بات ہے کہ پولیس کے رویہ سے عوامی شکایات بڑھ چکی ہیں، آئے دن معصوم اور بیگناہ شہریوں پر فائر کھول دی جاتی ہے جس سے متعدد شہری شہید ہوچکے ہیں۔ پولیس کو چاہیے اچھے تعلیم یافتہ سپاہیوں سے کام لے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں