تیونس میں آئین ساز اسمبلی کے لئے ووٹنگ جاری

تیونس میں آئین ساز اسمبلی کے لئے ووٹنگ جاری

تیونس(العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں) تیونس کے رائے دہندگان ایک آئین ساز اسمبلی کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ منتخب ہونے والے 217 اراکین اسمبلی ملک کے لیے ایک نیا آئین تیار کریں گے اور نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منظم کریں گے۔
تیونس کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات کے لیے پولنگ شروع ہو گئی ہے۔ پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوئی اور شام سات بجے تک جاری رہے گی۔ انتخابات سے قبل کرائے جانے والے جائزوں کے مطابق النہضۃ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے جبکہ پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کے دوسرے نمبر پر رہنے کے امکانات ہیں۔ اس دوران 40 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 13 ہزار مقامی جبکہ 6 سو غیر ملکی مبصرین انتخابی عمل کا جائزہ لیں گے۔
تیونس میں آمریت سے جمہوریت کی جانب سفر کے سلسلے میں یہ انتخابات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں ایک سو سے زیادہ جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ موزوں امیدوار کا انتخاب آسان نہیں ہو گا کیونکہ ان جماعتوں میں بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعتوں سے لے کر عرب اتحاد کی حامی سوشلسٹ جماعتوں اور سائنٹیفک سوشلزم کی ترجمان جماعتوں تک مختلف طرح کی جماعتیں شامل ہیں۔
بین الاقوامی برادری تیونس کے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حركت النہضۃ اسلاميہ ہے۔ تیونس جیسے سیکیولر معاشرے میں اگر یہ اعتدال پسند اسلامی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس کا گہرا اثر خطے میں موجود اسی طرح کی دیگر جماعتوں پر بھی پڑے گا۔ النہضۃ کے سربراہ راشد غنوشی نے کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے۔ زین العابدین بن علی کے دور میں اس جماعت پر پابندی تھی تاہم تیونس کی عبوری حکومت نے اسے سیاست میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔
تیونس میں ہونے والے انتخابات کوکئی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم ان میں دو وجوہات بہت اہم ہیں۔ ایک تو عرب ممالک میں جمہوریت کے حق میں چلنے والی تحریکوں کا آغاز اسی ملک سے رواں سال جنوری میں ہوا تھا۔ ساتھ ہی 1956ء میں فرانس سے آزاد ہونے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں، جن میں متعدد سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ عرب ممالک میں تیونس کی حیثیت ایک ماڈل ملک کی بھی رہی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی قانونی طور پر یہاں مردوں اور خواتین کو برابر کے حقوق حاصل رہے ہیں۔ تاہم حقیقت میں فوقیت مردوں کو ہی حاصل رہی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام پسند قوتیں برابری کے اس قانون کو ختم کروانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے یاسمین انقلاب کے بعد سےکئی خواتین بڑھ چڑھ کر سیاست مں حصہ لے رہی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں