’اعمال میں اخلاص، جسم کیلیے روح کی مانند ہے‘

’اعمال میں اخلاص، جسم کیلیے روح کی مانند ہے‘
molana_29خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے اس جمعے کے خطبے کا آغاز قرآنی آیت: کی تلاوت سے کرتے ہوئے اخلاص اور تصحیح نیت کے حوالے سے گفتگو کی۔

تصحیح نیت اور اعمال میں اخلاص پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’اخلاص‘ دین میں انتہائی اہم ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے تاکید کی ہے، آسمانی کتابوں میں اس پر بحث ہوئی ہے۔ ہر شخص جو عمل کرتا ہے وہ خاص اللہ تعالی کے لیے ہوناچاہیے۔
جامع مسجد مکی زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا خالص اور صحیح نیت اعمال کیلیے روح کی مانند ہیں۔ جتنی عبادات اور اعمال ہیں ان کی مثال ایک جسم کی ہے اور نیت اس جسم کے لیے روح کی مانند ہے۔ جب اعمال و عبادات میں روح آئے پھر یہ اعمال اللہ کے دربار میں قبول ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا نماز، مناسک حج، روزہ و دیگر عبادات جسم کی مانند ہیں، حقیقی نماز، حج اور روزہ وہ ہے جو خالص اللہ تعالی کے لیے ہوں۔ لیکن اگر ان عبادات کو بجا لاکر کوئی مادی غرض مطمح نظر ہو، ریا، نمود اور شہرت جیسی چیزیں مراد ہوں پھر اللہ تعالی کے یہاں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
نامور عالم دین نے کہا جتنی نیت خالص اور اچھی ہوگی اتنے ہی اعمال کی قدر و مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ارادہ قوی اور نیت سب سے زیادہ خالص و صادق تھی، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کو گالی مت دو، اگر بعد میں آنے والی نسلیں احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کریں، ان کا یہ عمل صحابہ کے ایک ’’مْد‘‘ (آدھا کلو) صدقہ کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ہمارے دیگر اعمال صحابہ کرام (رض) کے اعمال و عبادات کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست شاگرد تھے، ان کا اخلاص کئی گنا زیادہ تھا۔ وحی کا نزول ان کے سامنے ہوا اور انہوں نے جہاد سمیت ہر میدان میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور ساتھ دیا۔
حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کی نیت اور اخلاص کا تعلق قلب سے ہے۔ اگر کوئی زبان سے کہے یا اللہ یہ کام تیری رضا کیلیے کررہا ہوں مگر دل میں کچھ اور بات ہو، اس کے عمل کی کوئی قدر نہیں ہے۔ چھوٹا اور معمولی نیک کام اچھی نیت کیساتھ مقبول و مفید ہے لیکن بڑے سے بڑے عمل مادی نیت سے اگر ہو بیکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا اچھے اعمال جس طرح دنیا میں مشکلات کے حل کیلیے سازگار و مفید ہیں اسی طرح آخرت میں بھی عزت اور کامیابی کے باعث ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
ایک معروف حدیث نبوی کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا مجاہدین، علماء و قراء اور صدقہ کرنے والوں سمیت تمام لوگ اپنے اچھے اعمال خالص اللہ کے لیے کردیں، ریا، نمود اور لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے کوئی نیک کام نہیں کرنا چاہیے جو بربادی کا باعث ہے۔

امریکا اسامہ کے قتل سے نہیں اپنی آمرانہ پالیسیاں بدلنے سے امن پاسکتا ہے

اپنے بیان کے دوسرے حصے میں  القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل کے واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے دنیا میں القاعدہ جیسی تنظیموں کے وجود کو آمریت اور مغربی طاقتوں کی رعونت کا نتیجہ قرار دیا۔
جامع مسجد مکی زاہدان کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑے دہشت گرد کو قتل کیا ہے اور امریکی عوام نے اس واقعے پر جشن منایا جو ان کی حماقت و تکبر کی علامت ہے۔ یہ لوگ اپنے آس پاس وسایل و سہولیات دیکھ کر غرور میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ جو لوگ اقتدار کی ایوانوں تک پہنچتے ہیں خود کو سب سے برتر اور زیادہ عقلمند سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ عقلی طور پر انحطاط کا شکار ہوتے ہیں، یہی حالت امریکیوں کی ہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے سوال اٹھایا کہ جن کو دنیا دہشت گرد کہہ کر پکارتی ہے کیسے وجود میں آگئے؟ افغانستان، فلسطین اور لبنان سمیت دیگر ملکوں میں جو لوگ آزادی کے لیے جہاد کررہے ہیں اور اسرائیل و دیگر مغربی ممالک انہیں شدت پسند اور دہشت گرد گرادنتے ہیں یہ کہاں سے آئے؟
مولانا عبدالحمید نے تاکید کی جب مظلوموں کی آواز سننے کے لیے کوئی تیار نہیں پھر اسے رد عمل کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ جب زور بازو سے مسلم ممالک پر قبضہ کیا جاتا ہے، ان کی سرزمین پر فوجیوں اتاری جاتی ہیں اور عوام کی بات ٹال دی جاتی ہے پھر ایسے ہی گروہ وجود میں آکر ان کیلیے بلائے جان بنتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا امریکیوں کا دعویٰ ہے ان کے ملک میں جمہوریت اور آزادی پائی جاتی ہے، البتہ بعض امور میں واقعی آزادی ہے جیسا کہ انتخابات اور بعض مذہبی عبادات و رسوم کی ادائیگی میں آزادی دی جاتی ہے، امریکا اور بعض یورپی ممالک میں مسلمانوں سمیت دیگر ادیان کے پیروکاروں کو آزادی حاصل ہے، انتخابات میں فراڈ نہیں ہوتا، ماسکو جو کمیونسٹوں کا دارالحکومت ہے وہاں گزشتہ سال رمضان المبارک میں ۵۰ مساجد میں تراویح میں قرآن پاک ختم ہواہے، یہ سب اچھی باتیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ چیچنیا کے مسلمانوں کو ان کے حقوق کیوں نہیں دیے جاتے؟ مسالہ فلسطین میں امریکا سمیت دیگر طاقتیں صرف اسرائیل کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ پچاس سالوں سے فلسطینی عوام پر طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، افغان قوم کے مطالبہ کو ٹال کر ان کے ملک پر کیوں قبضہ جمایا گیا؟ یہی غلطی عرب آمروں نے تیونس، مصر، شام، بحرین، لیبیا و دیگر ممالک میں دہرائی اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قوموں کی آواز سننے کے لیے تیار نہ ہونے والوں کو دھماکوں کی آواز اور تشدد کی لہروں نے جگادیا۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: میری پیش گوئی یہ ہے کہ مشرق وسطی سے آمریت ختم ہوگی، البتہ جب تک متکبر طاقتیں آمریت، تشدد اور ظلم سے باز نہ آئیں، ہزاروں اسامہ قتل کرنے سے خودکش حملوں اور عسکریت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ جو حکمران سڑکوں پر اپنے ہی عوام سے دست و گریبان ہیں اور ان کا قتل عام کرتے ہیں، انہیں چین اس وقت آئے گا جب عوام کی بات سنیں اور ان کے مسائل حل کریں۔ اگر لیبیا، تیونس، یمن، مصر اور شام کے صدور و سربراہاں مملکت اپنے عوام کی بات سنتے آج انہیں اس قدر رسوائی و خفت نہ اٹھانی پڑتی۔
مولانا عبدالحمید نے مفید تنفید کی حمایت کرتے ہوئے کہا افواہ پھیلانا اور جھوٹے الزام لگانا قابل مذمت ہے، البتہ ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر تنقید کرنا حکمرانوں کیلیے فائدہ مند ہے۔ انہیں تنقیدی زبان خاموش کرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر تنقید پر قدغن لگائی جائے تو معاشرے میں آمریت کی وجہ سے بغاوت کا دھماکہ ہوگا اور آمریت کی فضا قائم ہوگی جو کسی بھی ریاست کیلیے زہر قاتل ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں