امریکااسامہ کے قتل سے نہیں اپنی آمرانہ پالیسیاں بدلنے سے امن پاسکتا ہے

امریکااسامہ کے قتل سے نہیں اپنی آمرانہ پالیسیاں بدلنے سے امن پاسکتا ہے
molana_26زاہدان (سنی آن لائن) القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل کے واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے دنیا میں القاعدہ جیسی تنظیموں کے وجود کو آمریت اور مغربی طاقتوں کی رعونت کا نتیجہ قرار دیا۔

جامع مسجد مکی زاہدان کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دنیا کی سب سے بڑے دہشت گرد کو قتل کیا ہے اور امریکی عوام نے اس واقعے پر جشن منایا جو ان کی حماقت و تکبر کی علامت ہے۔ یہ لوگ اپنے آس پاس وسایل و سہولیات دیکھ کر غرور میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ جو لوگ اقتدار کی ایوانوں تک پہنچتے ہیں خود کو سب سے برتر اور زیادہ عقلمند سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ عقلی طور پر انحطاط کا شکار ہوتے ہیں، یہی حالت امریکیوں کی ہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے سوال اٹھایا کہ جن کو دنیا دہشت گرد کہہ کر پکارتی ہے کیسے وجود میں آگئے؟ افغانستان، فلسطین اور لبنان سمیت دیگر ملکوں میں جو لوگ آزادی کے لیے جہاد کررہے ہیں اور اسرائیل و دیگر مغربی ممالک انہیں شدت پسند اور دہشت گرد گرادنتے ہیں یہ کہاں سے آئے؟
مولانا عبدالحمید نے تاکید کی جب مظلوموں کی آواز سننے کے لیے کوئی تیار نہیں پھر اسے رد عمل کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ جب زور بازو سے مسلم ممالک پر قبضہ کیا جاتا ہے، ان کی سرزمین پر فوجیوں اتاری جاتی ہیں اور عوام کی بات ٹال دی جاتی ہے پھر ایسے ہی گروہ وجود میں آکر ان کیلیے بلائے جان بنتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا امریکیوں کا دعویٰ ہے ان کے ملک میں جمہوریت اور آزادی پائی جاتی ہے، البتہ بعض امور میں واقعی آزادی ہے جیسا کہ انتخابات اور بعض مذہبی عبادات و رسوم کی ادائیگی میں آزادی دی جاتی ہے، امریکا اور بعض یورپی ممالک میں مسلمانوں سمیت دیگر ادیان کے پیروکاروں کو آزادی حاصل ہے، انتخابات میں فراڈ نہیں ہوتا، ماسکو جو کمیونسٹوں کا دارالحکومت ہے وہاں گزشتہ سال رمضان المبارک میں ۵۰ مساجد میں تراویح میں قرآن پاک ختم ہواہے، یہ سب اچھی باتیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ چیچنیا کے مسلمانوں کو ان کے حقوق کیوں نہیں دیے جاتے؟ مسالہ فلسطین میں امریکا سمیت دیگر طاقتیں صرف اسرائیل کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ پچاس سالوں سے فلسطینی عوام پر طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، افغان قوم کے مطالبہ کو ٹال کر ان کے ملک پر کیوں قبضہ جمایا گیا؟ یہی غلطی عرب آمروں نے تیونس، مصر، شام، بحرین، لیبیا و دیگر ممالک میں دہرائی اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قوموں کی آواز سننے کے لیے تیار نہ ہونے والوں کو دھماکوں کی آواز اور تشدد کی لہروں نے جگادیا۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: میری پیش گوئی یہ ہے کہ مشرق وسطی سے آمریت ختم ہوگی، البتہ جب تک متکبر طاقتیں آمریت، تشدد اور ظلم سے باز نہ آئیں، ہزاروں اسامہ قتل کرنے سے خودکش حملوں اور عسکریت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ جو حکمران سڑکوں پر اپنے ہی عوام سے دست و گریبان ہیں اور ان کا قتل عام کرتے ہیں، انہیں چین اس وقت آئے گا جب عوام کی بات سنیں اور ان کے مسائل حل کریں۔ اگر لیبیا، تیونس، یمن، مصر اور شام کے صدور و سربراہاں مملکت اپنے عوام کی بات سنتے آج انہیں اس قدر رسوائی و خفت نہ اٹھانی پڑتی۔
مولانا عبدالحمید نے مفید تنفید کی حمایت کرتے ہوئے کہا افواہ پھیلانا اور جھوٹے الزام لگانا قابل مذمت ہے، البتہ ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر تنقید کرنا حکمرانوں کیلیے فائدہ مند ہے۔ انہیں تنقیدی زبان خاموش کرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر تنقید پر قدغن لگائی جائے تو معاشرے میں آمریت کی وجہ سے بغاوت کا دھماکہ ہوگا اور آمریت کی فضا قائم ہوگی جو کسی بھی ریاست کیلیے زہر قاتل ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں