قران نذر آتش کرنے کی دھمکیاں امریکا میں قبولیتِ اسلام کا موجب

قران نذر آتش کرنے کی دھمکیاں امریکا میں قبولیتِ اسلام کا موجب
usa-muslims-prayersواشنگٹن(العربیہ) امریکا میں ریاست فلوریڈا کے ایک عیسائی پادری کی جانب سے گیارہ ستمبر سنہ 2001ء کے واقعات کی نویں برسی پرقرآن کریم کے نسخے نذرآتش کرنے کی دھمکی کے بعد غیر مسلم شہریوں کے اسلام کی طرف میلان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

عیسائی اکثریتی علاقے گریٹ واشنگٹن کے اسلامی مرکزکے ڈائریکٹر محمد ناصرنے بتایا ہے کہ ریاست فلوریڈا کے پادری اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے قران کریم کے نسخے نذرآتش کرنے کی دھمکیوں اور گراٶنڈ زیرو میں مسجد کی تعمیر کی مخالفت کے بعد صرف امریکی دارالحکومت میں 180 افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔
خیال رہے کہ واشنگٹن میٹرو پولیٹن ایریا میں میری لینڈ، ریاست ورجینیا اور دارالحکومت واشنگٹن جیسے اہم پانچ مقام شامل ہیں۔ ان علاقوں میں قیام پذیر شہری عیسائی ہونے کے ساتھ ساتھ امریکا کے امیر ترین باشندے بھی سمجھے جاتے ہیں۔
العربیہ کے نامہ نگارکے مطابق محمد ناصر نے اسلام کی جانب امریکیوں کے بڑھتے رُحجان سےمتعلق بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ “اسلام قبول کرنے والوں نے امریکا میں رونما ہونے والے بعض واقعات سے سبق سیکھا ہے۔ اسلام کی شدت کے ساتھ مخالفت کرنے والوں اور اس کی حامیوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات نے امریکیوں کو اسلام اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے کی طرف مائل کیا۔ جو بالآخر ان کے دائرہ اسلام میں داخلے کا باعث بنے۔
واشنگٹن کے شمال مشرق کے ایک نو مسلم جس نے اپنا اسلامی نام رابرٹ سپنسر سے تبدیل کرکے عبدالرحمان رکھا ہے نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغرب اور امریکا میں ہرسال اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔
پچھلے 12 سال میں امریکا میں سالانہ 100 مساجد کے تناسب سے 1200 مساجد تعمیر کی گئی ہیں جو امریکا میں تیزی کے ساتھ پھیلتے اسلام کی واضح نشانی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا میں اسلام قبول کرنے والے نو مسلم موروثی مسلمانوں سے زیادہ اسلام کے مبلغ بن کر ابھر رہے ہیں۔

اسلام کی طرف میلان میں اضافہ
العربیہ کے مطابق ریاست ورجینیا کے 33 سالہ مورن سکرنس کہتے ہیں کہ امریکا میں سالانہ 20 ہزار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اسلام قبول کرنےوالوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ نائن الیون کے واقعات کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی کی مذمت نے غیر مسلموں کو اسلام کے مطالعے کی طرف مائل کیا ہے۔
ریاست ورجینیا میں الھدیٰ اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر جمال غموس کہتے ہیں کہ ان کے پاس جب ایک مرتبہ کوئی غیر مسلم اسلام پربحث کے لیے آتا ہے تو اس کی اسلام میں دلچپسی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ وہ بار بار آتا ہے اور بالآخر اس کا دل اسلام پر مطمئن ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا میں مساجد کے پھیلتے نیٹ ورک سے بھی غیر مسلم متاثر ہو رہے ہیں۔
وہ مساجد میں آتےہیں اور مسلمانوں کو عبادت کرتے دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ غیر مسلموں کی اسلام کی طرف دلچسپی صرف ریاست ورجینیا ہی میں نہیں بلکہ امریکا کی دیگر ریاستوں میں قائم اسلامی مراکز بھی اسی طرح کے میلان کی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

براک اوباما اور اسلام
دوسری جانب افریقی نژاد سیاہ فام امریکی صدربراک اوباما کے بارے میں بیشتر امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ امریکا میں ان کے مسلمان ہونے کا تاثر دن بدن تقویت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ براک اوباما کی طرف سے اپنے مسیحی ہونے کے تکرار کے ساتھ اعلان کے باوجود صرف ایک تہائی امریکی انہیں عیسائی باور کرتے ہیں۔
حال ہی میں امریکا میں “ریلیجن اینڈ جنرلائف کلب”کے زیر اہتمام امریکی صدر کے مذہب سے متعلق کیے گئے عوامی سروے میں ہر پانچویں امریکی نے براک اوباما کو مسلمان تصور کیا ہے، جبکہ گذشتہ برس اسی طرح کے ایک سروے میں ہر دسویں امریکی نے اوباما کو مسلمان قرار دیا تھا۔
العربیہ کے مطابق امریکا میں ریپبلیکن سیاسی رہنماٶں کی اکثریت براک اوباما کے مسلمان ہونے کےتاثرسے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ریپبلیکن اس تاثر کو عام کر کے ڈیموکریٹس اور صدر براک اوباما کو کانگریس کے آئندہ انتخابات میں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ریپبلیکن کے اس تاثر کے باوجود جہاں اوباما کی عوامی حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی وہیں کانگریس میں آزاد ارکان میں 18 فیصد تعداد بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اوباما نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال امریکا میں ماضی کی بنسبت عوامی اور حکومتی سطح پر سیاست اور مذہب کے معاملات زیادہ موضوع بحث رہے ہیں۔بالخصوص نائن الیون کے حادثے کی یاد میں ریاست فلوریڈا اور کینساس کے پادریوں کی طرف سے قرآن کریم کے نسخے نذر آتش کرنے اور گراٶنڈ زیرو کے مقام پر قرطبہ اسلامی مرکز کی تعمیر نے امریکی سیاسی حلقوں میں غیر معمولی ہل چُل پیدا کی جس کی بازگشت تاحال سنائی دے رہی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں