افغان انتظامیہ کے متعدد عہدے دار سی آئی اے کے تنخواہ دار ایجنٹ

افغان انتظامیہ کے متعدد عہدے دار سی آئی اے کے تنخواہ دار ایجنٹ
cia1واشنگٹن(العربیہ۔نیٹ) امریکا کی مرکزی خفیہ ایجنسی سی آئی اے افغان صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ کے متعدد عہدے داروں کو معلومات اور اہم رازوں کے حصول کے عوض رقوم ادا کر رہی ہے۔

اس بات کانکشاف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی جمعہ کی اشاعت میں کیا ہے۔ گذشتہ روز نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی تھی کہ صدرحامد کرزئی کا ایک قریبی معاون افغان نیشنل سکیورٹی کونسل کی انتظامیہ کے سربراہ محمد ضیاء صالحی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے تنخواہ دارآلہ کار ہیں اور انہیں سی آئی اے گذشتہ کئی سال سے رقوم ادا کر رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے امریکا کے موجودہ اور سابق حکام کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا ہے کہ سی آئی اے ایک طویل عرصے سے افغان حکومت میں اپنے معلومات کے ذرائع کو برقرار رکھنے کے لیے رقوم ادا کر رہی ہے۔ ان عہدے داروں کو معلومات کے حصول کے بدلے میں رقم ادا کی جاتی تھی یا کرزئی انتظامیہ میں امریکی نقطہ ہائے نظر کو آگے بڑھانے یا ان دونوں مقاصد کے لیے رقم ادا کی جاتی رہی ہے۔
اخبار کو ایک امریکی عہدے دار نے اپنی شناخت صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ افغان صدر کے بعض معاونین سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کر رہے تھے اور دوسروں کو ان مخبروں کو معلومات تک رسائی دینے کے عوض رقوم ادا کی جاتی تھیں۔
سی آئی اے نے اب بھی افغان حکام کو رقوم کی ادائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ بدعنوانیوں کو پروان چڑھا رہی ہے۔ اس سے افغانستان میں اوباما انتظامیہ کی پالیسی میں گہرے تضادات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ اوباما انتظامیہ ایک طرف تو کرزئی حکومت پر ملک سے بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے دباٶ ڈال رہی ہے اور دوسری جانب امریکی سی آئی اے حامد کرزئی انتظامیہ کے عہدے داروں کو رقوم ادا کر رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے سی آئی اے کے ایک سابق افسر کے حوالے سے کہا ہے کہ ”ایجنسی کی جانب سے افغان حکام کو رقوم کی ادائی ضروری تھی کیونکہ ریاست کا سربراہ تو آپ کو سب کچھ بتانے سے رہا اور پھر حامد کرزئی اکثر اپنی حکومت کے ارکان کے اقدامات وافعال سے بھی آگاہ نہیں ہوتے”۔
امریکی صدر براک اوباما نے اس سال کے آغاز میں حامد کرزئی پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی حکومت میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں کیونکہ اس کی وجہ سے جنگ زدہ ملک میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
اوباما انتظامیہ کے بعض عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سرکاری سطح پر کرپشن خود افغان حکومت اور امریکی مشن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور کرزئی حکومت کی بدعنوان فطرت ہی کی وجہ سے عام افغان شہری طالبان مزاحمت کاروں کے حامی بن جاتے ہیں۔
گذشتہ روز نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ افغان صدر کے ایک قریبی معاون ضیاء صالحی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں اور انہیں سی آئی اے بھی رقوم ادا کرتی رہی ہے۔ انہیں افغان پولیس نے بدعنوانیوں کے الزام میں جولائی میں گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں صدر کرزئی کی مداخلت پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ ان کی رہائی سی آئی اے کے ساتھ تعلقات کا نتیجہ تھی یا کسی اور وجہ سے انہیں رہا کیا گیا تھا۔
افغان پولیس نے ضیاء صالحی کو اپنے بیٹے کے لیے رشوت میں ایک کار لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ انہوں نے یہ کار افغان حکام ، منشیات کے اسمگلروں اور مزاحمت کاروں کے لیے اربوں ڈالرز کی رقوم بیرون ملک بھجوانے کی ذمے دار کمپنی کے خلاف جاری تحقیقات کو رکوانے کے عوض وصول کی تھی۔
امریکی حکام کے مطابق اس وقت جو دوسرے افغان عہدے دار سی آئی اے کے تنخواہ دار ملازم یا آلہ کارکے طور پر کام کر رہے ہیں، ان میں صدر کرزئی کے سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی سب سے نمایاں ہیں اور ان کے بارے میں شُبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ افغانستان میں پوست کی تجارت کے حالیہ فروغ میں ان کا اہم کردار ہے۔ وہ قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ ہیں۔وہ سی آئی اے کے ساتھ اپنے کسی قسم کے مالی لین دین یا منشیات کی تجارت سے تعلق کی تردید کرتے ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں