ٹھٹھہ دریا ئے سندھ کے نشانے پر ، مزید سو دیہات زیرِ آب

ٹھٹھہ دریا ئے سندھ کے نشانے پر ، مزید سو دیہات زیرِ آب
pk-ploods4کراچی(خبررساں ادارے) ضلع ٹھٹہ میں کوٹ عالموں کے مقام پر دریائے سندھ کےسورجانی بند میں پڑنے والا شگاف تیسرے روز بھی پُر نہیں کیا جاسکا جبکہ دریا کے حفاظتی بند میں دو مزید مقامات پر شگاف پڑنے  کے بعد ضلع کے مزید سو دیہات زیرِ آب آگئے ہیں۔

سرکاری حکام  کے مطابق ضلع کے متاثرہ علاقوں سے نقل  مکانی کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جن میں سے  ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد سرکاری کیمپوں میں مقیم ہیں۔  سیلابی ریلہ اس وقت ضلع کی ایک بڑی شہری آبادی دَڑو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پہ موجود ہے۔
بدھ کی رات ٹھٹہ میں کوٹ عالموں کے مقام پر دریائے سندھ کے سورجانی بند میں شگاف پڑ گیا تھا  اور امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ شگاف سے نکلنے والا سیلابی ریلہ ضلع کی تین بڑی شہری آبادیوں میر پور بٹَھورو، دَڑو اور سِجاول کو ڈبودے گا۔ سیلابی ریلے سے بند کے کئی مضافاتی دیہات پہلے ہی مرحلے میں زیرِ آب آگئے تھے جبکہ دیگر قریبی علاقوں سے آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سلسلہ گذشتہ دو روز سے جاری ہے۔
ٹھٹہ ہی میں بَھریو شیدی موری کے مقام پر بھی دریا کے حفاظتی بند میں شگاف پڑنے کی اطلاع ہے تاہم سرکاری حکام اس کی تصدیق نہیں کررہے ۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز  اخلاق احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ریلے کے راستے میں آنے والے تمام علاقوں سے آبادی کا 80 فیصد انخلاء مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ اس مقصد کے لیے ٹھٹہ کے پڑوسی اضلاع، حیدرآباد، کراچی اور بدین سے گاڑیاں اور دیگر وسائل بھی استعمال میں لائے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تاحال سورجانی بند میں پڑنے والے شگاف کو پر نہیں کیا جاسکا ہے، جبکہ دریا ئے سندھ میں ٹھٹہ ہی کی حدود میں منارکی بند میں کھوسہ گوٹھ کے قریب بھی ایک شگاف پڑ گیا ہے جسے پاکستان کوسٹ گارڈ اور محکمہ آب پاشی سندھ کے اہلکار پر  کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ادھر ٹھٹہ میں ریلیف سرگرمیوں کے انچارج اور پی ڈی ایم اے کے فوکل پرسن  ہادی بخش کلہوڑو نے وی – او-  اے کو  بتایا کہ سیلابی ریلے سے سب سے زیادہ یونین کونسل بیلو کو نقصان پہنچا ہے جس کا سو فیصد علاقہ زیرِ آب آچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلابی پانی سے ضلع کی تین یوسیز کے 100 دیہات ڈوب چکے ہیں ، جبکہ متاثرہ علاقوں سے آبادی کے انخلاء کے لیے بھیجی جانے والی کئی گاڑیاں بھی سیلابی پانی میں پھنسی ہوئی ہیں۔
ضلع میں قائم فلڈ کنٹرول روم میں موجود ایک سرکاری اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ  ضلع میں سرکاری انتطام کے تحت قائم کردہ 170 ریلیف کیمپوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب متاثرین پہنچ چکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد کیمپوں میں گنجائش نہ ہونے کے باعث سڑکوں کے کناروں اور دیگر اونچے مقامات پہ کھلے آسمان تلے پناہ لینے پہ مجبور ہے۔
اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ سیلابی ریلہ دڑو شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پہ بہنے والی ایک لنک کینال میں گر رہا ہے۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر نہر پانی کا دبائو برداشت کرنے میں ناکام ہوگئی تو سیلابی ریلہ دڑو شہر کو نشانہ بنانے کے بعد پہلے میرپور بٹَھورو اور پھر سجاول کی جانب جاسکتا ہے۔
میر پور بٹھورو کے ایک رہائشی انجنیئر رضوان میمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ حکومت کی جانب سے علاقہ چھوڑنے کی وارننگ ملنے کے بعد اپنے تمام تر اہلِ خانہ سمیت  کراچی آگئے ہیں اور اپنے عزیزوں کے ہاں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ سیلابی ریلہ پانچ سے چھ گھنٹوں میں میر پور بٹھورو پہنچ جائے گا جس کے سبب انہیں نہایت افراتفری اور خوف کے عالم میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ حالانکہ ان کے مطابق پانی چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی دڑو بھی نہیں پہنچا جو ان کے مطابق ان کے شہر سے بیس منٹ کی ڈرائیو پہ سیلابی ریلے کی گزرگاہ پہ واقع ہے۔
دوسری جانب بالائی سندھ سے آنے والی اطلاعات کے مطابق آربی او ڈی کینال میں شگاف کے بعد گاؤں یار محمد بروہی کے نزدیک دو کٹ لگاکر پانی کا رخ موڑ نے کے بعد  چار لاکھ آبادی کے شہر شہداد کوٹ کو ایک بار پھر بچالیا گیا ہے۔ تاہم شہداد کوٹ کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی سیلاب کے خطرے کے پیشِ نظر پہلے ہی نقل مکانی کر چکی ہے۔
شہداد کوٹ کی طرف بڑھنے والے سیلابی ریلے کا رخ حمل جھیل کی جانب کردینے کے بعد جھیل میں پانی اپنی انتہائی سطح پر پہنچ چکا ہے اور محکمہ آب پاشی کے حکام کی جانب سے امکان ظاہر کیا جارہا  ہے کہ حمل جھیل سے پانی کا بڑا سیلابی ریلہ آج رات کسی وقت دادو ضلع کی حدود میں داخل ہوکر میہڑ، خیرپور ناتھن شاہ اور جوہی تحصیلوں کے 400 کے قریب دیہاتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ علاقے کے ممکنہ متاثرہ دیہاتوں سے آبادی کا انخلاء شروع کردیا گیا ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں