بلوچستان: امدادی رقم بہت کم ہے

بلوچستان: امدادی رقم بہت کم ہے
pakistan_flood_aidکوئٹہ(بی بی سی) حکومت بلوچستان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیلاب زدہ افراد کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت نے صرف پانچ کروڑ روپے کی امداد کی ہے جونہ ہونے کے برابر ہے اور صوبائی حکومت متاثرین کی بحالی کے لیے بین الاقوامی ڈونرکانفرنس بلانے پر غور کر رہی ہے۔

بلوچستان حکومت کی فوکل پرسن محترمہ راحیلہ درانی نے کوئٹہ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کے گیارہ اضلاع سیلاب سے متاثرہوئے ہیں لیکن سب سے زیا دہ نقصانات ضلع جعفر آباد میں ہوئے ہیں جہاں تقریباً چھ لاکھ افراد نہ صرف بے گھر ہوئے ہیں بلکہ چھ لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی اراضی پر فصلیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے مختلف علاقوں تقریباً چھ لاکھ افراد بلوچستان آ چکے ہیں جن کے لیے ڈیرہ مراد جمالی، سبی اور کوئٹہ میں چھبیس کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے گیارہ کیمپ آرمی اور فرنٹیئررکور کے کنٹرول میں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں راحیلہ درانی کے کہا کہ وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے متاثرہ علاقوں کے ایم پی ایز کو ایک ایک کڑور پے تک متاثرین کی بحالی کے لیے خرچ کرنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اس مقصد کے لیے بائیس کروڑ روپے مختص کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کی جانب پانچ کروڑ روپے یوٹیلٹی سامان کی صورت میں دیے جارہے ہیں، اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال بلوچستان کو کیش کی صورت میں کوئی رقم نہیں ملی ہے۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ صوبائی حکومت سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے بین الاقوامی ڈونرکانفرنس بلانے پر بھی غور کررہی ہے۔
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق بلوچستان کے جھل مگسی میں ہزاروں کی تعداد میں متاثرین ابھی تک کھولے آسمان تلے پڑے ہیں، امدادی سامان اور صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث ان متاثرین نے جمعہ کے روز فتح پور کے مقام پر سڑک بلاک کرکے سندھ بلوچستان شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا جس کے باعث علاقے میں ہونے والا امدادی کام متاثر ہوا۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ انکے پاس بجلی نہ ہونے کے باعث شدید گرمی میں کئی لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور آج صبح ایک اور سات سالہ بچی علاج نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئی۔
تاہم ڈپٹی کمشنر جھل مگسی شوکت ملغانی نے کہا کہ ان متاثرین کی جتنی بھی امدادکی جائے وہ مطمعن ہی نہیں ہوتے اور جو بچی ہلاک ہوئی ہیں وہ پہلے سے بیمار تھی۔ ’حالانکہ نیم سرکاری ادارے بی آر ایس پی نے وہاں میڈیکل کیمپ قائم کیا ہے جہاں مرد اور لیڈی ڈاکٹرز ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان متاثرین کی خیمہ بستی کے لیے بجلی کا بھی انتظام ہورہا ہے۔‘
دوسری جانب سندھ اور بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں افراد کوئٹہ پہنچ چکے ہیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے ان متاثرین کے لیے اب تک صرف پانچ کیمپ قائم ہوئے ہیں جس کے باعث ابھی تک متاثرین کی ایک بڑی تعداد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔
تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل نے حکومت بلوچستان کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔
ٹیلی فون پر ایک نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیلاب متاثرین کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابرہیں۔ انہوں نے پارٹی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ متاثرین کی بھر پور امداد کریں کیونکہ یہ ہمارے مہمان ہیں۔ سردار اخترکی ہدایت پر پارٹی کارکنوں نے وڈھ میں سندھ اور بلوچستان کے متاثرین میں ساڑے چالاکھ روپے کا سامان تقسیم کیا ہے۔
ادھر کل سبی کے پہاڑی علاقوں میں دوبارہ بارش ہونے کے باعث سیلابی پانی کا ایک نیا ریلا تلی، نوتال اور بختیار آباد میں داخل ہوا ہے جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے لیکن زیرکاشت فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ حکام کے مطابق بلوچستان میں اب تک چھ لاکھ پچاس ہزار ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں