ترک وزیر خارجہ کی دمشق میں حماس کے سربراہ سے ملاقات

ترک وزیر خارجہ کی دمشق میں حماس کے سربراہ سے ملاقات
gaza-siegeانقرہ/دمشق (ایجنسیاں) ترک وزیر خارجہ احمد داٶد اوغلو نے دمشق میں مقیم حماس کے سربراہ خالد مشعل سے ملاقات کی ہے جس میں حماس اور فتح کے درمیان اختلافات اور غزہ کی ناکہ بندی کے حوالے ختم کرانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی کے مطابق سوموار کو ہوئی ملاقات میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس اور صدر محمود عباس کی فتح تحریک کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لیے مختلف طریقوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ امن عمل پر بات چیت کی گئی ہے۔
درایں اثناء حماس نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ملاقات میں اسرائیلی فوج کے غزہ کی پٹی کے محاصرے کے خاتمے کے لیے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور احمد داٶد اوغلو نے یقین دلایا ہے کہ ترکی غزہ کے محاصرے کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا”۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ترکی کی اسرائیل کے ساتھ 31 مئی کو غزہ جانے والے امدادی قافلے پر صہیونی کمانڈوز کے حملے کے بعد سے شدید کشیدگی پائی جا رہی ہے اور بعض میڈیا نے اس رائے کا ظہار کیا ہے کہ اس ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حماس کی ویب سائٹ کے مطابق داٶد اوغلو نے خالد مشعل کو بتایا کہ ترکی ابھی تک اسرائیل سے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی معافی، متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے اور حملے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ترک وزیر خارجہ نے دمشق میں شامی صدر بشار الاسد سے بھی ملاقات کی جس کے بعد وہ افغانستان کے لیے روانہ ہو گئے جہاں وہ جنگ زدہ ملک کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔

”دہشت گردی” کا لیبل

اسرائیل، حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے جبکہ حماس صہیونیوں کو فلسطینی علاقوں پر قابض دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ اسرائیل ماضی میں ترک عہدے داروں کے فلسطینی تنظیم کے ساتھ روابط پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کر چکا ہے۔
لیکن فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی بحری کمانڈوز کے حملے کے بعد ترک وزیر اعظم نے حماس کے لیے اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی کے لگائے گئے لیبل کو مسترد کر دیا تھا اور فلسطینی تنظیم کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”وہ ایک مزاحمتی گروپ ہے جو اپنی سر زمین کے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے”۔
ایردوان کی اسلامی جڑیں رکھنے والی حکومت متعدد مرتبہ یہ کہہ چکی ہے کہ حماس کو بے دخل کرنے سے مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، اس لیے امن عمل کی کامیابی کے لیے حماس کی مذاکرات میں شرکت ضروری ہے۔ ترک حکومت حماس پر بھی یہ زور دے چکی ہے کہ وہ تشدد کی مذمت کرے اور امن کی سیاست کرے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے ترک امدادی قافلے پر حملے کے بعد بین الاقوامی دباٶ کے پیش نظر غزہ کی پٹی کے محاصرے میں کچھ نرمی کی ہے اور محصورین کے لیے مزید اشیاء غزہ لے جانے کی اجازت دے دی ہے لیکن عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینی علاقے کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
صہیونی فوج نے گذشتہ چار سال سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملے روکنے کے نام پر غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اسرائیل حماس کی سفارتی اور سیاسی حمایت کرنے والے ممالک کے خلاف بھی غلط طرز عمل اختیار کرتا رہتا ہے۔
ترکی نے فروری 2006ءمیں فلسطینی علاقوں میں منعقدہ عام انتخابات میں حماس کی شاندار کامیابی کے بعد خالد مشعل کی قیادت میں حماس کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی جس پر اسرائیل نے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا حالانکہ ترکی نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر رکھے تھے، اپنی آزادی اور آزادانہ طرز عمل کو یہودیوں کے ہاں گروی نہیں رکھا تھا۔
ترک وزیر خارجہ احمد داٶد اوغلو کی قیادت میں ایک ترک ٹیم نے جنوری 2009ء میں شام میں مقیم حماس کی قیادت اور مصری عہدے داروں کے درمیان اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ بائیس روزہ جنگ بند کرانے کے لیے بات چیت میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور ترک عہدے دار متحارب فلسطینی دھڑوں کے درمیان بھی مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں