تاریخی شہر “شیراز”، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد

تاریخی شہر “شیراز”، صفوی یلغار سے پہلے اور بعد
shirazاسلامی تاریخ میں “شیراز” کا شمار علم وفقہ اور شعر وشاعری کے مراکز میں ہوتاہے۔ اپنے عروج کے دور میں یہ شہر ثقافت وتہذیب کے آسمان میں ایک روشن اور تابندہ ستارہ تھا جس کے گود میں ہر فن وعلم کے ماہرین نے تربیت پائی اور عالم انسانیت کی خدمت کی۔

یہاں تک کہ علم وعرفان، تزکیہ واصلاح اور شاعری کا مرجع سمجھا جانے والا شہر عروج سے زوال کی طرف رواں دواں ہرکر اپنی قابل فخر حیثیت کھوگیا۔
جغرافی لحاظ سے صوبہ “فارس” کا دارالحکومت “شیراز” ایران کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ تہران اور مشہد کے بعد ایران کا تیسرا بڑا شہر شیراز ہے جس کا کل رقبہ 340 کلومیٹر ہے۔ صوبہ فارس کی سرحدیں شمال کی طرف سے اصفہان سے ملتی ہیں جبکہ مشرق میں کرمان اور یزد کے علاقے واقع ہیں۔ اس کے جنوب میں صوبہ ہرمزگان جبکہ مغرب میں بوشہر پڑوس واقع ہوا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے شیراز ایران کے نقشے پر چھوتا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباْ سترہ لاکھ 223 ہزار ہے۔ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے شیراز کی نشوونما اور ترقی اسلامی فتوحات کے بعد ہوئی۔ یہ شہر اپنی جیوگریفک اہمیت اور اسٹریٹجی کی وجہ سے فارس کا دارالحکومت بنا اور آج تک فارس (جو اب ایک صوبے تک محدود ہے) کا دارالحکومت ہے۔ “الروض المعطار فی خبرالاقطار” کتاب میں آتاہے کہ “شیراز” ملک فارس کا سب سے بڑا شہر ہے جو حکمرانوں اور مزدوروں کا ماویٰ ومسکن ہے۔ اس کا اپنا دیوان اور جرگہ ہے۔ یہ مسلمانوں کا بنا ہوا شہر ہے جس کی بنیاد “محمد بن قاسم بن ابی عقیل” نے ڈالی۔ شیراز کا مطلب ہے شیر کا پیٹ، اس نام کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک کی پیداوار شیراز آتی ہے لیکن یہاں سے کوئی چیز نہیں جاتی ہے۔ مسلمانوں کا لشکر جب اس علاقے میں آیا تو “اصطخر” کی فتح سے پہلے انہوں نے یہاں پڑاؤ ڈالا۔ لشکر کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں نے اس مقام کو مبارک سمجھتے ہوئے “شیراز” کی تاسیس اسی جگہ پر کردی۔ اس شہر کی لمبائی 3 میل ہے جس کے گرد ونواح میں اچھے علاقے ہیں۔ مکانات ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ یہاں کوئی بڑی عمارت یا بازار نہیں ہے۔ افواج کی چھاؤنی اسی شہر میں واقع ہے۔ شیراز کے لوگ کنویں کا پانی پیتے ہیں”۔
“معجم البلدان” نامی کتاب میں آتاہے: “اس شہر کی عمارتوں کی تعمیرنو اور نقشہ سازی اسلام کے دور میں ہوئی۔ کہا گیا ہے سب سے پہلے محمد بن قاسم نے اس کی تعمیر کی تھی۔ نیز اسے شیراز نام دیا گیا چونکہ یہاں سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی البتہ ہرجگہ سے درآمد کاسلسلہ بند نہیں ہوتا۔ تابعین کی بڑی تعداد اس شہر میں دفن ہے”۔
اسلامی تاریخ کی ابتدائی صدیوں میں شیراز کا شمار علوم وفنون کے مراکز میں ہوتا تھا۔ سارے اسلامی مذاہب ومکاتب فکر کے علماء کا ماویٰ شیراز تھا اور کیوں ایسا نہ ہو۔ جس شہر کی بنیاد ایک مسلمان حکمران نے ڈالی ہو اور مسلمانوں کے لشکرنے وہاں پڑاؤ ڈالاہو تو اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔
اس شہر کی تاریخ اور عروج وزوال کے اسباب پر نگاہ رکھنے والوں کو بآسانی اندازہ ہوجاتاہے کہ “فارس” کے لوگ کس قدر پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے۔ اس محبت کی جھلکیاں ان کے اشعار اور تحریروں سے صاف نظر آتی ہیں۔ نیز ایک زمانے تک اس شہر کے باسیوں کا رجحان حدیث کی طرف رہا۔
تاریخ نویسوں اور دائرۃ المعارف مرتب کرنے والوں نے شیراز کا تذکرہ اپنی تصانیف میں بہت کیا ہے اور مختلف زاویوں سے اس شہر کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ اس لیے شیراز میں رہنے والے بادشاہوں، علماء وفقہا، محدثین اور قضات کا تذکرہ تفصیل سے الگ کتابوں میں موجود ہے۔ اس شہر میں آنے والی تہذیبوں اور اس تاریخی شہر سے برآمد ہونے والی تہذیبوں اور ثقافتوں کی تفصیلی معلومات بھی اسی طرح دستیاب ہیں۔
یہاں تک کہ بعض مصنفین نے شیراز کے فقہاء وشعراء کے تذکرے کے لیے مخصوص کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان کے حالات وسوانح عمری پڑھ کر ہر قاری زبان حال سے یہی کہے گا کہ بلا شبہ سچ کہا ہے نبی کریم (ص) نے کہ “لوکان العلم بالثریا لتناولہ رجال من فارس” اگر علم آسمان میں ثریا کے پاس ہو پھر بھی سرزمین فارس کے بعض مرد اسے حاصل کریں گے۔ یقیناًایک ایسا شہر جو علماء وفقہاء کا مرکز رہا ہو تو اسے فخر کرنے کا پورا حق ہے جہاں اسلامی سرزمین کے طول وعرض سے علم وفیض کے پیاسے جمع ہوتے تھے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔

مناسب ہے شیراز کے دور عروج کی بعض شخصیات کی سوانح عمری کا مختصراً تذکرہ کیا جائے تاکہ دسویں صدی ہجری تک شیراز کے علمی وثقافتی عروج اور اس کے بعد پیدا ہونے والے زوال کی وجوہات کا تجزیہ کیا جاسکے۔

حسن بن عثمان ابوحسان الزیادی الشیرازی:
ان کا شمار بڑے محدثین ومورخین میں ہوتاہے۔ وہ ثقہ عالم دین تھے جنہوں نے قضاوت کا عہدہ بھی سنبھالا۔ تاریخ پر ایک کتاب لکھی۔ ان کے شاگردوں میں محمد بن ادریس الشافعی، اسماعیل بن علیہ، وکیع بن الجراح و دیگر کا نام قابل ذکر ہے۔ “طبری” کے مطابق حسن بن عثمان الشیرازی 272 ھ.ق کو انتقال کرگئے۔

ابو عبداللہ محمد بن خفیف الشیرازی:
سرزمین فارس کے انتہائی زاہد ومتقی شخص تھے جو اپنے دور کے قطب تھے۔ علوم ظاہری کے ماہرترین عالم سمجھے جاتے تھے۔ ابوعبداللہ الشیرازی رؤیم، ابوالعباس بن عطاء اور طاہرالمقدسی جیسی شخصیات کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار اکابرین میں ہوتاتھا۔ زندگی کی 104 بہار دیکھنے کے بعد سنہ 371 ھ.ق میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کے جنازے کے ساتھ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد نکل گئی تھی۔

احمد بن عبدالرحمن الحافظ الشیرازی ابوبکر:
موصوف کا شمار حفاظ حدیث میں ہوتا تھا جو بکثرت روایت کرتے تھے۔ انہوں نے ابوبکر بن احمد بن ابراہیم الاسماعیلی، ابوسہل احمد الاسفرائینی اور ابواحمد محمد الحافظ ودیگر عراقی، خراسانی وجبلی مشایخ سے روایت کی ہے۔ جبکہ ابوطاہر بن سلمۃ، ابوالفضل بن غیلان اور ابوبکر الزنجانی سمیت ایک بڑی جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔ احمد بن عبدالرحمن ثقہ، حافظ اور سچے محدث تھے۔ کئی سالوں تک ہمدان (ھمذان) میں رہے پھر سنہ 404 ھ.ق میں شیراز منتقل ہوئے اور شیراز ہی میں 411 ھ.ق کو ان کا انتقال ہوا۔

احمد بن منصور الشیرازی:
یہ شیخ کثرت سے سفر کرنے والے اور حدیث روایت کرنے والے تھے۔ حاکم نیشابوری نے لکھاہے: “احمد بن منصور زاہد اور طلب حدیث کے لیے بہت سفر کرنے والے تھے۔
کثرت سے حدیث سماع اور جمع کرتے تھے۔ 338 ھ.ق میں ہمارے پاس نیشابور آئے اور کئی سالوں تک یہیں رہے۔ مشایخ اور ابواب حدیث کے حوالے سے ان کے پاس بڑی تعداد میں کتابیں تھیں۔ انہوں نے عراق اور شام کا سفر بھی کیا۔ اس کے بعد اپنے آبائی علاقہ “شیراز” واپس آگئے۔ وہ شیراز میں از حد مقبول تھے اور نیکی واچھائی میں ضرب المثل تھے۔ شیراز ہی میں شعبان 382 ھ.ق کو انتقال کرگئے”۔

“شیراز” کے مشاہیر اور دانشور علماء کے ناموں کی فہرست کافی لمبی ہے جس کا احاطہ یہاں مشکل ہے۔ ساتویں صدی میں سید قطب الدین محمد الحسنی جیسے عالم وعارف باللہ، فن نحو کے ماہر حسن بن احمد الفارسی شیراز کے بسنے والے تھے۔ اس شہرمیں بستے تھے۔ معروف شاعر وعارف مصلح الدین سعدی شیرازی بھی اسی صدی میں رہے ہیں جن کی دومایہ ناز فارسی کتابیں “بوستان” اور “گلستان” بہت معروف ہیں۔
اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں نجومیات کے ماہر عالم ابوالحسن بن محمد شیرازی نے شیراز کا نام بلند کردیا۔ معروف نحوی عالم وادیب، نحویوں کے امام ابوبشیر عمرو بن عثمان بن قنبر البصری (140 هـ / 760 م-180 هـ / 796 م) ملقب بہ “سیبویہ” کی نسبت بھی اسی شہر کی طرف ہے۔
شروع میں سیبیویہ نے فقہ وحدیث میں مہارت حاصل کی پھر عربی زبان کو اپنا موضوع بنایا اور اس فن میں اپنے زمانے کے امام بن گئے۔ چنانچہ عربی ادب میں انہوں نے ایک ایسی کتاب لکھی جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ سیبویہ کا انتقال 180 هـ.ق میں ہوا۔
”شیراز” ہی کے ایک اور فرزند ارجمند حسن بن خطیر المعروف ابوعلی الفارسی تھے جو مختلف علوم وفنون کے ماہر تھے۔ عشر وشاذ، تفسیر، ناسخ ومنسوخ، فقہ واختلاف ودیگر علوم کے استاد تھے۔ علوم قراء ات کے ماہر ابوعلی الفارسی کا انتقال 598 ھ.ق کو قاہرہ میں ہوا۔
عالم اسلام کے نامور علماء وفقہاء اور شعراء کے ظہور کا سلسلہ ”شیراز” سے اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ سنہ 909 ھ.ق کو درندہ صفت صفویوں نے اس تاریخی شہر پر اپنا قبضہ جمالیا۔
ایران کے دیگر شہروں کی طرح شیراز بھی صفویوں کی درندگی وسربریت سے محفوظ نہیں رہا، انسان دشمن، علم دشمن اور وحشی صفویوں نے اس شہر سے علم وفقہ اور تعلیم کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا چنانچہ کئی صدیوں تک علم وہدایت کا روشن مینار بننے والا شیراز جہالت، رفض اور نادانی کی کھائیوں میں بری طرح گرگیا۔ صفوی درندے جس شہر کا رخ کرتے جیسا کہ ”اصفہان” ہو یا ”شیراز” یا کہ ”تبریز” سب سے پہلے علم اور اہل علم ان کا نشانہ بنتے چنانچہ وہ علماء کو قتل کرتے، تعلیمی اداروں کو بند کراتے تا کہ بدعات وخرافات کی اشاعت میں کوئی رکاوٹ ان کے سامنے نہ ہو۔
علم دشمن صفویوں نے اس قدر ایرانی شہروں کو تباہ کیا کہ ان کے بعد آنے والی حکومتوں کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں اور خرافات وبدعات کے دامن میں گرفتار عوام علم کی روشنیوں سے محروم رہے۔ اہل علم اور صاحب درد لوگوں نے شیراز چھوڑنے کو ترجیح دی اور دور دراز علاقوں کا رخ کیا۔ اس طرح علماء کے چلے جانے سے علم بھی اس علاقے سے چلا گیا۔ اہل سنت والجماعت کے ترک وطن سے سنت اور اس کی برکات بھی کوچ کر گئیں۔ نتیجہ میں وہاں جہالت، نادانی اور مہلک بدعات و رسوم کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اخیر صدیوں میں اسلام دشمن تحریکوں میں سے بعض بڑی تحریکیں مثلا “بھائیت” اور “بابیت” کا ظہور اسی شہر سے ہوا جن کے ماننے والے اپنے باطل عقائد کی وجہ سے بالاتفاق دایرہ اسلام سے خارج ہیں۔ تاریخی حوالوں کے مطابق اس باطل مذہب کا بانی “علی محمدرضاشیرازی” بنیادی طورپر شیعہ تھا جوباطنی اور جاہلانہ تصوف کی تعلیم حاصل کرکے روسیوںِ، انگریزوں اور یہودیوں کے اشارے پر1260ہ۔ق ( 23مارچ 1844)کو مہدویت اور پھرنبوت کادعوی کیا۔ درحقیقت اس تحریک کی پیدائش اور پھر نشوونما کی اصل وجہ بھی صفویوں کی وحشیانہ حرکتیں تھیں جو اہل سنت والجماعت پر عرصہ حیات تنگ کر چکے تھے اور اپنے جاہلانہ خیالات ونظریات کی پرچار کرکے امت مسلمہ کو اس علاقے میں تتر بتر کر گئے۔ چنانچہ بچ جانے والے عوام اپنے روشن ماضی کو بھول کر جہالت، باطل عقائد اور جھوٹے دعووں کے شکار ہوگئے۔
اللہ تعالی ایک بار پھر اس شہر کو علم ودانش کا گہوارہ بنادے۔ آمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں